بڑھاپے کا مکالمہ



شادی کے بیس سال بعد میری بیوی نے مجھے ایک عورت کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت دی۔ اس کا کہنا تھا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں لیکن تم اس عورت کے ساتھ وقت گزارو جو تمہیں مجھ سے بھی زیادہ محبت کرتی ہے۔ یہ عورت میری ماں تھی جو پچھلے پندرہ برسوں سے بیوگی میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ زندگی بسر کررہی تھی لیکن میں اپنے کام اور تین بچوں میں اتنا مصروف رہتا تھا کہ ان سے بہت کم ملاقات کا موقع ملتا تھا۔

جب میں اپنی ماں سے ملنے گیا انہوں نے گھر کے لان میں میری بانہوں میں بانہیں ڈال کر ٹہلنا شروع کیا۔ اور مجھے بچپن کی باتیں یاد دلائیں، جب میں تین چار سال کا تھا اور وہ مجھے پکڑ کر ایسے چلتی تھیں۔ مجھے یاد آیا

ماں کا آنچل دھوپ میں بادل

ماں کی باہیں نیند کی راہیں

ماں کا دامن ہنستا ساون

ماں کا غصہ پیار کا حصہ

ماں ہے کیا؟ ایک دعا

جب میں نے پوچھا آپ کیسی ہیں، اماں کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ اس نے کہا کہ جب تم چھوٹے تھے تو میں تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ میں نے ماں کے ساتھ کھانا کھایا اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جب رخصت ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ دوبارہ وقت گزارنا چاہوں گی اگر اس کی دعوت تم دو گے۔

چند روز بعد میری والدہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئیں۔ یہ سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ میں کچھ بھی نہ کرسکا۔

ایک روز میرے کوٹ کی جیب سے ایک سلپ نکلی جس پر میری والدہ کی تحریر تھی،”مجھے یقین نہیں تھا کہ تم آؤ گے، تمہیں دیکھ کر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے اور باتیں کرنے سے مجھے بے حد خوشی ہوئی”۔

“تم کبھی نہیں جان پاؤ گے کہ یہ ملاقات میرے لیے کیا معنی رکھتی تھی۔ میرے بیٹے جیتے رہو میں تمہاری شکر گزار ہوں”۔

اس وقت مجھے ماں کے جملے کی اہمیت کا احساس ہوا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔

ماں نے کہا کہ زندگی میں خدا اور تمہارے خاندان سے زیادہ کوئی اہم نہیں، انہیں پورا وقت دو کیونکہ کسی اور وقت کے لیے انہیں ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔ کل کا کبھی انتظار نہ کرو۔

آج تمہارے بچے بیوی اور دوست تم سے کپڑوں، کھلونوں، کتابوں، فلموں اور باہر جاکر کھانا کھانے، سیرو سیاحت اور اکٹھے وقت گزارنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ تمہارے پاس ان سب کےلیے وسائل اور وقت ہوں یا نہیں پھر بھی تم انہیں پورا کرتے ہو۔ جنہوں نے تمہیں جنم دیا اور اس قابل بنایا کہ تم زندگی کے بوجھ اٹھا سکو اور مشکلات کا سامنا کر سکو۔ ان کےلیے بھی اپنی مصروفیت میں سے کچھ وقت نکال لو۔

مجھے کسی کی لکھی نظم یاد آگئی۔

جس دن تم ہمیں بوڑھا کمزور اور بے زار دیکھو

تو تم صبر کرنا اور ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا

جب ہم کھاتے ہوئے گندگی کریں

اپنے کپڑے بھی نہ بدل سکیں

ہمیں برداشت کرنا اور یاد کرنا

جب ہم نے تمہیں کھانا کھلانے اور

کپڑے بدلوانے میں کتنا وقت لگایا

جب تم سے بات کریں اور ایک بات باربار دہرایں

تو ہماری بات نہ کاٹنا ہمیں سننا

جب تم چھوٹے تھے ہمیں ایک ہی کہانی ہزار بار سناتے

یہاں تک کہ تمہیں نیند آجاتی

جب ہم نہانا نہ چاہیں تو ہمیں شرمندہ نہ کرنا اور نہ ڈانٹنا

جب ہم ہزار بہانوں کے باوجود تمہیں نہانے کو کہتے

جب کبھی ہماری یادداشت کھو جائے یا بات بھول جائے

ہمیں یاد کرنے کے لیے وقت دینا

اور ہم نہ کرسکیں تو گھبرانا نہیں

اصل میں ہم تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں

تم سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں

اگر ہمارا کھانے کو دل نہ چاہئے تو زبردستی نہ کرنا

ہم جانتے ہیں کہ کب کھانا چاہیے اور کب نہیں

جب تھکے پاؤں ساتھ چھوڑ دیں

اور ہم لاٹھی کے بغیر نہ چل سکیں

اپنے ہاتھوں سے تھام لینا

جیسے تم اپنے پہلے کمزور قدم اٹھانے کی کوشش کرتے

تو ہم تمہیں تھام لیتے تھے

جس دن کہیں کہ ہم اور زندہ نہیں رہنا چاہتے

ہم مرنا چاہتے ہیں

تو غصہ نہ ہونا ایک دن تم بھی یہ بات سمجھ جاؤ گے

ہماری ہمت بڑھانا ہماری عمر زندہ رہنے کی نہیں ہے

ہم تو بس بقیہ زندگی گزار رہے ہیں

اور جب کسی دن تمہیں پتا چلے کہ ہماری غلطیوں کے باوجود

ہم ہمیشہ تمہارا اچھا چاہتے تھے اور کوشش کرتے تھے

کہ تمہارے لیے صحیح راستہ اختیار کریں

تم بھی ہمیں اپنے ساتھ رکھ کر ناراض اور شرمندہ نہ ہونا

سمجھنے کی کوشش کرنا اور ہماری مدد کرنا

جیسے ہم نے کی جب تم نوجوان تھے

میری والدہ بھی شاید ایسا ہی کچھ کہنا چاہتی تھیں، ان کی نگاہیں مجھ سے کئی سوال کرنا چاہتی تھیں۔ میں اس ملاقات کا مقصد اس وقت جان ہی نہیں سکا۔

کبھی ہمیں خیال آیا کہ اپنے والدین کو سیر کرانے، فلم دکھانے یا کھانا کھلانے باہر لے جائیں۔

اگر ہم نے ایسا کبھی نہیں سوچا تو پھر ہم سے بدقسمت کوئی اور نہیں۔

(غیر ملکی کہانی سے ماخوذ )

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar