نئے معاشرے کو ہم قبول کریں یا معاشرہ ہمیں


(ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی ایک سماجی و ثقافتی تنظیم فیملی نیٹ ورک نے ہفتہ کے روز ناروے میں پہلی نسل کے پاکستانی تارکین وطن کی خدمات کے اعتراف میں ایک تقریب منعقد کی جس میں متعدد سینئیر پاکستانیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اس سال ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد کے 50 برس بھی مکمل ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کا پہلا گروپ 1968 میں ناروے آیا تھا۔ اس تقریب میں راقم نے درج ذیل مضمون پیش کیا۔)

٭٭٭      ٭٭٭

آج جب نثار بھگت اور فیملی نیٹ ورک نے پرانی نسل کے چند لوگوں کے ساتھ یہ شام منانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بارے میں گفتگو آج کے ایجنڈے کا حصہ ہے تو میں اس سے یہ اخذ کرتا ہوں کہ منتظمین آج کی صورت حال کے تناظر میں تارکین وطن کی پرانی نسل اور ان کی کنٹری بیوشن کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے بات کرتے ہوئے فطری طور پر یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ جب کسی دور دراز خطہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک نئے اجنبی ملک میں آکر آباد ہوتے ہیں تو ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج کیا ہوتا ہے۔

 گزشتہ دنوں ناروے میں آنے والے پاکستانیوں کے پہلے گروہ کے بارے میں تحقیق کرنے والی اولین محقق اود کوربول Aud Korbøl کی ستر کی دہائی میں کی گئی تحقیق پر مشتمل کتاب سامنے آئی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں مصنفہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1970سے 1972 تک اس وقت آنے والے پاکستانیوں کے ساتھ کام کیا۔ وہ نئے سماج میں جن مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، انہیں حل کرنے کے لئے ان کی مدد بھی کی لیکن اس کے ساتھ ہی ان حالات ، واقعات اور سماجی عوامل کا بھی جائزہ لیا جو اس وقت ایک دور دراز ملک سے ناروے آنے والے پاکستانیوں کو درپیش تھے۔

میں پاکستانی تارکین وطن کے جس گروہ سے تعلق رکھتا ہوں وہ ستر کی دہائی کے وسط اور آخر میں اس ملک میں آیا تھا ، اس لئے میں بھی یہ سمجھ سکتا ہوں کہ ہم سے بھی پانچ چھ برس پہلے آنے والے پاکستانیوں کو کس قسم کی سماجی، قانونی اور سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ اس مصنفہ کی ابتدائی تحقیق پر کتاب پڑھنے کا موقع تو ابھی نہیں ملا لیکن ایک تقریب میں انہوں نے اس کتاب کے بارے میں جو گفتگو کی تھی، اس کا خلاصہ یہی ہے کہ ستر کی دہائی کے اوائل میں پاکستانیوں کو روزگار، ویزا اور رہائش کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ اگرچہ ملک میں ابھی امیگریشن بین نہیں لگا تھا جو 1975 میں نافذ کیا گیا لیکن اس کے باوجود پاکستانی چونکہ مختلف ثقافت اور جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے تھے لہذا چند درجن ’اجنبی‘ لوگوں کی آمد پر یہ معاشرہ اس قدر ہراساں تھا کہ ان کے بارے میں اخبارات کے رپورٹر بھی متجسس رہتے تھے اور محققین کو بھی اس پہیلی کو سلجھانے پر لگایا گیا تھا۔

کتاب کی مصنفہ کی تحقیق میں جو سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے وہ یہی ہے کہ : ’ یہ لوگ کیسے اس معاشرہ میں اپنی جگہ بنائیں گے اور کیا معاشرہ انہیں قبول کرلے گا‘ یہی سوال دراصل انٹیگریشن کی بحث کہلاتا ہے اور ناروے کے علاوہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کی جدید امیگریشن سیاست بھی اسی تصور سے وابستہ ہے۔ اس لئے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ نئے معاشرہ میں آنے کے بعد ہم نئےمعاشرہ کو قبول کریں یا معاشرہ ہمیں قبول کرے۔

ہمارے دوست اور اس ملک میں اردو ادب کو روشناس کروانے کے کام کی بنیاد رکھنے والے دانشور، ادیب، فلم ساز، سیاسی کارکن اور بنیادی طور پر ایک نفیس انسان سعید انجم زندہ ہوتے تو وہ آج اس سوال کا جواب یوں دیتے کہ ’جب کوئی اپنا بستر بوریا باندھ کر نئے ملک میں نئے لوگوں کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کے لئے آگیا ہے تو اس نے تو نئے حالات کو قبول کر ہی لیا ہے ۔ اب تو معاشرہ کو اس کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے قدم بڑھانا چاہئے‘۔

 اس کے بعد وہ اپنے مخصوص لاہوری انداز میں اس بحث کے تین اور ان تین میں شامل ہر پہلو کے مزید تین نکات بیان کرکے سننے والوں کو اپنے گفتگو کے سحر میں گرفتار کر لیتے۔ تاہم مجھے اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی جو نسل ستر کی دہائی میں ناروے میں روزگاراور رہائش کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اس نے نئے حالات کو قبول کرنے اور سماجی، معاشی ، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے کامیابیاں حاصل کرنے کی ایک ناقابل تردید مثال قائم کی ہے۔

ملک کی وزیر ثقافت تھرینے شائی گراندے  Trine Skei Grande  اگرچہ پاکستان کے یوم آزادی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانیوں کو اے اور بی گروہ بنانے اور جرائم میں نام پیدا کرنے کا طعنہ دے چکی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں نے اس ملک میں بدنامی سے زیادہ نیک نامی کمائی ہے، ناکامی سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ناروے میں پاکستانیوں کے پچاس سال نئے معاشرہ میں مناسب طریقے سے جذب ہونے لیکن اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کا ایک نیا تجربہ ہیں۔ اس صورت حال میں اگر کوئی سیاست دان پاکستانی تارکین وطن کو انٹیگریشن کو ناکام بنانے کا طعنہ دیتا ہے تو اسے ان معاشی اور سیاسی مجبوریوں کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی جو پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ، مشرق وسطی کے علاوہ غریب ملکوں سے وسائل کی کمیابی کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کے دباؤ اور اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں سیاسی ہیجان پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سیاسی پریشان خیالی نے یورپ میں دائیں بازو کے سیاسی گروہوں کو قوت عطا کی ہے جن میں حال ہی میں سویڈن میں سیاسی مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کرنے والے ڈیمو کریٹ پارٹی بھی شامل ہے ۔

اور امریکہ میں صدر بننے والا ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی معاشی و سیاسی مجبوری ، جہل اور ذہنی معذوری کا نمائیندہ ہے جو اپنے معاشروں کی کامیابیوں کو اپنی محنت کا ثمر قرار دیتے ہوئے، معاشرہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا سبب دوسرے ملکوں سے آنے والے لوگوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کو قرار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ جمہوری مغربی معاشروں میں ووٹ اس قدر اہم اور طاقتور ہو چکا ہے کہ اب سیاسی لیڈر ووٹر کو اپنے پیچھے لگانے کی بجائے، خود ووٹر کے پیچھے بھاگتا ہے۔ کیوں کہ عام شہری پاکستان جیسے نیم خواندہ معاشرہ کا رہنے والا ہو یا امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور ناروے جیسے خوش حال ملک کا باشندہ ۔۔۔ اسے ہر وہ مقبول بات اچھی لگتی ہے جو اس کے گھر کا بجٹ چلانے کے لئے اہم ہو۔ اس لئے جب ڈونلڈ ٹرمپ وسطی امریکہ سے چند ہزار لوگوں کے میکسیکو کے راستے امریکہ کی طرف مارچ کرنے والے لوگوں کی بات کرتے ہیں تو وہ پہلے یہ دعویٰ کرنا نہیں بھولتے کہ ’ان کی سیاست نے امریکہ کو معاشی لحاظ سے اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ دنیا کے غریب لوگ دھڑا دھڑ ا امریکہ کا رخ کررہے ہیں‘ ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ان لوگوں کو روکنے کے لئے ان تمام دھمکیوں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں سن کر ان کے سامعین زور زور سے تالیاں بھی بجاتے ہیں اور ووٹ بھی انہی لوگوں کو دیتے ہیں جن کی طرف ٹرمپ اشارہ کر دیں۔

پہلی نسل کے پاکستانیوں ، انٹیگریشن اور ناکامی اور کامیابی کے حوالے سے ہونے والی یہ گفتگو پیچیدہ ہوگئی۔ یہ میرا مقصد نہیں تھا لیکن امیگریشن کے حوالے سے ہونے والی بحث چونکہ انسانی اقدار کی بجائے معاشی مفاد اور سیاسی ضرورتوں سے منسلک ہو چکی ہے ، اس لئے ان الجھے ہوئے دھاگوں کو سلجھانے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پہلی نسل کے پاکستانیوں نے ناروے میں بڑے کاروبار قائم کرنے، عالیشان گھر بنانے اور شاندار گاڑیاں خریدنے کے علاوہ کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر اس کردار کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو آج کی انٹیگریشن کی بحث میں امید اور روشنی کا ایک دیا لو دیتا دکھائی دے گا جو اس بحث کے سیاسی جبر کے اندھیرے میں دیدہ دلیری سے اپنی روشنی بکھیرتا ہے۔

اس دئیے اور روشنی کا ذکر کرنے سے پہلے میں اس اندھیرے کی طرف اشارہ کردوں جو آج کی امیگیرشن بحث کا ماٹو بن چکا ہے۔ ملک میں روشن خیال سیاسی روایت کی نمائیندگی کرنے والی آربائیدر پارٹی کے رکن اسمبلی اور پارٹی کے امیگریشن و انٹیگریشن کمیٹی  Innvandrings- og integreringspolitikk کے لیڈر مسعود غراخانی نے حال ہی میں روزنامہ آفتن پوستن کو ایک انٹرویو دیا ہے جس کی سرخی اخبار نے یہ لگائی ہے :

Jeg spiser pølser, jeg drikker og tror på gud og er muslim på min måte

(میں ہاٹ ڈاگ کھاتا ہوں، شراب پیتا ہوں اور خدا کو مانتا ہوں اور اپنی طرز کا مسلمان ہوں)

اس بات سے بحث نہیں ہے کہ کون شخص کیا کھاتا ہے، کس طرح رہتا ہے اور اس کا عقیدہ کیا ہے لیکن جب ستورتنگ کے نمائیندے کو بھی اپنی بات کہنے اور اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے لئے پہلے یہ کہنا پڑے کہ وہ کیا کھاتا ہے ، اس کے پینے کی عادات کیا ہیں اور وہ کس عقیدہ پر عمل کرتا ہے تو اس سےاس اندھیرے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور جسے دور کرنے کے لئے اس ملک میں آنے والے تارکین وطن کی پہلی نسل کے چند لوگوں نے روشنی کے چراغ روشن کرنے کی کوشش کی تھی۔

روشنی کی یہ کرن کبھی افسانے کی صورت، کبھی ڈرامہ یا فلم کی شکل میں ، کبھی شعر کے لبادے میں ، کبھی کسی سر کے آہنگ میں اور کبھی مباحث میں اپنی ذات کی تکفیر سے انکار کے پیرائے میں سامنے آتی رہی ہے۔ اس روشنی نے اس ملک میں ادبی نشستوں، سیاسی مباحث، مشاعروں ، موسیقی کی محفلوں اور خالد سلیمی کے میلہ کی صورت میں اپنے وجود کا اعلان کیا ہے اور اندھیرے سمیٹنے اور محبت کی روشنی سے راستہ واضح کرنے کا کام کیا ہے۔

جب بھی ناروے میں پہلی نسل کے تارکین وطن کی شراکت کا ذکر ہوگا تو بڑے کاروبار اور شاندار گاڑیوں کے قصے کے ساتھ ان لکھے اور کہے حروف کا ذکر بھی ہو گا جو پہلی نسل کے ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں نے محبت کا سلسلہ دراز کرنے اور اپنے ہم وطنوں کو نئی دھرتی کا نعرہ بلند کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے لکھے یا کہے تھے کہ: ہاں ہمیں اس دھرتی سے محبت ہے۔

Ja vi elsker dette landet

(ناروے کے قومی ترانے کا پہلا مصرع)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali