ہجرت کے ارمان سے مسافرت کے دکھ تک


مجھے بچپن سے ہی سفر سے متعلق ہر چیز پسند تھی۔ سفر، مسافر، ریلوے سٹیشن، ہوائی اڈا، بس اسٹاپ، کونجیں، ہجرت، ہجرت کی کہانیاں، مہاجر، دور دیسوں میں بسنے والے رشتےدار، بارڈر پے جاتے فوجی، ہوسٹل میں رہنے والا بھائی، خط، ڈاکیا غرض یہ کہ جس میں چیز میں ہجرت ہوتی مجھے اچھی لگتی۔ اور تو اور محبّت کی کہانیوں میں ہجر اچھا لگتا تھا، وصل میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔ مدینہ کے انصاروں سے زیادہ مکّہ کے مہاجر اچھے لگتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کی ساری کہانیوں اور قصّوں میں وہ لوگ پسند تھے، جنہوں نے ہجرت کی، چاہے وہ یہاں سے گئے یا پھر آئے۔

میں بڑی ہو کر ہجرت کرنا چاہتی تھی، جس زمانے میں سب بچے ڈاکٹر یا انجنیئر بننا چاہتے تھے، میں مہاجر بننا چاہتی تھی اور پھر دور دیسوں کی عجیب و غریب کہانیاں سنانا چاہتی تھی، وطن کی یاد میں شاعری کرنا چاہتی تھی۔ ہر ڈھائی تین سال کے بعد والد صاحب کے ٹرانسفر نے ویسے ہی پاؤں میں چکر ڈال دیے تھے۔ اس وقت فیس بک، انسٹاگرام یا اس قماش کی چیزیں نہیں تھی تو ہم جو کرتے تھے، خود کے لیے کرتے تھے۔ ہر نئی جگہ جانے کی خوشی، پرانی جگہ کو بھلانے میں مددگار ہوتی تھی اور ویسے بھی میرے اندر کی کونج جیسی لڑکی سمجھتی تھی کہ اگلے کسی سفر میں یہ بچھڑے لوگ ضرور مل جائیں گے ( اگرچہ کوئی بچھڑا ملتا نہیں ہےکبھی )۔ پھر زندگی میں بہت کچھ بدل گیا، سفر کم ہو گئے مگر ہجرت کا شوق کم نہ ہوا۔

تعلیم اور پھر نوکری کے لیے ایسا شہر چنا جہاں گھر نا ہو۔ میں مہاجر بن کے اس شہر میں رہتی رہی۔ عارضی گھر، عارضی سامان اور مستقل دوست بناتی رہی۔ جب کبھی کوئی دوست یا سہیلی زندگی کی کسی مشکل کا ذکر کرتے تو جھٹ سے کہتی، ارے بھئی سفر کرو، ہجرت کرو، ہجرت میں برکت ہوتی ہے، جگہ بدلے گی، آب و ہوا بدلے گی، لوگ بدلیں گے تو چیزیں بہتر ہو جائیں گی، اچھی ہو جائیں گی۔ یہ کہنا بہت آسان تھا۔ بچپن کی خواہش پوری ہوئی اور میں چھوٹی چھوٹی ہجرتیں کرتی، بڑی ہجرت کا فیصلہ کر بیٹھی۔ کہانیوں میں بھی تو کونج وہیں جاتی ہے، جہاں اس کا ”ہیپی پرنس“ ہوتا ہے۔

اب ہجرت مکمّل ہو گئی ہے تو احساس ہوا ہے جیسے بچپن میں بہت سی چیزیں تصور میں کچھ اور تھی مگر حقیقت میں کچھ اور۔ امی کے جہیز کی بچی کچھ چیزیں ہمارے لیے خوبصورت کرتے تھے تو امی کے لیے نانی کا لمس یا جیسے منگلا ڈیم کے پار پریاں نہیں سوکھے پہاڑ تھے۔ ہجرت بھی ویسا ہی سراب نکلی۔ ماں باپ چھوڑے، گھر، بہن بھائی، دوست، سہیلیاں، ملک چھوڑا تو سوچا تھا کہ نئی جگہ زیادہ سے زیادہ کتنی مختلف ہوگی۔ زبان کی تو دقت ہوگی نہیں، میں تو تب بھی انگریزی بولتی تھی جب نہیں آتی تھی، اب تو پھر گرامر کی غلطی کم ہی ہوتی ہے۔ کھانے پکانے کی میں شوقین بھی ہوں اور ماہر بھی تو اس میں بھی مسئلہ نہیں ہوگا۔ بہن بھائی اور دوست تو ویسے بھی اب وہاٹس اپپ اور فیس ٹائم پے ہی ملتے ہیں۔ پھر دقت کیا ہے۔

بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں، جو جس چیز کا خواب بچپن میں دیکھتے ہیں، اس کو پا بھی لیتے ہوں۔ ”میں بڑی ہو کر ہجرت کروں گی“۔ اب کیوں کے ہجرت کے ساتھ ساتھ بڑی بھی ہو گئی ہوں تو ہجرت کا دکھ سمجھ میں آتا ہے۔

مجھے ان لوگوں کے لہجوں کی سمجھ نہیں آتی۔ میں بات سمجھ جاتی ہوں مگر لگتا ہے اصل بات نہیں سمجھی۔ ہر کوئی مسکرا کر ملتا ہے مگر لگتا ہے، کوئی دوست نہیں ہے۔ اچھے سے اچھے کھانے میں بھی ”شاہ جی“ کے دال چاول کا ذائقہ نہیں آتا۔ اچھے سے اچھے برگر میں بھی ”نگینہ“ کا برگر یاد آ جاتا ہے۔ امی اب بہت پیار اور فکر سے بات کرتی ہیں مگر مجھے ان کی ڈانٹ بھری آواز کا انتظار رہتا ہے۔ ابو جی کو سنانے کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔ سب دوست کال جلدی اٹھا لیتے ہیں اور مجھے بار بار نظر انداز ہونے کی عادت تھی۔ میں جس خاموشی اور سکوت بھری صاف فضا کو ترستی تھی، وہ یہاں وافر ہے مگر میں شور کو ڈھونڈتی ہوں۔

میں ہمیشہ سوچتی تھی، جب بھی ایک دیس سے دوسرے دیس جاؤں گی تو اس کو اپنا لوں گی، کوئی موازنہ نہیں کروں گی۔ میں اس جگہ کو اپنا رہی ہوں، کسی بھی چیز کا موازنہ پیچھے چھوڑ آنے والے شہر سے نہیں کرتی، مگر مجھ سے ہجرت کا یہ دکھ اٹھایا نہیں جاتا، آج میں آدم کی ہجرت سے لے کر افریقی غلاموں، دربدر ہوئے بنی اسرائیل سے لے کر مکّہ کے مہاجروں، برصغیر کے دونوں طرف کے مہاجروں، شام کے مہاجروں اور ہر اس شخص کے دکھ کو سمجھ رہی ہوں جو کسی بھی وجہ سے اپنا دیس چھوڑ دیتا ہے۔ میں اب سمجھی ہوں کہ ہماری نصاب کی کتابوں میں، ”میں بڑی /بڑا ہو گے کیا بنوں گی/گا؟ جیسے سوالات کے جوابات میں مہاجر کا آپشن کیوں نہیں تھا۔

آخر میں ایک نظم کہ وطن سے دور وطن کی یاد میں شاعری اب ہی تو کر سکتی ہوں۔
” اجنبی دیاروں میں اجنبی زمینوں پر
زندگی گزرتی ہے یا گزاری جاتی ہے
رات دن میں ڈھلتی ہے
اور دن میرے تن سے ہانپتا نکلتا ہے

خواب خواب شہروں کی
اجنبی فصیلوں سے
خوف مجھ کو تکتا ہے
گلیاں سی بکتا ہے
اجنبی زبانوں کے
اجنبی سے لہجوں میں
شور ہوتا رہتا ہے

کچھ سمجھ نہیں آتا
کس سے بات کرنی ہے؟
کون میرے لہجے میں
مجھ سے اب مخاطب ہو

بھانت بھانت کی آنکھیں
ارد گرد رستوں پر سیر کرتی رہتی ہیں
شاد شاد کرنوں سے کھیلتی ہی رہتی ہیں

میرے دل کی وحشت کو
کوئی کیوں نہیں سنتا
میرے تن کی چادر پر
گرد پڑتی رہتی ہے

اجنبی دیاروں میں، اجنبی زمینوں پر
زندگی گزرتی ہے یا گزاری جاتی ہے
جی مگر نہیں سکتے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).