راج ظلم کا یا عوام کا؟ اب فیصلہ کپتان کا۔۔۔


تحریکِ انصاف اور تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہو گیا ہے۔ تحریکِ انصاف اپوزیشن میں تھی تو بے سر پیر کے دعووں، جارحانہ رویوں اور حکومت گرانے کی سازشوں کے الزامات پر تنقید ہوتی تھی، اب حکومت بنالی ہے تو انہی بے سر پیر کے دعووں پر عمل پیرا نہ ہونے یا بغضِ اپوزیشن میں زیادہ ہی عمل پیرا ہونے، آئے روزکے بے ڈھنگے اقدامات یا ناگزیر اقدامات کی عدم موجودگی، بے موقع بے محل بے ہنگم بیانات دینے یا مناسب اور اہم بیانات سے م۔ کر جانے پر تنقید کی زد میں ہے۔

کون کس کو بے وقوف بنارہا ہے یا خود بے وقوف بن رہا ہے یہ تو لامتناہی اور فی الحال لاحاصل بحث ہے مگر اب باعثِ غور وخوض جو معاملہ ہے وہ بحیثیت عوام میرے، آپ کے اور اس معاشرے کے عام سفید پوش، جس کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ اپوزیشن کو عمران سے بغض ہے یا عمران کو اپوزیشن کے عناد نے خبطیا رکھا ہے، کے لیے معمہِ حیات و موت بن گیا ہے۔

اب تنقید کرنے والے سیاسی بیانوں پہ تنقید نہیں کر رہے بلکہ نئی آنے والی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویوں اور اہم عملی اقدامات کی عدم موجودگی کے سبب ترقی، خوشحالی، رزق اور روزگار کے ایک ایک کر کے گھر سے رخصت ہونے پہ کررہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تنقید کرنے والے اب کسی سیاسی میڈیا سیل کے مراعات یافتہ یا تنخواہ دار ٹرولز یا خواندہ طبقے سے بحث برائے بحث کا بازار گرام رکھنے والے سیاسی وسماجی ماہرین، ٹیچرز، ڈاکٹرز، وکلاء، انجنئیرزیا سائنسدان ہی نہیں بلکہ خوانچہ فروش، ریڑھی بان، سبزی اور پھل فروش، مزدور، ڈرائیورز، گھروں میں کام کرنے والے نوکر، گھریلو خواتین اور ناقابلِ یقین حد تک اپنی عمروں سے بہت پہلے باشعور ہونے والے اسکول اور کالج کے بچے جو اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے گلے گھوٹے جانے پر اپنے ماں باپ سے زیادہ اس نئے پاکستان میں عاجز ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دو ماہ میں ہم کیسے کسی بھی حکومت سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ جادو کی چھڑی سے سب صحیح کردے مگر پھر یہاں اس امر پہ بھی کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ کیسے محض دو ماہ میں ہی بغیر کسی ٹھوس پالیسی اعلان کے، بغیر عملی اقدامات کے اور بغیر کسی لائحہ عمل کی وضاحت کے ملک کی ڈوبتی کشتی میں مزید سوراخ کرنے کے مصداق اور تباہی اور بدحالی کو گھر گھر کی راہ دکھادی جائے اور لوگ تنقید بھی نہ کریں۔ یہ بات زیادہ تشویش ناک اور قابلِ مذمت ہے اور حکومت کی سیاسی عدم بصیرت پہ مبنی بدحواسیوں کا اظہار ہے کہ علی الاعلان ان کے حکومتی وزراء اور ان کے وفادار تنقید کرنے والوں کو شدید سرزنش کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان صاحب سے مودبانہ گذارش ہے کہ اس بوکھلاہٹ کو چھپانے کے لیے کیونکر وزراء فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، فیصل واوڈا، زرتاج گل، عثمان ڈار، صداقت علی عباسی اور سونے پہ سہاگہ فرُخ سلیم اور ان جیسے چند سرپھروں کو اپنے دفاع کے لیے بھیج رکھا ہے ان میں سے ایک اس لائق نہیں کہ ٹی وی کے آگے بیٹھے کسی عام ناظر کو متاثر تو درکنار مطمئن ہی کرسکے ک۔ جا حکومتی ترقی و خوشحالی کا بیانیہ، اگر تو ہے، کی ترویج میں معاون ہو۔

ان وزراء نے اپنی نا اہلی کو یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کررکھی ہے کہ کوئی انہیں کام نہیں کرنے دے رہا اورپولیس، بیوروکریسی، میڈیا، اپوزیشن سب مل کر پاکستان کی تاریخ میں اداروں کا ایسا بے نظیر تعاون رکھنے والی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں جبکہ مضحکہ خیز حقیقت یہ کہ حزبِ اختلاف نہ متحد ہے اور نہ ہی قوی اوپر سے قیادت پابندِ سلاسل، میڈیا پر معاشی ناکہ بندیوں اور تاریخ کی بدترین سنسر شپ سے راستے مسدود ہو رہے ہیں اور پولیس اور بیوروکریسی والے خود شکایت کررہے ہیں کہ ہمیں سیاسی مداخلتوں سے پاک کرو۔

جو حکمران عوام کے شانوں پہ سوار ہوکرحکومتیں بناتے ہیں وہ اس قدر مجبور، خائف، خوفزدہ اور ناکارہ نہیں نظر آتے جیسا کہ موجودہ حکومت تذبذب کا شکار ہے اور اسی بے یقینی نے حکمران کو جبر اور زبردستی کی راہ دکھا دی ہے۔

کہیں اسکولوں کے گذشتہ حکومت میں والدین کی سہولت کے لیے فراہم کردہ اسکول فیس واؤچرز ختم کردیے گئے ہیں، کہیں معاشی عدم استحکام کے سبب نوکریوں سے لوگ فارغ ہو رہے ہیں، کہیں تنخواہوں میں کٹوتیاں ہو رہی ہیں، کہیں بجلی کے بھاری کم بلوں کی ادائیگی سے عوام کے کھانے پہننے رہنے کے اخراجات کی سکت جواب سے گئی ہے، کہیں یوٹیلٹی اسٹورز کی سہولت چھین لی گئی ہے، کہیں ناجائز پانی کے استعمال پہ اور کہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت پہ پابندیاں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر بحرصورت ہمارے محترم و معظم وزیراعظم عمران خان صاحب، ہمارا بھروسہ رکھیے ہم نے چھ دہائیوں کی مصیبتوں کے بعد جمہوریت کی ایک دہائی گذاری ہے اور ہم بحیثیت عوام آپ کی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے مگر یہ عوام دشمن پالیسیاں ضرور آپ کو ان صلیبوں کی جانب دھکیل رہی ہیں جہاں حکومت یا جمہوریت میں سے کوئی ایک صولی چڑھ جائے گا۔

حاکم عوام کو قوم بناتا ہے قوم ایک سوچ پہ عمل پیرا ہوتی ہے اور اس سوچ سے ملک ترقی کرتا ہے۔ حاکم کی اہلیت اور نیت کا فرق پنجاب اور کے پی میں عوام کی بحیثیت قوم ذہنی تربیت اور شعور کی بیداری میں واضح ہے۔ آج سے کچھ دس سے بارہ برس قبل آج کے پشاور اور کراچی کی طرح کل کا لاہور کا شہری اپنے غیرذمہ دارانہ شہری رویے کے سبب شہر کی بربادی اور بدصورتی کی خود وجہ ہوا کرتا تھا مگر آج جبکہ ایک دہائی پہ محیط شریف تختِ لاہور کی زینت نہیں وہاں بیچ سڑک چلتی گاڑی سے کچرا پھینکیں تو برابر سے گزرنے والے رکشے والا یا بائیک والا ٹوک دیتا ہے۔

شہر گندا ہو، بنیادی بجلی، پانی، نکاسی آب، ٹریفک یا دیگر ایسے امور جن کا تعلق عام عوام کی سہولیات سے ہو پنجاب میں بحرحال اس ضمن میں دوسرے صوبوں کے تقابل میں زیادہ شعوراور احساسِ ذمہ داری ہے جس کے تحت آج کوئی بھی براجمان ہو فرق نہیں پڑے گا مگر یہ زبردستی کے چالان کے نتیجے میں رونما ہونے والے خودسوزی، توڑ پھوڑ، گالم گلوچ اورایسے اقدامات اسی قوم کے برداشت کے پیمانے کو بپھرا کر بے ہنگم ہجوم بننے پر مجبور کررہے ہیں۔

اسکے برعکس پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں بارہا صفائی مہموں کے اعلان کے باوجود گندگی کے ڈھیر وہیں کے وہیں ہیں، سفری سہولتوں کی عدم دستیابی اور سفری راستوں کی ناگفتہ بہ صورتحال مزید دگرگوں ہے۔ صحت، تعلیم، بجلی، پانی ہر شعبہ متاثر ہی نہیں متاثر ترین ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج کی حکمراں جماعت اور کل کی اپوزیشن تحریکِ انصاف کو ایسی عوامی تربیت کا کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا جیسا آج کی اپوزیشن اور کل کی حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کو حاصل ہے۔

اچھی گورننس کا فقدان کل بھی تحریکِ انصاف کا مسئلہ تھا اور آج بھی ہے جو اب سارے ملک میں بدانتظامی، معاشی بے یقینی اور خوف کا ماحول پیدا کررہا ہے جس پہ وقتاً فوقتاً حیلوں بہانوں سے اختلاف و احتجاج کرنے والوں کی زباں بندی کی کوششیں سراسر جمہوری روایات اور عوامی مفادات کی پامالی ہیں۔ اگربات کرنے کی اجازت بھی سلب کرنے کی کوشش کی جائے گی تو سڑکوں پہ نکلے ہوئے بے روزگار، شکستہ شکم اور عاجز عوام کے ہجوم سے تخت کے پائے کاٹ ڈالنے کے علاوہ کیا امید کی جاسکتی ہے؟

تحریکِ انصاف اور ان کا تنخواہ دار طبقہ محض پراپیگنڈا سے وقتی طور پر بھی عوام، کاروبار، معیشت، میڈیا اور سیاست کو سنبھالا دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے عملی اقدامات جن سے کچھ راحت کا سامان ہو، حکومت کے لیے ناگزیز ہیں کُجا دو ماہ بعد بھی حکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بندر، بھالو اور شیر کا تماشہ لگائے بیٹھی ہو۔ حکومت کا جھوٹ بولنا، اندھیرے میں رکھنا، ضروری اور اہم اقدامات نہ لینا اور ان سب وجوہات سے ملکی معیشت، تجارت کے خسارے کو ہوا دیتے رہنا اور عام آدمی کے معاملاتِ زندگی کو مزید جہنم بنادینا سراسر ظلم ہے اور اس پہ آہ بھرنے کی اجازت نہ دینا اس کو مزید قبیح، قابلِ مذمت و ملامت کردیتا ہے۔

ہم اور آپ دن رات سُنتے ہیں، دُہراتے ہیں مگر عمل کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے زمانے کے لیے اصول سیاست کی تشریح کردی ہے اب یہ حاکمِ وقت پر ہے کہ مانے یا نہ مانے، فرماتے ہیں، ’حکومت ک۔ فر سے ہو سکتی ہے ظُلم سے نہیں‘۔ صرف حکمرانوں، سیاستدانوں، میڈیا مالکان، کاروباری و تجارتی شخصیات ہی کونہیں بلکہ عام عوام سے ایک ہی درخواست ہے، ایک ہی مشورہ ہے۔ عدل و ظلم کی حکومت میں فرق جان کر جیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).