اصل پی ٹی آئی


میں پی ٹی آئی کا انیس سو اٹھانوے کا رکن ہوں اس وقت پی ٹی آئی کی اصل وجہ شہرت آوٹ آف بک آئیڈیاز تھے۔ مجھے یاد ہے عمران خان نے سیاست کا آغاز اخبارات میں مضمون لکھنے سے کیا تھا۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ جو پاکستان کے سیاسی نظام میں تبدیلی کے خواہاں تھے جوق در جوق عمران کے ساتھ ملنا شروع ہو گئے۔ عمران کا ایک جملہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ عدالتوں پر انحصار کرنے کے لیے ہم پنچایتی نظام کو لیگلائز کر کے پانچ ہزار سال پرانے تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے مجھے لگا یہ شخص لگے بندھے طریقوں سے ہٹ کر کچھ کرے گا۔ پھر استاد محترم پروفیسر رفیق اختر صاحب نے بھی ان کے بارے میں مثبت بیانات دیے۔

میرا یہ ماننا تھا بلکہ آج بھی یہ ماننا ہے کہ ن لیگ بہت بہتر ہونے کے باوجود پاکستان کو لیڈ نہیں کر سکتی۔ میرے عمران خان کے بارے میں اعتماد پر پہلی دراڑ تب پڑی جب دھرنا دیا گیا۔ کچھ فیصلے اقتدار کی بھوک کو ظاہر کر رہے تھے طاہر القادری کا ساتھ دینا۔ وہ ٹائمنگ جب مشرف کا ٹرائل ہو رہا تھا میری نظر میں بہت اہم تھی۔ میں اور میرے جیسے بہت لوگ یہ خیال رکھتے تھے کہ کے پی کے میں پرفارم کر کے اگلا ووٹ اس پر لیا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں نہ کھیلا جائے۔ لیکن کپتان اب ٹیسٹ کرکٹ کے موڈ میں نہ تھا اور اسے یہ احساس شدت سے ستا رہا تھا کہ ڈھلتی عمر میں اس کے پاس شاید وزارت عظمی کا آخری موقع ہے۔ اس موقع پر خان کی حمایت ان لوگوں کے لیے تھی جو مخالف رائے رکھنے والوں کو بے دریغ گالیاں نکال رہے تھے۔ پی ٹی آئی جمہوری پارٹی سے باقی پارٹیوں جیسی بنتی جا رہی تھی۔

رہی سہی کسر عمران نے اقتدار میں آنے کے لیے سمجھوتے کر کے پوری کر دی۔ آج عمران کو وہی کچھ کرنا پڑ رہا ہے جس کے خلاف اس نے آواز بلند کی تھی۔ آئیڈیلسٹ پی ٹی آئی کے ارکان اب یہ کہہ رہے ہیں کہ باقیوں کو اتنے سال موقع دیا عمران پر چند دنوں میں تنقید کرنا زیادتی ہے۔ جبکہ میری رائے میں اگر آپ فیصل آباد سے لاہور جانے کے لیے جھنگ روڈ پر چڑھ رہے ہیں تو پہلے کلومیٹر سے آپ کو بتانا چاہیے کہ آپ غلط روڈ پر جا رہے ہو۔

اب بھی وقت ہے کئی حل موجود ہیں۔ پاکستان کے مسائل پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں۔ عوام سے حل طلب کیے جائیں بہترین حل پر انعام رکھا جائے۔ عمران خان کو چاہیے تسلی سے بیٹھ کر وزارتوں کے متبادل بندے ڈھونڈے اور وزرا کو صاف الفاظ میں بتا دے کہ چھ ماہ میں کارکردگی مثالی چاہیے۔ ورنہ متبادل بندوں کو وزارت دی جائے۔ ایک بات یاد رکھیں خان صاحب سیاست دانوں کی کرپشن آٹے میں نمک کے برابر ہے اصل کرپشن کرنے والی اسٹیبلشمنٹ ہے وہ آپ کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

سب سے پہلے خود اور تمام وزرا کو مہران گاڑی پر لے کر آئیں جان اللہ کی امانت ہے اگر بلٹ پروف عینک کے باوجود جان ایف کینڈی کو سڑک پر سر عام گولی لگی تھی تو آپ اس سے زیادہ کیا سکیورٹی لیں گے؟ اداروں نے آپ کو ڈرایا ہے کہ ہم نے اتنے بندے پکڑے ہیں جو آپ کو قتل کرنے آئے تھے لہذا آپ ہیلی کاپٹر پر سفر کریں (یہ بات پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں بہت تواتر سے دہرائی جا رہی ہے) وغیرہ لیکن جب آپ خود سہولیات نہیں چھوڑیں گے دوسری قسط میں وزرا سے نہیں چھڑوائیں گے اور تیسری قسط میں بیوروکریسی سے نہیں چھڑوائیں گے آپ کے دعوے محض دعوے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).