آپس کی بات


ادب لکھنا فی زمانہ کارِ زیاں ہے۔ اور وہ اسی پر خوش۔ بقول کبیر خان ”اپنا رانجھا راضی کرنے کے لئے لکھتا ہوں“۔ اُسکا رانجھا بھی عجیب ہے، لکھنے سے راضی ہو جاتا ہے۔ اب ہم اِس عمر میں اِس ناقابلِ مرمت شخص کی اصلاح کرنے سے تو رہے۔

موصوف نے ایک جگہ فرمایا تھا ”عزیز قارئین! بڑی خواہش تھی کہ دنیا میں آ ہی گئے ہیں تو کوئی بڑا کام کر جائیں، مثلاً بڑے ہو کر اسکول ٹیچر بنیں اور پھر ’ماسٹر رتّی ٹوپی‘ کے پوتوں سے ان مظالم کا بدلہ لیں جو اُن کے دادا نے صیغہ ماضی شکیہ پڑھاتے ہوئے بچپن میں ہم پر توڑے تھے۔ “

تو معززین! ثابت ہوا کہ ’ درسی قاعدہ جدید‘ لکھنے کا اصل سبب وہ زخم ہیں جونصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی رِس رہے ہیں۔ یقین نہ ہو تو، موصوف نے ایڑی جوٹی کا زور لگا کراپنے نصابی و اکتسابی علم، مطالعہ زیر وزبر، مشاہدہ شدّ و مدّ سے تجربے کی آگ پر جو ہانڈی پکائی ہے، آپ بھی چکھ کر دیکھ لیں۔ اس کی صورت کچھ کچھ لوکل باٹ جیسی ہے۔ جس میں زیادہ مصالے مقامی ہی استعمالکیے گئے ہیں۔ رہا ذائقہ، تووہ کھانے والے کے ذوق پر منحصر ہے۔ شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ ”کتاب و ہی ہوتی ہے جسے پڑھ کر آپ کے علم میں اضافہ ہو، جسے پڑھ کر آپ محسوس کریں کہ آپ نے کچھ حاصل کیا ہے“ اور ہمارا خیال یہ ہے کہ اس کتاب نے جہاں بچّوں کو علم متروکہ اورِ موجودہ سے آشنا کیا ہے۔ وہیں نئے نئے نوجوانو اور ’ابھی تو میں جو ان ہوں‘الاپتے بزرگ حضرات کوبھی نہ نہ کرتے ’الف‘ سے لے کر بڑی‘ ے ’ تک بہت سی پٹیاں پڑھادی ہیں۔ اور یہی مصنّف کا طریقہ واردات ہے۔ تاہم مزاج شناس ہونے کے ناتے ہم اتنا حق تو رکھتے ہیں کہ سرِعام
تھوڑی سی
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد

اور وہ یہ کہ موصوف عام زندگی میں بھی انتہائی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ مزا ج واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ مزاح بھی سنجیدگی اور رنجیدگی سے لکھتے ہیں۔ لیکن یہ اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ فاضل مصنف کی لسانی، معاشرتی، معاشی، تاریخی اورسیاسی معلومات حیران کن ہیں۔ خاص طور پر پہاڑی بولی اور علاقائی تراکیب ومحاورات کارچاؤ بساؤ اس تحریر میں حسن پیدا کر دیتا ہے۔
اپنی دھرتی کی خوشبو اور لوک روایات سے قلبی وابستگی ان کے ریشے ریشے میں سمائی ہوئی ہے۔ جو ان کی تحریر کردہ ہر تخلیق کا نمایاں عنصر ہے۔
معزز حاضرین! وہ اپنے تجربات کے اعجاز سے مزاحیہ ادب میں نئے امکانات کی جستجو میں بڑے انہماک سے مصروف ِ عمل ہیں۔ مزاح میں ان کے فنی تجربات ان کی بصیرت اور ذو قِ سلیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور یہی ان کے نقطہِ کمال بھی۔

یہ قاعدہ، با قاعدگی کے ساتھ نہ صرف لسانیات کے قدیم و جدید اسلوب سکھاتا ہے بلکہ بدلتے عالمی تنا ظر، حالات وواقعات اور نت نئے رحجانات سے آشنائی بھی کرواتا ہے۔ اس میں موجودہ پس منظر پر نہایت سچائی، بالغ نظری اور دانشوری سے اپنی رائے دی گئی ہے۔ ہمارے ملک ِعزیز کو در پیش سیاسی موشگافیوں، سر کاری ذہنیت کی جھلکیاں، معاشی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور۔ سماجی خطرات کا اظہار نہ صرف اُن کے مخلص محبِّ ِوطن ہونے کی دلیل ہے، بلکہ مصنف کے با شعور اور حقائق پسند رویّوں کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔

معزز سامعین! تنے مختصر وقت میں اس کتاب کا مکمل جائزہ لینا مشکل ہے۔ لہذا صرف چند اقتسابات پر سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے‘ پرچہ ترکیب استعمال‘ میں کبیر خان کیا لکھتے ہیں، وہ سنیئے :

”نیز یہ قاعدہ باقاعدہ بے قاعدہ ہے چنانچہ اسے ننھّے منّے بچّوں، سیاسی نابالغوں اوربلغمی مزاج بزرگوں کی پہنچ سے حتی الایمان دور ہی رکھیں بصورت دیگر کمپنی ہذا کسی قسم کی ہرج مرض کی ذمہ دار نہ ہو گی۔ مناسب یہی ہے کہ اُسے اُسی بلند و بالا طاقِ نسیاں میں رکھیں، جہاًں عموماً غلاف پوش قرآن پاک خالص ثواب وبرکت کے لئے رکھا جاتا ہے“

‘عرضے نیاز مند بقلم خود ’میں ایک مقام پر رقمطراز ہیں :۔ ”آپس کی بات ہے کہ ہم نے یہ اردو قاعدہ نئی نئی انگلش میڈیم کلاس اوربرگر فیملی طبقہ کی بہتری اوربھلائی کے لئے بھی لکھا ہے۔ مقصد یہ کہ وہ سلیٹ پر لکھے سبزیوں کے اصل نام اور دام پڑھ کر منڈی کے دکانداروں اور خوانچہ فروشوں سے بھاؤ تاؤ کر سکیں۔ نیز سودا طے کرتے ہوئے ہاتھا پائی کے دوران سمجھ بوجھ کر دیسی گالیوں کا درست اور بر محل استعمال کر پائیں“۔

معزز حاضرین! آئیے۔ قاعدہ کی شروعات کرتے ہیں۔ تاکہ ہماری اس بات کی سند رہے کہ ’گربہ کشتن روزِاوّل‘
کے مصداق وہ کیسے معاشرے کی دکھتی رگ پہ انگلی رکھتے ہیں۔ یہاں بھی ان کے ہر جملے میں شگفتگی اور تازگی کا عنصر غالب ہے۔

‘اردو کے پہلے حرف کو ’الِف ’کہتے ہیں۔ الف کی دو قسمیں ہیں ممدُودہ اورمقصوُرہو۔ الف ممدودہ کے اوپر پچھلی پیڑھی کے سدھن سرداروں کی دائیں مونچھ جیسی ایک شے ہوتی ہے، جسے مدّ کہتے ہیں۔ ”اس کے بعداستاد شاگرد کے مزاحیہ انداز میں سوال و جواب کا ایک سلسلہ، ہوم ورک اور مشقیں بھی ہیں جنہیں قلتِ وقت کی نذر کرنا پڑ رہا ہے۔ آگے ملاحظہ ہو۔
” اب ہم الف مقصورہ سے چند کار آمداشیاء بنائیں گے۔ جیسے الف سے انار، اچار، اخبار اور ا انبار وغیرہ۔ ”اخبار والوں سے معذرت کے ساتھ۔ وہ اخبار کے بارے کیا فر ماتے ہیں، ذرا سنئے۔ “ اخبار دراصل گراں، محلّے موہڑے اورملک کی

ماسی خیراں ہوتی ہے، جو کبھی خیر کی خبر نہیں لاتی۔ اس کے باوجودحالاتِ حاضرہ و غیر حاضرہ تک رسائی اور لگائی بجھائی کا سب سے سستا رائج الوقت ذریعہ‘اخبار‘ ہی ہے۔ اخبار لکھنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ ٹی وی چینل پر بقراطیاں کرنے والا بھی صحافی

کہلاتا ہے۔ لیکن پیٹھ پیچھے۔ کبھی بھولے سے بھی روبرو اُسے صحافی نہیں کہنا، منہ توڑ دے گا۔ جب بھی کہو اُسے اینکر پرسن کہو۔ ”
معزز حاضرین! اپنے عہد کی ترجمانی ہی کامیاب تحریر کی بنیاد ہے۔ اور اس تحریر میں یہ دونوں اوصاف با درجہِ اتم پائے جاتے ہیں۔ بظاہر اپنی کھال میں مست رہنے والے لگتے ہیں۔ لیکن معاشرے کے بدلتے رویوں کی عکاسی، خواہ وہ سیاست ومعیشت میں ہو یا فیشن انڈسٹری کے بدلتے رحجانات میں، ان کی زیرک نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔ چلئے ’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ’ ایک نمونہ دیکھتے ہیں۔
” ج سے جاپان نے جارجٹ نامی ایک کپڑا خاص کرکے ہمارے لئے ایجاد کیاتاکہ ہماری حیادار بیبیاں بھاری بھرکم شٹل کاک برقعوں سے نکل کر ہلکے پھلکے دوپٹے تلے سُکھ کا سانس لے سکیں۔ خواتین بہت خوش ہوئیں اور پورے ملک میں رنگ برنگے دوپٹے لہرانے لگے۔ اب ہم جاپان کے دست نگر نہیں رہے، ہم خود جارجیٹ سے بھی ہلکے اور ہوادار کپڑے بنانے لگے۔ چنانچہ آج کل ہماری حیادار بیبیان ’ج‘ سے جالی کے ہوادار لباس زیب تن کرکے فیشن انڈسٹری کو پال پوس رہی ہیں۔

لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ جارجیٹ کے دوپٹے بیکار چلے گئے۔ اب انہی رنگ برنگے دوپٹوں کی پگڑیاں، میچنگ کی بیل بوٹے دار شیروانیاں اور ویسی ہی داڑھیاں فیشن میں ہیں۔ میلاد پڑھنے جا رہے ہوں تو بھی یوں لگتا ہے کہ حضرت صاحب اپنے ولیمے میں جا رہے ہیں۔ ”

” پیارے بچوّ1 ’ڈ‘ سے جو بہترین شے آج تلک بن سکی ہے، اُسے ڈالر کہتے ہیں۔ ڈالر یوں تو ایک کاغذی سکّہ ہے جسے کُتّے بھی گھاس نہیں ڈالتے۔ لیکن اس کے آگے دنیا کے بڑے بڑے شیر دُم ہلاتے ہیں ”

معزز سامعین! جیسا ہم نے پہلے کہا، فاضل مصنف کی ہر سطر، ہر جملہ معاشرے کے بطون سے پیدا کردہ مسائل وحقائق
پر مبنی ہے۔ انہوں نے اک لفظ بھی کسی فرضی واقعہ کو بنیاد بنا کر نہیں لکھا۔ اِس ضمن میں ایک دو مثالیں پیش ِخدمت ہیں۔

” بچو! ’ر ’ سے رویت ہلال بھی بنتی ہے جو دراصل وہ کمیٹی ہے جو رات گیارہ بجے تک باجماعت ہمارے لئے عید کا چاند ڈھوندتی ہے اور پھر شہر کی بلند ترین عمارت کی چھت سے معقول چیک، واپسی کے بزنس کلاس ہوئی ٹکٹ اور کیمروں کی چکاچوند میں معتبر گواہوں کی شہادتوں کے تناظر میں چاند نظر نہ آنے کا اعلان کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاند نہ دیکھنے کے بھی اچھے پیسے مل جاتے ہیں۔ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آگے مرضی آپ کی“۔

” یہ ’ف‘ ہے۔ آ ج ہم ’ف ’ کی پٹّی پڑھیں گے۔ ’ف‘ سے پہلا لفظ فاتح بنتا ہے۔ جو فاتحہ کا مذکّر ہے۔ فاتح اُس مرد کو کہتے ہیں جو کسی بند شے کو کھولے۔ جیسے دروازہ، کھڑکی، کتاب، ڈبّہ، راستہ، گرہ وغیرہ۔ قرآن مجید کا آغاز جس سورۃ سے

ہوتا ہے، اُ سے فاتحہ کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے اپنے مرُد وں کے ایصالِ ثواب کے لئے الحمد شریف پڑھ کر بخشنے کو فاتحہ دینا
کہتے ہیں۔ اور یہ کام عموماً ہر جمعرات کی شام کو، اور عید، شبِ برات اورپیر صاحب کے عرس جیسے ”بھاری دیہاڑوں“ کے مواقع پر بالخصوص کیا جاتا ہے۔ ”
مزید دو تین لائنیں سنئیے، جو ا اس بات کی دلیل ہے کہ اُنکے ہر جملے میں شگفتگی اور تازگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

” یہ ’ز‘(زے)ہے۔ اُردو کا سولہواں، فارسی کا تیرہواں اور عربی کا گیارہواں حرف۔ ہندی اور سنسکرت میں یہ حرف نہیں ہے۔ تاہم ان زبانوں میں جہاں ’ز‘ کی ضرورت پڑتی ہے، اپنے پلّے سے اس کی جگہ جیم ٹھوک کر زبان کوجبان، زنانی کو جنانی، روزی کو روجی کہہ کر گزربسر کر لیتے ہیں“۔
” ل ’ سے لو ٹا بنتا ہے۔ لوٹا چاہے کھنڈا یعنی بے پیندے کا کا ہو بھاویں لُنڈا یعنی ٹونٹی کے بغیر۔ فی زمانہ ہمارے ہاں اس سے زیادہ با عزت و باوقار اور کوئی نہیں۔ اسمبلیاں او ر ایوان ہائے اقتدار کی جملہ رونقیں انہی کے دم سے ہیں۔ چاہیں تو آپ بھی لوٹے بن سکتے ہیں۔ لیکن حضرت مولانا الطاف حسین حالی کا فرمان ہے کہ؛

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

‘ماں‘ وہ ہستی ہے جس کا نام لیتے ہی انسان محبت اور عزت و احترام کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اور صرف انسان پر ہی کیا موقوف، اس کائنات کا ہر وہ ذی روح جس کو کسی ماں نے جنم دیا ہو، وہ اُ س کے لئے محبت اور تحفظ کا منبع ہوتی ہے۔ جہاں تک کبیر خان کی بات ہے تو ہم حلفاً گواہی دے سکتے ہیں کہ جس ؑعظیم ماں کا خاکہ بعنوان ’نکی بے جی‘ انہوں نے لکھا تھا اُسی نے ان کی شہرت میں چار چاند لگائے ہیں۔ اور ادبی دنیا میں صفحہِ اوّل کے مصنفین کی قطار میں لا کھڑا کیا۔ دروغ بر گردنِ راوی‘ ہم نے تو یہاں تک بھی سنا کہ قدرت اللہ شہاب کے تحریر کردہ خاکہ ’ماں‘ سے بھی زیادہ بہتر ’نکی بے جی‘ کا خاکہ لکھا گیا ہے۔ خیر ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ کیونکہ مائیں سب ایک سی ہی ہوتی ہیں۔ ذرا سنئیے وہ۔ ’م‘ سے دیگر الفاظ بنانے کے ساتھ ساتھ‘ماں‘ کا تعارف کن الفاظ میں کرتے ہیں۔

” ’م‘ سے اس کائنات کا سب سے پیارا لفظ ’ما ’ یا ’ماں‘ بنتا ہے۔ ’ماں‘ وہ مخلوق جسے خالقِ دو جہاں نے اپنی ایک بہت
اہم اور بڑی صفت یعنی پیدا کرنے کی صفت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ایک نسبتاً کمزور، نازک اورنحیف مخلوق کو تخلیقی کرب سہنے کی ہمت عطا کر کے اُس مقام پر بٹھا دیا ہے جہاں کوئی اور ہوتا تو بجا طور پر ربّ کانائب ہونے کا دعوی کر دیتا۔ لیکن وہ عجز اور خاکساری کی اُس انتہا تک چلی جاتی ہے کہ اپنی اولاد کی ادنی سی خواہش پر اپنا رُتبہ قربان کر دیتی ہے۔ “
‘ م‘ سے ہی ایک اور پیراگراف ملاحضہ ہو۔ جو اقوامِ ِ عالم اور خاص طور پر پاکستانی سیاسی موشگافیوں، فتنہ انگیزیوں اور سرکاری ذہنیت

کی جھلکیاں مصنف کے با شعور اور حقائق پسند رویوں کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔
‘م‘ سے مَن بھی بنتا ہے۔ اس کے معنی دل، ضمیر، چالیس سیر کا وزن، سانپ کا مہرہ اور کنویں وغیرہ کی مینڈھ ہوتے ہیں۔ من کی کی کئی قسمیں ہیں لیکن مشہور دو ہی ہیں۔ ایک پاپی، دوسرا پاجی۔ پہلے قسم من کو اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں یوں باندھا ہے کہ

بچارا کسمسا بھی نہیں سکتا
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والو نے
من اپناپرانا پاپی تھا، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اور دوسرے کو یہ کہہ کر کھلا چھوڑ دیا کہ
تُو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

رہی بات چالیس سیر والے من کی تو اب پکّے بٹّوں کا نہیں، کچّے پکّے بٹّوں کا زمانہ ہے۔ تولے ماشے، رتّی سر سائی کی جگہ ملی لیٹر اور ملی گرام کا بسکّہ چلتا ہے۔ ہاں البتہ ’من‘ والا من آج بھی ہاٹ کرنسی ہے۔ من تُرا حاجی بگویم، تُ مراحاجی بگو۔

معزز عزیزو! چند اور اقتسابات پیشِ خدمت ہیں۔ جو اقوامِ ِ عالم اور خاص طور پر پاکستانی سیاسی موشگافیوں، فتنہ انگیزیوں اور سرکاری ذہنیت کی جھلکیاں دکھلاتے ہیں۔ جو مصنف کے با شعور اور حقائق پسند رویوں کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔

پیارے بچّو! ’س‘ سے ہی سکّہ بنتا ہے۔ اسی سے سکّہ ڈھلتا ہے، سکّہ بیٹھتا ہے او سکہّ چلتا ہے۔ اور ہاں سکّہ اچھلتا بھی اِسی سے ہے۔ یاد رہے کہ کہ اسکیل، اسکیم اوراسکینڈل بھی اسی حرف ’س‘ سے بنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ہماری ذاتی اور قومی زندگی میں‘س‘ کا عمل دخل سانس جیسا ہے۔

‘س‘ سے ہی سل، سلاست، سیاست اور سلامیاں بھی بنتی ہیں۔ ’س‘ سے سیاست سادے وقتوں میں عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ اب بدلا ہوا زمانہ ہے، سیاست تجارت اور تجارت کب خساست بن کر رہ گئی؟ کسی کوپتہ ہی نہ چلا۔ انہی سلاستوں، سیاستوں اور خساستوں کو تعظیم دینے کے عمل کو سلامی کہتے ہیں۔

‘ی‘ سے ایک بہت ہی اہم ’یاد گار ’ بھی بنتا ہے۔ جس کے معنی نشانی، علامت، آثار، پرانی عمارت وغیرہ ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ تاریخی واقعات کو یاد کرنے اورکرانے کے لئے عجائب گھر، یادگاری سکّے، ٹکٹ اور مینار وغیرہ بناتے ہیں۔ اور جتاتے ہیں۔ کہ پدرم سلطان بود۔ لیکن یہ کام جس ذوق و شوق سے ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔ ایک ٹونٹی پر مشتمل گریٹر واٹر سپلائی اسکیم کی یاد گاری تختیاں، مبیّنہ پرائمری اسکول کا سنگِ بنیاد، گہل کے آغاز پر شاہراہِ تعمیر و و ترقی کا لنگڑا بورڈ، بنیادی مرکزِصحت کے لئے حاصل کردہ پانچ مرلہ اراضی خالصہ سرکار کی نشاندہی کا تعویز، یتیم کی ملکیت پر مسجدِہزار مینار و مدرسہ کا 12 12 کا فوٹو۔ اور فوٹو کے سایہِ عاطفت میں میں چندے اور فطرے کی صندوقچی (اور اس پر اس سے بڑا تالا وغیرہ)یہاں وہاں تھاں تھاں ملیں گے۔ اسلاف کو تاریخ میں اُن کا جائز مقام دلانے کے لئے ہمارے ہاں جتنی تحاریک یاد گارِشہداۂیں۔ اتنے تو شہید بھی نہیں ہیں۔ کم و بیش ہر محلّے موہڑے میں کوئی نہ کوئی نامکمل ستون، چبوترا، تھڑا، دیوار وغیرہ مقامی ادارہ تحریک یادگار شہداء کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔

پیارے بچّو! پرانے استادوں کی طرح کبیر خان بھی پرانے اور ڈاھڈے سخت ہیں۔ لہذا ہر سبق کے بعدنہ صرف ہوم ورک دیتے ہیں۔ بلکہ مشقی سوالات بھی کرتے ہیں۔ مثلاً
‘حساب کے قاعدے سے بتائیں کہ چار سو بیس حربے ضربے دس، کتنے ہوتے ہیں؟ نیز حسابِ دوستاں دل میں رکھنے کے کتنے پیسے لیں گے۔ ’
ہوم ورک کر کے لائیں‘ خالصہ سرکار پر قبضہ جمانے کے آزمودہ طریقے سلیس اردو میں بیان کریں۔ نیز منشی صاحب پٹوار کے اطوار پر روشنی ڈالیں۔ ’

‘ذرّے کو آفتاب اورآفتاب کو آفتابہ بنا کر دکھائیں۔ ’اور وہ توقع کرتے ہیں کہ شاگرد صحیح صحیح جواب دیں گے۔ حالانکہ ان کے بہت سے سوال آج کے شاگرد کے سر سے گزر جاتے ہیں اور اٹکنے پر ’لغت‘ استعمال کرنے کی منادی ہے۔ پیارے شاگردو، اگر آپ کو کچھ تراکیب متروک لگ رہی ہیں، یا جملے حلق میں اٹک گئے ہیں اور آپ کسی الیکڑونک ڈکشنری، گوگل، واٹس اپ، یو ٹیوب
وغیرہ وغیرہ سے رجوع کرنے کا سوچ رہے ہیں تو بیکار ہے کیونکہ مشتاق احمد یوسفی کی طرح یہ بھی کبیر خان کی ٹکسال میں ڈھلے ہوئے سکّے ہیں کہیں اور سے بازیاب نہیں کیے جا سکتے۔
آخر میں ہم قومی ٹیسٹ بورڈ سے ملتمس ہیں کہ بچّوں کے بجائے اس قاعدے کو ’تعلیم ِ بالغاں ’ کے نصاب میں لازمی شامل کیا جائے۔ تاکہ ’بالغان ’ اس سے کماحقہ محظوظ ہو سکیں۔

معزز حاضرین! مشہور و مقبول شاعرہ پروین شاکر نے جس دور میں ببچّوں کی لئے کہا تھا کہ
ع بچّے ہمارے دور کے ہوشیار ہو گئے
حالانکہ اُس دور تک نہ تو چھ ماہ کا بچّہ موبائل کے لئے مچلتا تھا اور نہ ہی ایک سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہر ایرے غیرے کو تتلا تتلا کر ’ہیلو‘ ہائے‘ کر سکتا تھا۔ آج کا بچّہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں پہلے ہی بہت ’ہشیار‘ہو چکا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ قا عدہ۔ خدا لگتی کہیں، ہمیں تو بچّے معصوم ہی اچھے لگتے ہیں۔ ہوشیاریاں بڑوں کو مبارک۔ بچہ۔ ّ بچّہ ہی اچھا۔

ڈاکٹر مرحب قاسمی
Latest posts by ڈاکٹر مرحب قاسمی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).