وہ ان کہی جو آج بھی لفظوں سے محروم ہے


میں اپنی نئی غزل ایڈیٹر صاحب کے حوالے کر کے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔ میں ان دنوں ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کے ادبی صفحے کا انچارج تھا۔ ابھی اسی حوالے سے کوئی بات کرنی تھی۔ اچانک خوشبو کا ایک جھونکا آیا اور میں نے بے اختیار دروازے کی طرف دیکھا۔ اٹھارہ انیس برس کی ایک خوش شکل لڑکی دروازے سے اندر آ چکی تھی۔ عام طور پر ایڈیڑ صاحب ایسی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے مگر اس وقت خاموش رہے۔ ”جی مجھے ساگر صاحب سے ملنا ہے؟ “ اس نے ایڈیٹر صاحب سے مخاطب ہو کر کہا۔ ایڈیٹر صاحب جو ہمہ تن گوش تھے برا سا منہ بنا کر بولے، ”تو ملئے“ اور پھر میز پر پڑے آرٹیکل کی طرف متوجہ ہو گئے۔ لڑکی نے چند لمحے انتظار کیا پھر ذرا تیز لہجے میں بولی، ”سر میں نے ایک سوال کیا تھا۔ “، ”تو میں نے بھی جواب دے دیا تھا، مل لیجیے۔ “ اس بار ایڈیٹر صاحب نے میری طرف اشارہ کیا۔ تب پہلی بار اس نے مجھے نظریں بھر کر دیکھا۔

آپ ساگر صاحب ہیں؟ اس کے لہجے میں بے یقینی تھی۔ ”جی ہاں، کوئی شک؟ “ ان دنوں میں ساگر تخلص کیا کرتا تھا۔ ”جی نہیں“ اس نے ایسے لہجے میں کہا جیسے ابھی تک یقین نہ آیا ہو۔ ”در اصل میں آپ کی فین ہوں، میں تو سجھتی تھی آپ کوئی بوڑھے شخص ہوں گے“ وہ بولی۔ اس خیال کی وجہ جان سکتا ہوں؟ میں نے سوال کیا۔ آپ کی شاعری میں جو پختگی ہے، اس وجہ سے۔ جواب منطقی تھا۔ فرمائیے! کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ وہ میرے سامنے بیٹھ گئی پھر پرس سے ایک ورق نکالا، ”میں فرح ناز ہوں، یہ میری غزل ہے، اصلاح کے ساتھ شائع بھی کر دیجیے۔ “ معمول کی بات تھی۔ میں نے غزل سرسری انداز میں پڑھی، چند اشعار میں اصلاح کی گنجائش موجود تھی۔ بہ ہر حال وہ چلی گئی۔ آئندہ شارے میں اس کی غزل شاملِ اشاعت تھی۔

ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ اس کا خط موصول ہُوا۔ یہ 1997 تھا اور ابھی موبائل فون کا دور نہیں آیا تھا۔ خط خاصا طویل تھا۔ جس میں میری تعریفوں کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا تھا، تازہ غزل بھی تھی۔ میں نے خط کے مندرجات پر زیادہ غور نہ کیا اور غزل کی اصلاح کر کے خط کا جواب تحریر کیا اور اس کے پتے پر پوسٹ کر دیا۔ وہ میرے شہر سے بیس کلو میٹر دور ایک قصبے میں رہتی تھی۔ یوں خط و کتابت کا سلسلہ چل نکلا۔ ہر خط میں وہ اپنے بارے میں زیادہ اور شعر و سخن کے حوالے سے کم لکھتی تھی۔ تاہم خط کے ساتھ ایک غزل لازمی بھیجتی تھی۔

اب میں یہ جانتا تھا کہ اسے کون سا موسم پسند ہے، وہ کس رنگ کے کپڑے پہننا پسند کرتی ہے، شاعری اس کی طاقت اور چائے اس کی کمزوری ہے۔ بعض اوقات وہ بڑی ذاتی قسم کی باتیں بھی لکھ دیتی تھی جس پر مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی۔ ایسی باتیں جن کا علم شاید اس کے اور میرے علاوہ کسی کو بھی نہیں ہوتا تھا۔

پھر اس کا ایک خط ملا جس میں اس نے بڑی اپنائیت سے اپنی برتھ ڈے پارٹی کی دعوت دی تھی اور اصرار کیا تھا کہ میں ضرور اس میں شامل ہوں، اس نے لکھا تھا کہ یہ عام پارٹیوں سے مختلف پارٹی ہو گی۔ چناں چہ میں وقتِ مقررہ پر اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اس کا گھر ڈھونڈنے میں مجھے کوئی دقت نہ ہوئی کیوں کہ اس نے مجھے خط میں اچھی طرح پتہ سمجھا دیا تھا۔ اس کا گھر متوسط طبقے کے عام گھروں جیسا ہی تھا لیکن جب میں اس کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہاں خاص اہتمام تھا۔ ایک طرف صوفہ اور کرسیاں تھیں لیکن ہمارے بیٹھبے کے لئے فرشی نشست تھی۔ قالین پر گاؤ تکیے موجود تھے میرے علاوہ اسی قصبے کے دو بزرگ شاعر بیٹھے تھے اور دو نوجوان شاعرات تھیں۔ ”امین آزاد اور ساجد قیوم صاحب سے تو آپ واقف ہوں گے، یہ میری سہیلیاں ہیں، نغمہ امبر اور عظمیٰ قندیل۔ “ اس نے تعارف کرایا۔ اوہ! آپ دونوں کی تو کئی غزلیں میں ”لیل و نہار“ میں شائع کر چکا ہوں۔ میں نے چونک کر کہا اور وہ دونوں مسکرانے لگیں۔

کیک کٹا، مبارکباد کا شور اٹھا پھر مشاعرہ ہوا۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ کھانا کھایا گیا، کھانے کے بعد میں نے میزبان سے رخصت کی اجازت مانگی لیکن نہ ملی۔ بزرگ شاعر فوراً رخصت ہو گئے۔ لڑکیوں کا دیر تک بیٹھنے کا پروگرام تھا مگر فرح نے ان کو خود بھیج دیا۔ پھر میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔ ”میں نے آپ کو ایک بہت ضروری مسئلے پر مشورے کے لئے بلایا تھا۔ “ اس نے میری طرف جھکتے ہوئے ایسی بے تکلفی اور اپنائیت سے کہا جیسے برسوں سے میری شناسا ہو۔

” فرمائیے“ میں نے پہلو بدل کر کہا۔ ”اب کیا کہوں، آج آپ کا سارا دھیان تو عظمیٰ قندیل اور امبرکی طرف تھا۔ “ اس نے ناراضی دکھائی۔
”نہیں تو، وہ اپنی کسی غزل پر مشورہ چاہتی تھیں۔ “
”کہیں آپ کو نہ چاہنے لگیں، ان دونوں لڑکیوں کے منہ لگنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ بڑی چالاک ہیں اور ناقابلِ اعتبار بھی۔ “ وہ یہ بات کہتے ہوئے میری طرف اتنا جھک گئی کہ میں اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا۔ میں نے ڈرائنگ روم کے اندرونی دروازے کی طرف دیکھا جو کھلا تھا پھر اس سے پوچھا ”گھر میں اور کون کون ہے؟ “
”میرے بھائی، بھابی اور ان کے دو بچے ہیں۔ “ وہ اس تقریب میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ وہ ہمارے قبیلے سے نہیں ہیں، ان کی اپنی دنیا ہے۔ وہ بولی۔ ”
” اور تمہارے ماں باپ؟ ”تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کو اس دنیا میں لا کر خود دوسری دنیا میں چلے گئے۔ چار بیٹیوں کے بعد شاید وہ چار بیٹے چاہتے تھے مگر میں آگئی، میں سب سے چھوٹی ہوں، مجھے تو فالتو سمجھتے ہوئے بمشکل قبول کیا گیا تھا۔ بڑی چار تو شادی کے بعد رخصت ہو گئیں اور دو بھائی بھی روزگار کے سلسلے میں گھر سے دور بس گئے، میرے خیال میں اتنی تفصیل کافی ہے۔ “ اس نے جواب دیا۔

”تو مسئلہ کیا ہے؟ میں نے پوچھا۔ “
”میرے بھائی اور بھابی میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ “
”اور تم کیا چاہتی ہو؟ “
” میں نے گریجویشن کی ہے اور پڑھنا چاہتی ہوں، شاعری کرنا چاہتی ہوں، کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں، اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔ “ اس کا لہجہ خوابناک تھا۔
” میں تمہارے بھائی سے بات کروں گا“ میں نے اسے تسلی دی۔
” ایک کریانہ مرچنٹ، آٹا دال بیچنے والا آپ کی بات نہیں سمجھے گا، اچھا میں آپ کے لئے چائے لاتی ہوں۔ “ اس نے ایک گہری سانس بھری اور اٹھ گئی۔ میں وہاں سے اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

چند منٹ بعد وہ چائے کے دو کپ لائی اور میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی، اتنے قریب کہ اس کے لمبے بال میرے کندھوں پر لہرا رہے تھے۔ میں نے بمشکل گرم چائے کا سپ لیا۔ ”تم شادی کر لو، تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ “ میں نے مشورہ دیا۔
”نہیں ابھی میں نے آپ سے مشورہ نہیں مانگا، ابھی بتا رہی ہوں، میں وہی کروں گی جو آپ کہیں گے لیکن ابھی نہیں“۔
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، ان خوبصورت آنکھوں میں اتنا حزن تھا کہ میں زیادہ دیر تک دیکھ نہ سکا۔ نہ جانے کتنی دیر ہم خاموش رہے۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔

دو تین ہفتے گزر گئے، اس دوران اس کے کئی خط ملے، میں ان خطوط کے جوابات روانہ کرتا رہا۔ پھر ایک دن انتہائی مختصر ملا۔ صرف ایک جملہ لکھا تھا۔ ”اب آ جائیں ناں، آپ سے بات کرنی ہے۔ “ دل بے قرار ہو گیا۔ ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے۔ میں اسی دن شام کو اس کے گھر پہنچا۔ ڈور بیل بجائی تو ایک شخص نے دروازہ کھولا، وہ چالیس کے لگ بھگ لگ رہا تھا، سر بال کچھ اڑے ہوئے تھے۔ ساگر صاحب؟ اس نے سوالیہ انداز میں کہا۔ میں نے سر ہلایا تو اس نے احترام سے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا اور خود اندرونی دروازے سے گھر کے اندر چلا گیا۔

چند لمحوں بعد وہ اندر آئی، بغیر کچھ کہے میرے ساتھ صوفے پر بیٹھی اور میرے کندھے پر سر رکھ دیا۔ اس کے جسم میں ہلکی سی لرزش تھی۔ میں نے ہاتھ سے اس کے گھنے بال اس کے چہرے سے ہٹاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھی تو دل پگھلنے لگا۔

” فرح کیا ہوا ہے؟ کچھ تو بتاؤ؟ میں بے چین تھا۔ “
”بھابی آٹھویں بار ایک رشتہ لائیں تھیں، میں نے صاف انکار کر دیا۔ “ وہ بولی۔
” میں ابھی تمہارے بھائی سے بات کرتا ہوں کہ وہ تمہیں کچھ سال دے دیں جینے کے لئے۔ “ میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بازو سے کھینچ کر پھر بٹھا دیا۔
” ہم اپنی باتیں نہیں کر سکتے، آپ ان کو بیچ میں کیوں لا رہے ہیں۔ “
”تم سمجھتی نہیں ہو میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا۔ “
”اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو میری نیند کہیں سے لا دیں، میں کئی راتوں سے نہیں سوئی۔ “ اس نے میرے کندھے پر سر رکھتے ہوئے گہری سانس لی۔ میں اس کے بالوں کو دھیرے دھیرے سہلاتا رہا اور وہ سو گئی۔ کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک گونجتی رہی اور میں اس کا پر سکون چہرہ دیکھتا رہا۔ نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا میں اسے جگانا نہیں چاہتا تھا اور ایسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔

پھر میں نے اسے دھیرے سے پکارا۔ ”فرح فرح۔ ۔ “ اس نے خمار آلود آنکھیں کھولیں اور مسکرا اٹھی۔ ”میں آپ کو پریشان کرتی ہوں ناں“ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ ”جھوٹ مت بولیں، آپ میری وجہ سے پریشان ہیں، میری وجہ سے آپ کے کام کا بھی حرج ہوتا ہے۔ شاید آپ دوبارہ میرے بلانے پر بھی نہیں آئیں گے۔ میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کو کوئی تکلیف یا پریشانی ہو۔ “ وہ بول رہی تھی لیکن میں کچھ سوچ رہا تھا۔ مجھے واپس آنا تھا، میں آگیا اور پھر رات کو اپنے کمرے میں لیٹا سوچ رہا تھا کہ واقعی کئی دنوں سے میں نے کچھ نہیں لکھا تھا، کچھ نہیں پڑھا تھا۔ میں کیا کر رہا تھا مجھے سوچنا تھا۔ اگلے دن میں کراچی چلا گیا تا کہ اپنے شہر سے دور کچھ دن گزاروں اور اپنی نگارشات پر توجہ دوں۔ اس دن کے بعد میں فرح سے کبھی نہیں ملا۔ آج برسوں بعد ایک الماری میں کتاب ڈھونڈتے ہوئے اس کا ایک پرانا خط ملا۔

ایکا ایکی جیسے وقت اکیس سال پیچھے چلا گیا۔ وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھی۔ اس نے مجھ سے ڈھیروں باتیں کی تھیں لیکن ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کوئی بات ان کہی رہ گئی۔ میں نے اس وقت جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اگر اس نے وہ ان کہی نہ رکھی ہوتی تو کیا ہوتا۔ مگر میں کیا کروں کہ آج میرے کانوں میں ایک شور بن کر گونج رہی ہے وہ ان کہی تو آج بھی لفظوں سے محروم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).