ستاروں کی چھاؤں میں کرنوں کا رقص، کتاب اور بوسہ  ۔۔۔۔ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا بنام رابعہ الربا


دو دن پہلے ایک مریض‌ اپنی اپوائنٹمنٹ کے وقت پر غیر حاضر تھے جس سے مجھے کچھ منٹ فراغت ملی تو ’ہم سب‘ پر آپ کا ایک خط پڑھا۔ اس کے نیچے ایک صاحب نے تبصرہ لکھا تھا جو کچھ اس طرح‌ تھا کہ کیا صرف خواتین ہی محبت کو سمجھتی ہیں اور مردوں‌ کے خیالات کے بارے میں‌ بھی لکھا جائے۔ اب اچھی طرح‌ یاد نہیں‌ لیکن کچھ ایسے ہی تھا۔ انہوں‌ اس بات کو اپریشئیٹ نہیں‌ کیا کہ آپ کی بدولت خواتین کے خیالات اور احساسات سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔ دیکھئے لوگ کس طرح‌ اپنے وجود میں‌ مقید ہیں جہاں‌ وہ دوسرے انسانوں‌ کو نہ یہ سمجھتے ہیں اور نہ یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاریخ بہت لمبی ہے۔ ہزاروں‌ سالوں‌ سے مرد ہی لکھتے اور لکھاتے آئے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ تورات صرف باپ بیٹے ہی پڑھتے تھے۔ خواتین کو اسے چھونے یا پڑھنے کی اجازت تک نہیں تھی۔ مردوں نے خود ہی ساری تاریخ، سیاست، نفسیات، طب، مذاہب خود کو ہی دنیا کا مرکز بنا کرلکھے ہیں۔ زبان بھی مردوں نے ہی بنائی ہوئی ہے۔

یہ اتنا گہرا اور پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ خواتین کو یہ تک نہیں‌ معلوم کہ ان کے الفاظ اور ان کی سوچ ان کی اپنی نہیں ہے۔ اسی لیے مجھے ان خواتین کو دیکھ کر کچھ حیرانی نہیں‌ ہوتی جو پدرانہ معاشرے کی علمبردار بن جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں‌ یقینا” ان کی اپنی زندگی بہت اچھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ غریب خواتین کو بلاوجہ شکایتیں‌ کرنے کے بجائے کیک کھا لینا چاہئیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ 53% سفید فام خواتین نے ٹرمپ کے لیے ووٹ ڈالا۔ یہ خواتین تاریخ‌ میں‌ ہمیشہ غلط سمت میں‌ رہی ہیں۔ خواتین ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد میں‌ رہیں‌ یا طلاق کے قوانین کو ماؤں‌ کے لیے بہتر بنانے کی کوشش میں، مذہبی اور قدامت پسند بیگمات نے ان کی مخالفت کی کیونکہ ان کی اپنی زندگی میں‌ یہ مسائل نہیں‌ تھے۔ چونکہ ان کے لیے سب ٹھیک ہی چل رہا ہوتا ہے وہ اس کشتی کو جھٹکے نہیں‌ دینا چاہتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ان کو یہ یاد نہیں‌ رہتا کہ ان کی اپنی زندگی آج اس لیے بہتر ہے کیونکہ ان کو میسر حقوق کے لیے بائیں‌ بازو کی خواتین نے آواز اٹھائی تھی۔ یہ ذہنی بیڑیاں صدیوں‌ پرانی ہیں اور یہ دو دن میں‌ اترنے والی نہیں‌ ہیں۔

خواتین لکھاری آٹے میں‌ نمک کے برابر ہیں لیکن وہ ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ پچھلے سال ہم لوگ بک کلب میں‌ فلاسفی کی کتاب پڑھ رہے تھے۔ 2017 میں‌ جیمز کورسی جو نارمن کے ہائی اسکول میں‌ فلاسفی کے ٹیچر ہیں، انہوں‌ نے یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ گلین جو اب ریٹائرڈ سائیکولوجسٹ ہیں انہوں‌ نے ایک عمدہ نقطہ اٹھایا۔ انہوں‌ نے کہا کہ کافی سارے اقوال قدیم ناموں‌ کے ساتھ مشہور ہیں اور لوگوں‌ نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ یہ یورپی مردوں کے نام ہیں حالانکہ وہ خواتین کے بھی ہوسکتے ہیں اور شائد ہیں بھی۔ رابعہ، آپ کی طرح‌ کی خواتین معاشرتی تبدیلی کا حصہ ہیں۔ آپ اپنے احساسات اور تجربات بیان کریں‌ گی تو اس سے لوگوں کو کچھ سمجھ آنا شروع ہوگا کہ خواتین مکمل انسان ہیں۔ ان کے اپنے آدرش اور زندگی کے مقاصد ہیں۔ ان کے اپنے خیالات بھی ہوسکتے ہیں، ہوتے بھی ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔

شائد آپ پاکستان میں‌ رہتی ہیں۔ جس کے لیے مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ صرف معاشرتی ، مذہبی اور سماجی طور پر ہی نہیں بلکہ اس ملک میں‌ باقاعدہ قانون کی سرپرستی میں‌ خواتین کے لیے تعصب اور تفریق موجود ہے۔ اس بات کے بارے میں‌ کافی لوگ جانتے تک نہیں ہیں کیونکہ جب کسی نے سمندر نہیں دیکھا ہوتا تو اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سمندر کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اپنی اور اپنے بچوں‌ کی بہتر زندگی کے لیے وہ ملک چھوڑ دیا جہاں‌ ہم پیدا ہوئے تھے لیکن مجھے اب اس بات کا افسوس نہیں رہا۔ آپ نے اپنے خطوط میں‌ معاشرے کی منافقت پر بات کی ہے جن پر بات کرنا شجر ممنوعہ ہے۔

 

ہمارے کالج کے پروفیسر سر زبیری پاکستان سے امریکہ گھومنے آئے اور انہوں‌ نے مجھے بتایا کہ اب یونیورسٹیوں‌ میں‌ باقاعدہ جنسی ہراسانی سے متعلق تعلیم دی جا رہی ہے۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی۔ دیر آید درست آید۔ آپ کی طرح‌ خواتین پڑھتی رہیں گی اور ہر شعبے میں‌ آگے آئیں گی تو آہستہ آہستہ دنیا سدھرنے لگے گی۔ خاموشی جنسی مجرموں‌ کے لیے ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ وہ اسی لیے دھڑلے سے یہ جرائم کرتے آئے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین یا کم عمر لڑکے کبھی آگے آکر ان کی شکایت نہیں کریں‌ گے۔ ان خواتین کو ہی میلی یا شادی کے لائق نہ ہونا سمجھا جائے گا۔ وہ خود کو بھی ایسا ہی سمجھنے لگتی ہیں۔ کچھ خاندان ان کو جان سے ماردیتے ہیں اور کچھ خودکشی بھی کرلیتی ہیں حالانکہ مجرم کو سزا ہونی چاہئیے نہ کہ مظلوم کو۔ کافی لوگوں‌ نے حج کرلیے ہیں اور بزرگ بن بیٹھے ہیں لیکن ان کا پردہ چاک کرنا اور بل کاسبی کی طرح ان کو بھی جیل میں‌ ڈالنا ضروری ہے تاکہ مستقبل بہتر ہو۔ کتنی خواتین کا کیریر ان لوگوں‌ کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے۔ یہ لوگ دنیا کو ایک بدتر جگہ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔

1993 میں‌ میں‌ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہوگئی تھی۔ اس دن سے لیکر آج کے دن تک میں‌ نے بہت ساری مختلف جگہوں‌ پر کام کیا، پڑھائی کی، اکیلے سفر کیا۔ صرف امریکہ ہی کیا، یورپ اور کینیڈا بھی اکیلے چلی گئی۔ آج تک ہمیں‌ یہاں‌ کسی نے ہراس نہیں کیا۔ یہاں‌ پر خواتین کے حقوق کے لیے ایک صدی سے کام ہورہا ہے اور میری طرح‌ کی خواتین اور میری بیٹی اس جدوجہد کی بینیفشریز ہیں۔ میں‌ پروفیسر انیٹا ہل اور ڈاکٹر فورڈ کی طرح‌ کی ان تمام خواتین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں‌ جن کے آواز اٹھانے سے اور نظام میں تبدیلی لانے سے آج ہم ایک اچھی زندگی گزارنے کے لائق ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3