نوٹِس، ہمارے حکمران اور ادارے


ایم سعید اختر

\"marvi\"\”نوٹِس مِلیا تے کَکھ نہ ہِلیا\” یہ فقرہ ایک دفعہ بابر اعوان صاحب نے بولا تھا اور اس کے بعد وہ غیر مشروط معافی تک، ککھ کی بجائے خود ہلتے رہے تھے۔

اصل میں جن کی طرف سے انہیں نوٹس ملا تھا، وہ اس وقت انصاف کے افق پر جون، جولائی کے سورج کی طرح \”دہک\” رہے تھے۔

دنیا کے دو سو سے زیادہ، مہذب اور غیر مہذب، جمہوری اور غیر جمہوری ممالک میں سے،\”نوٹس\” کا جس قدر، بے تحاشہ، ہر جگہ اور بے دریغ استعمال ارضِ پاک پر ہوتا ہے، اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ کچھ نوٹس وہ ہوتے ہیں جو اساتذہ کرام ہمیں درسگاہوں میں دیتے ہیں۔ یہ نوٹس کم سے کم ایک سال تک تو سنبھال سنبھال کر رکھے جاتے ہیں اور پھر ہم رٹا مارمار کر سال کے آخر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ ان کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر وہ نوٹس ہیں جو ہمارے حکمران لیتے ہیں (نجانے اوبامہ، کیمرون، ٹروڈن، شیخ محمد راشد، انجیلا مرکل اور دوسرے بے شمار حکمران، کیسے بے حس واقع ہوئے ہیں، جو ایسے واقعات پر نوٹس ہی نہیں لیتے۔ خدا جانے، وہاں کی عوام کو انصاف کیسے ملتا ہے؟ ملتا بھی ہے یا نہیں)۔

کبھی چینی مہنگی ہونے پر،کبھی گینگ ریپ پر، کبھی اس ملک کی سڑکوں پر دن دیہاڑے قتل پر، کبھی اس بات پر نوٹس لے لیا جاتا ہے کہ کسی انسان کو زندہ جلا دیا گیا ہے اور کبھی جاگیر دار کے ڈیرے پر کام کرنے والے بچے کے بازو کاٹنے پر، لیکن یہ نوٹس نقش برآب ثابت ہوتے ہیں۔ کچھ لہریں ٹی وی چینلز پر ٹکر بناتی ہیں اور حکمرانوں کا کام ختم شد۔ اس کے بعد جو پولیس کی تفتیش شروع ہوتی ہے تو \”حقائق\” سامنے آنے پر مقتول کی روح قاتلوں کی شکر گزار ہوتی ہے کہ قاتلوں نے قتل کرتے وقت نہایت رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی جھٹکے سے کام تمام کر دیا۔ ورنہ نزع کا عالم اور موت کا خوف توبہ توبہ۔ مزید برآں، تفتیش کے لا متناہی عرصے (کیونکہ مکمل تفتیش کئی نسلوں تک بھی جاری رہ سکتی ہے) اور فوائد میں سے ایک، مقتولین کے ورثاء کے دل میں، اچانک قاتلوں کے لیے جذبہ درگذر اس شدت کے ساتھ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ قاتلوں کو کسی بھی شرط اور قصاص کے بغیر ہی معاف کردیتے ہیں۔ جس معصوم بچے کے دونوں بازو وڈیرا کاٹ دیتا ہے۔ تفتیش کے بعد ثابت ہوجاتا ہے کہ دونوں بازو چارہ کاٹنے والی مشین میں آ کر، حادثاتی طور پر کٹ گئے تھے۔ ورثاء تفتیش سے نہایت مطمئن ہیں اور حاکمِ اعلی کے نوٹس لینے پر شکرگزار، اور یوں یہ تفتیش اور نوٹس والا سلسلہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔

عرصہ دراز سے اب ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قسم کے نوٹسوں کے محتاج ہو چکے ہیں۔

بہتر تو یہی ہے کہ ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا جائے کہ ملک کے تمام تھانوں میں ایف-آئی-آر کا اندراج اور تفتیش کا آغاز، صرف \”نوٹس\” لینے کے بعد ہی کیا جائے گا تا کہ مجرموں کو اچھی طرح پتا چل جائے کہ اب کوئی نوٹس لینے والا موجود ہے اور وہ قانون کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ اس سےجرائم خود بخود کم ہو جائیں گے۔

ریاستی جزا اور سزا کا تو خیر ہمارے معاشرے میں تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ بلکہ اب تو معاشرہ اور رشتے بھی اس قدر سنگدل ہو گئے ہیں کہ شفقت، پیار اور محبت کے جس رشتے کو قادرِ مطلق نے بنیاد بنا کر فرمایا تھا، کہ میں تم سے ستر ماوں سےبھی زیادہ پیار کرتا ہوں، وہ بھی اپنی اولاد کو زندہ جلا رہی ہے۔ اب اس پر کون نوٹس لے؟

حکمرانوں سے درخواست ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر نوٹس نوٹس کھیلنے کی بجائے،ایک ہی دن ان اداروں کا نوٹس لے لیں جن کو ریاست نوٹس لینے کے لیے مقرر کرتی ہے اور عوام کے ٹیکسوں سے وہ نوٹس لینے کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ خدا نہ کرے وہ دن آئے جب وہ \”قہار\” خود نوٹس لے لے، اور ان ناخداوں کو ایک اور نوٹس لینے کا موقع ہی نہ ملے، پھر سینکڑوں سالوں بعد ہماری باقیات سےصرف کچھ نوٹس ہی دریافت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments