آخر تبدیلی کیوں نہیں آئی ؟


آخر تبدیلی کیوں نہیں آئی؟ برخلاف اُن کروڑوں لوگوں کے جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور یہ ایمان لے آئے کہ پی ٹی آ ئی کی حکومت آ نے سے تبدیلی آجائے گی، مجھے یقین تھا کہ وہی ہوگا جو ہوتا آرہا ہے کیونکہ تبدیلی ایک ایماندار آدمی کو ووٹ دے کر اپنا وزیر اعظم بنادینے سے نہیں آجاتی۔ میں اُن لوگوں سے بھی متفق نہیں جو یہ دلیلیں دیتے ہیں کہ تبدیلی اوپر سے آتی ہے اور نیچے سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے ہمیں جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ فوری تبدیلی ہے جو کہ گراس روٹ لیول سے شروع ہو نہ کہ اُوپر سے، کیونکہ اُوپر کی اس تبدیلی کو نیچے والوں کے لئے فائدہ مند ہونے میں بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت آپ سب کے سامنے ہے۔

عوام کو بتایا گیا کہ آپ کے حکمران چور ہیں۔ آپ کے ملک کی دولت کو لوٹ کر باہر بھیجا گیا اور اب یہ لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر اور دوبارہ ملک کو لوٹنے والوں کو اقتدار سے دور رکھ کر ہی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارے بڑے ایک دعا دیتے ہیں ”کُل کا بھلا کُل کی خیر۔ “ مگر اب نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا موازنہ کریں۔ پرانے پاکستان میں ملک کی اتنی دولت کرپشن کے ذریعے ن لیگ کی حکومت نے نہیں لوٹی ہوگی جتنی پی ٹی آئی کی حکومت میں ملک کی دولت کا نقصان ہوا۔ سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی اربوں کے سرمایے ڈوب گئے ڈالر کو پر لگنے سے ملک پر قرضوں میں مذید اضافہ ہوگیا۔ نہ کوئی کرپشن ہوئی نہ چوری ہوئی مگر کُل کا بھلا اور کُل کی خیر نہ ہوئی۔ میرا سوال یہ نہیں اس سب کا ذمہ دار کون ہے یا کِسے الزام دینا ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ کُل کا بھلا کہاں ہے؟ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ ہماری مجموعی حالت بگڑی ہی ہے بنی نہیں ہے۔

عوام کی فلاح اور بھلائی کہاں ہے؟ تبدیلی تو کچھ یوں آئی ہے کہ غریب کے حالات بدلے نہیں ہیں بلکہ مزید بگڑ گئے ہیں۔ تبدیلی تو یوں آئی ہے کہ غریب آج بھی گورنمنٹ ہسپتالوں میں ذلیل ہورہا ہے اور بچے سکول جانے کہ باوجود تعلیم سے محروم ہیں۔ ہم لوگوں سے جھوٹ بولے گئے کہ تبدیلی ایک پارٹی کو ووٹ دے کر جیتانے کا نام ہے تبدیلی کرپٹ لوگوں سے نجات کا نام ہے تبدیلی عمران خان جیسے ایماندار انسان کو ووٹ دینے کا نام ہے تو پھر آج تبدیلی نظر کیوں نہیں آرہی؟

کُل کو بدلنے کے لئے کُل کے حالات بدلنے کے لئے جزو کا بدلنا ضروری ہے جزو کے حالات بدلنا ضروری ہے۔ جزو کا بھلا اور جزو کی خیر ہوگی تو ہی کُل کا بھلا کُل کی خیر ہوگی۔ پاکستان کے حالات بدلنے کے لئے ایک عظیم لیڈر سے زیادہ ایک عظیم قوم کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لانے کے لئے ہر انسان کو بدلنا پڑے گا۔ مجھے اشفاق احمد کی ایک تحریر یاد آ تی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں چین کے سفر پر گیا تو دیکھا کہ ایک عورت بیٹھی پرات میں چنے بھون رہی تھی جب میں نے پاس جاکر دیکھا تو وہ چنے نہیں بھون رہی تھی بلکہ سٹیل بنا رہی تھی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں۔ جس قوم نے ترقی کرنی ہو اُس قوم کا ہر فرد پراڈکٹیو ہوجاتا ہے وہ کچھ نہ کچھ ڈھونڈ لیتا ہے بنانے کے لئے سنوارنے کے لئے۔

حکومت کے بدلنے کا عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں قوم اپنی عظمت سے ترقی کرتی ہے اپنی محنت سے ترقی کرتی ہے۔ ہماری پروڈکشن کیا ہے ہماری پروڈکشن ہے بے بسی، لاچاری میں کیا کروں میں تو کچھ کر نہیں سکتا یہ الفاظ ہماری پروڈکشن ہیں۔ ہماری تین سب سے بڑی پروڈکشنز ہیں آبادی یعنی بچے، ٹریفک اور کوڑا۔ یہ ہماری عوام کی سب سے بڑی پروڈکشنز ہیں۔ پوری دنیا میں لوگ علم و تحقیق میں لگے ہیں کری ایٹو کام کررہے ہیں نئی ایجادات کر رہے ہیں مگر ہمارے نوجوان کو چاہیے ایک ایسی نوکری جس میں محنت کم ہو اور تنخواہ زیادہ۔

ہم کیسے تبدیلی لائے؟ کیوں نہ ہم اپنی پروڈکشن کوڑے کو استعمال میں لائے؟ ہمارا ہر گھر جو کوڑا پیدا ہوتا ہے اُس میں سب سے زیادہ مقدار آرگینک ویسٹ کی ہے جس میں سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، انڈوں کے خول، چائے کی پتی اور پیپر شامل ہیں اس سب آرگینک ویسٹ کو استعمال کیا جانا چاہیے اس سے پوری دنیا میں بجلی بنائی جارہی ہے کھانے پینے کی اشیاء پکانے والی گیس بنائی جارہی ہے۔ مگر یہ سب کون کرے اور اگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس آرگینک ویسٹ کو کمپوسٹ میں تبدیل کریں یعنی اپنے کوڑے کی کھاد بنائیں اور ہر گھر خود اپنی چھت پر اس کی مدد سے سبزیاں اُگایے جسے آرگینک فارمنگ یا کچن گارڈن کا نام دیا جاتا ہے اور ہر گھر پراڈکٹیو بن جائے۔ مگر چھوڑو یار یہ سب مصیبت کون کرے۔ ؟ کوڑے سے سبزی کون اُگایے؟ یوٹیوب پر تو اس سب کے طریقے موجود ہیں مگر ہم نے تو فلمیں اور گانے ہی دیکھنے ہیں۔ ہمیں ایسی تبدیلی نہیں چاہیے ہم نے تو ووٹ دے کر ہی تبدیلی لانی ہے۔ ہم تبدیلی لانا تو چاہتے ہیں مگر ہم بدلنا نہیں چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).