ریاست، حکومت اور میڈیا کی آزادی


بچپن میں پڑھتے تھے کہ۔ رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی۔ دنیا میں کم و بیش ستاون اسلامی ممالک ہیں کچھ میں مکمل بادشاہت ہے کچھ میں بادشاہت نما جمہوریت ہے اور بس۔ ہم اس بات کو مانیں یا نہ مانیں کہ باقی بردار ملکوں کی نسبت جمہوریت اور آزادی رائے میں ہم کافی بہتر حالات میں ہیں ہمارے ہاں گذشتہ اگست میں تیسری دفعہ بہت سوں سے بہتر اور اچھی جمہوری حکومت قائم ہوئی یہ اور بات ہے کہ کچھ حضرات کو پی پی حکومت جمہوری نہیں لگتی تھی کچھ کو ن لیگ کی حکومت دھاندلی والی لگتی تھی اور اب کچھ لوگوں کو موجودہ حکومت ووٹوں کے بجائے عطیہ شدہ حکومت لگتی ہے۔

اب بجائے ہم مسلم برادر ملکوں کی حکومتیں دیکھیں اور ان کی نام نہاد جمہوریت دیکھیں۔ ہم فوراً مغرب کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہر دوسری مثال وہاں کی دینا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن وہاں کی جمہوریت اور ہمارے ہاں کی جمہوریت میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً 96 فیصد لوگ مسلمان ہیں (یہ اور بات ہے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو مسلمان نہیں سمجھتا) تو جس طرح کی آزادی مغرب میں لوگوں کو حاصل ہے۔ اس طرح کی آزادی کو جمہوریت کو سوائے چند مغرب کی تقلید میں رہنے والے لوگوں کے نہ تو ہمارا معاشرہ اس بات کو قبول کرتا ہے نہ ہی ہمارا آئین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا مذہب۔ بھلے آپ اس کو قدامت پسندی کہیں ملا ازم کا نام دیں یا شعور کی کمی کہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔

بڑے بڑے اسلامی ملکوں کو دیکھیں وہاں ریاست کے خلاف بات کرنا ریاستی اداروں کے خلاف لب کھولنا تو دور کی بات۔ وقت کے حکمرانوں کے خلاف بات کرنے پر ہی آپ کو چیونٹی کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔ ترکی میں رجب طیب اردگان، مصر میں السیسی ایران میں علی خامنہ ای یا پھر خلیجی ریاستوں میں بالعموم اور سعودی عرب میں بالخصوص جو آزادی رائے کی ”سہولیات“ ہیں ڈھکی چھپی نہیں۔ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ پی پی حکومت پر اور زرداری اینڈ کمپنی پر اس کے بعد ن لیگ اور میاں برادران پر اور اب عمران خان اور ان کی حکومت پر جس طرح تنقید بلکہ تنقید چھوٹا لفظ ہے۔ جس طرح حملےکیے گئے حالانکہ ذاتی حملوں تک کیے گئے اور ان سب کو جس طرح آزادی رائے کا نام دیا گیا اور میڈیا میں جس طرح پروگرام کیے جاتے تھے اور کیے جاتے ہیں۔

کسی دوسرے مسلم ملک میں تو یہ باتیں اور تنقید خواب میں بھی نہیں سوچا جاسکتا۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے چیمپین کا ڈھنڈورا پیٹنے والا ہمسایہ ملک بھارت میں میڈیا اور آزادی رائے کا جس طرح گلا گھونٹا جارہا ہے وہ کیا کوئی ڈھکی چھپی بات ہے؟ پاکستان میں پھر بھی حالات بہتر ہیں۔ وہ کہتے ہیں نہ دوسرے کے گھر میں مہنگے برتن دیکھ کر اپنے گھر کے مٹی کے برتن نہیں توڑنے چاہئیں اور نہ ہی ان پر اعتراض کرنا چائیے۔ اسی طرح مغرب کے ”کچھ“ ممالک کی آزادی کا حوالہ دینے کے بجائے اپنی محدود سمجھنے والی آزادی اظہار بھی جو اتنا بھی کم نہیں کا ماتم نہ شروع کردیں۔ لیکن کچھ عرصہ ہوا کہ یہ راگ شد و مد سے الاپا جارہا ہے کہ صحافتی آزادی اور میڈیا پر بڑا پریشر ہے۔ بات کرنے کی لکھنے کی آزادی نہیں دی جارہی بڑے بڑے چینلز پر پریشر ڈالا جارہا ہے۔ اخبارات پر ایک خاص بیانیہ اور خیالات کو پیش کرنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے بات درست ہو ساری بات درست ہو کچھ حد تک درست ہو۔ لیکن ٹھہریں۔ ایک چھوٹی سی گذارش۔

اگر آپ اپنے گھر میں ایک بات اور کچھ خیالات قطع نظر اس کے مثبت اور منفی جو بھی ہو پیش کرنے ہوں۔ بجائے گھر کے گلی میں کھڑے ہوکر وہی باتیں کہیں۔ اور باتیں بھی وہ جو دشمن کے فائدے والی ہوں۔ اور اس سارے عمل کو لے کر آپ کا محلہ دار دشمن خوش ہو۔ تو اگر گھر کے کچھ افراد آپ کو سمجھائیں کہ آپ کی باتوں سے آپ کے عمل سے دشمن خوش ہوتا ہے تو یقینی بات ہے یہ سب بھلے آپ دانستہ کر رہے ہیں یا نادانستہ لیکن دشمن کو تو فائدہ پہنچا رہے ہیں نہ؟ آپ آگے سے اس کو اپنی رائے کہہ کر یا اپنی سوچ اور خیالات کہ کر اس سے جان نہیں چھڑا سکتے کیونکہ یہ سارا کچھ آپ کی رائے سے زیادہ پورے گھر کی سلامتی اور عزت کا مسئلہ ہے۔

یہی کچھ حال ہمارے میڈیا کا ہے۔ ذرا سوچیں کہ جمہوریت کی پٹڑی پر مشکل سے چلنے والے ملک میں یہ کیا کم آزادی ہے۔ کہ آپ اپنی فوج کو خلائی مخلوق کہیں۔ پاکستان کو بھوٹان کہیں۔ دہشت گردی کے پیچھے وردی والے نعرے لگائیں۔ عدلیہ کا سارا دن مذاق اڑائیں۔ فیصلوں پر تنقید کرنے کے بجائے ججز اور عدلیہ پر رکیک اور ذاتی حملے کریں۔ اور پھر ہر وہ صحافی جو بجائے تنقید کرنے کے۔ ریاست پر اس کے اداروں پر اس کی سلامت اور عزت پر ایسی باتیں کہے کہ جس سے صرف اور صرف دشمن ہی خوش ہوں۔ اور پھر ایسے صحافی اور اینکر حضرات کو ہم ہیرو بنا کے پیش کریں۔ ایں چہ است۔ ایسی تنقید کہ جس سے ہماری قوم ہماری ریاست کا فائدہ ہو بالکل کریں۔ لیکن ایسی فرمائشی قسم کی تنقید کے جس سے دشمن کو فائدہ ہو آپ کا ذاتی فائدہ ہو آپ کی بلے بلے واہ واہ ہو لیکن ریاست کا اداروں کا نقصان ہو باقی دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا جائے۔

ہمارے دشمن ایسی باتوں کو لے کر ہمارا ناطقہ بند کریں اور ایسی باتیں بطور ثبوت دنیا میں پیش کرکے ہماری مشکلات میں اضافہ کرائیں۔ اور ہم سب رائے کی آزادی اور جمہوریت کا نام لے کے ان باتوں کو خیالات کو جسیٹفائی کریں۔ تو یہ اس طرح ہوگا کہ ہم میں سے کوئی (اللہ نہ کرے) محلے میں لوگوں کے گھروں میں سارا دن تاک جھانک کرے اور آگے سے کوئی اس حرکت سے روکے تو ہم کہیں جی اللہ تعالیٰ نے آنکھیں دیکھنے کو دی ہیں لہذا میں تو دیکھوں گا۔ یہ باتیں تو پھر ”آپ دیاں اکھاں کڈان آلیاں گلاں نیں“ ( اپنی آنکھیں نکلوانے والی باتیں ہیں۔) اس لئے تو شروع میں کہا رب کا شکر ادا کر بھائی۔ اتنی آزادی بھی بہت ہے۔ اچھے اور زیادہ کے چکر میں آنکھیں نکلوانے والی نوبت نہ آجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).