چشم دید گواہی: ’پاکستان کوارٹرز‘ والوں کے ساتھ کل کیا ہوا؟


یہ طے ہوچکا ہے کہ نئے پاکستان کے پچاس لاکھ گھر آشیانہ اسکیم کی طرح نہیں ہوں گے۔ ان کے معاملات شفاف ہوں گے اور یہ گھر نہ صرف اسی حکومت کے دوران نہ صرف بن جائیں گے بلکہ ان کے مکین اس گھر کی دوسری سالگرہ بھی دھوم دھام سے منانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس روز خوشی میں پٹاخے چلانے کا انتظام فواد چوہدری، علی امین گنڈاپور عرف شہد والے کے ذمے لگائیں گے۔ یہ بھی سچ ہے کہ چیف جسٹس بھلے ریٹائر ہوجائیں لیکن اپنی زندگی میں ڈیم بنانے کی جو وصیت وہ کرچکے ہیں اسے پاکستان تحریک انصاف ایک فرمانبردار اولاد کی طرح اپنی حکومت کی زندگی میں پورا کرے گی ورنہ روز محشر بابا رحمت ان کا گریبان پکڑنے کے لئے تیار کھڑے نظر آئیں گے۔

یہ ڈیم بنے گا تو دیامیر میں، لیکن یقین جانیے اس کے بنتے ہی سندھ کی وہ زمین جو بنجر ہے وہاں پانی کا ذخیرہ اتنا ہوجائے گا کہ وہ بھی دوسروں کو بالٹیاں بھر بھر کر دینے کو سوچیں گے۔ نئے پاکستان کے منصوبے کوئی معمولی نہیں یہ کوئی افسانے نہیں یہ وہ حقیقت ہیں جن کو آپ سب ہضم نہیں کر پا رہے۔

ایسی ہی حقیقت کو ہضم کرنے کو پاکستان کوارٹر کے مکین بھی تیار نہیں۔ کراچی میں قیام پاکستان کے بعد گارڈن کے علاقے میں مہاجرین کو عارضی پناہ گاہ بناکر دی گئی پھر آہستہ آہستہ یہاں کوارٹر تعمیر ہوئے۔ کراچی کی گنجان آبادیوں میں قائم یہ کوارٹرزجن میں جہانگیر ایسٹ وویسٹ، کلیٹن، مارٹن کوارٹر، ایف سی ایریا شامل ہیں اعدادو شمار کے مطابق لگ بھگ تین ہزار سے زائد اور وفاق کی 325 ایکڑ زمین پر تعمیر شدہ ہیں۔

مختلف حکومتوں نے یہاں پر بسنے والے ریٹائرز ملازمین ان کی بیواؤں کو یہاں رہنے کے پرمٹ جاری کیے جو کاغذوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے ہوتے فائلوں کی شکل اختیار کرگئے۔ لیکن اب اسٹیٹ آفس نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وفاق کی زمین پر اصل مالک، سرکاری ملازمین کے بجائے قابضین کا راج ہے۔ سرکار اور عدالت ہماری مدد کرے۔ چونکہ اب ہماری عدالتیں ”ون ونڈو“ آپریشن کے اصول پر چلتے ہوئے فیصلے پہلے دیتی ہیں اور تحقیقات بعد میں تو آرڈر جاری ہوگیا کہ سرکاری اراضی فوری طور پر خالی کروائی جائے۔

کل احکامات پر عملدرآمد کے لئے گارڈن میں قائم پاکستان کوارٹرز کو خالی کروانے کے لئے پولیس کی بھاری نفری علاقے میں داخل ہوئی۔ مکینوں نے اس آبادی کے داخلی راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کردیا۔ میڈیا بھی رات سے یہاں موجود تھا۔ لیکن صبح صورتحال تب بدلی جب صبح دس بجے پولیس اور علاقہ مکین سڑک پر آمنے سامنے آگئے۔

اس وقت میں اپنے کیمرامین کے ہمراہ فاروق ستار سے بات چیت کر رہی تھی کہ واٹر کینن نے اپنی پوزیشن بنائی۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے وہاں کھڑے ایک نوجوان سے ان بوڑھی خواتین کو فوری ہٹانے کی درخواست کی جو مالکانہ حقوق کے کاغذ پکڑے پولیس والوں کو ثبوت دینے کھڑی تھیں۔

نوجوان نے انتہائی پر اعتماد انداز میں میری تجویز رد کرتے ہوئے کہا کہ نہیں بہن یہ واٹر کینن پولیس لائی ضرور ہے لیکن ڈرانے کے لئے ہم کوئی تشدد پسند تھوڑی ہیں یا یہ اتنے سنگدل جو ہماری بزرگ عورتوں اور مرد پر طاقت کا استعمال کریں گے۔ پھر بھی اس وقت میں نے ایک خاتون کو یہ بات سمجھائی جو میرے ساتھ محفوظ جگہ منتقل ہونے کے لئے جیسے ہی مڑیں پانی کا زوردار پریشر کھولا گیا اور کئی خواتین جو باپردہ تھیں کئی کئی فٹ دور جاگریں۔ چند منٹوں میں اس کارروائی میں کئی درجن مرد اور خواتیں اپنا توازن کھو دینے کے سبب زخمی ہوئے۔ پانی کا زور دار پریشر میرے ساتھ چلنے والی خاتون کو دور لے جاچکا تھا اور میں بھی اپنا توازن کھو بیٹھی تھی۔

پولیس نے اپنا رستہ بنایا اور اس گلی میں داخل ہوگئی جہاں رکاوٹیں کھڑی تھیں اس وقت تک بھی لوگ پولیس سے بات چیت کے لئے تیار تھے۔ ماحول ایک بار پھر سے کشیدہ ہونے لگا کہ میں نے ایک پولیس والے سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ گھروں کو مسمار کرنے کے لئے مشینری ساتھ لائے ہیں؟ جواب نفی میں آیا۔ اگلا سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس تحریری اجازت نامہ ہے کہ آپ یہ کوارٹرز خالی کروائیں گے؟ جواب نفی میں تھا۔ میں نے پھر کہا کہ کیسے آپ لوگ طاقت کا استعمال تمام ایس او پیز کے بنا کرسکتے ہیں؟ ابھی واٹر کینن کے استعمال سے اتنی خواتین متاثر ہوئیں اب آپ لاٹھی چارج کو تیار ہیں تو جواب آیا میڈم ہمیں اوپر سے احکامات ہیں کہ آج ہر صورت ان لوگوں کو سبق سکھانا ہے۔ ہم مجبور ہیں۔

اسی دوران ایک خاتون پولیس اہلکار نے پنجابی زبان میں اپنی ساتھی سے کہا کہ ”اے ساری عورتاں میری ماں دی عمر دی اے میں کیویں اناں اتے لاٹھی چارج کراں اے تے ظلم اے“ (یہ ساری عورتیں میری ماں کی عمر کی ہیں، میں ان پر کیسے لاٹھی چارج کروں، یہ تو ظلم ہے) دوسری نے جواب دیا ”ڈیوٹی ہے مجبوری ہے تو طبیعت دی خرابی دا بہانہ پاکے واپس ٹر جا میں ویکھ لاں گی“ (ڈیوٹی ہے، مجبوری ہے، تم طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے واپس چلی جاؤ میں دیکھ لوں گی) اور پھر رحم کرنے والی پولیس اہلکار بوجھل قدموں سے گلی سے نکل گئی۔

اسی لمحے لاٹھی چارج شروع ہوا جس میں بلا امتیار خواتین اور بزرگوں سمیت سب کو نشانہ بنایا گیا۔ کئی بوڑھے گرتے پڑتے دیوار سے لگتے گئے۔ راستہ بنتا گیا کہ اس دوران میں نے دیکھا کہ گھروں کے سامنے کھڑی موٹر سائیکلوں کو پولیس اہلکار دھکا دے کر گراتے جاتے اور ان کی لائیٹیں لاٹھیوں سے توڑتے جاتے۔ ایک کار کے تمام شیشے بھی پولیس نے توڑ ڈالے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے میں نے ایک گھر میں پناہ لی جہاں فاروق ستار موجود تھے لیکن تھوڑی دیر بعد پہلا آنسو گیس کا شیل اس گھر کی چھت سے ہوتا ہوا صحن میں آگرا یہاں سے معاملات اور بگڑ گئے۔

تھوڑی ہی دیر میں علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا، علاقہ مکینوں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ ہوا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تاہم تمام تر تیاری اور حفاظتی اقدامات کر کے آنے والے پولیس کا کم اور لوگوں زیادہ نقصان ہوا۔ نوجوانوں، خواتین، بوڑھوں کو لاٹھی چارج کے سبب زخمی ہونا پڑا تو دوسری جانب کئی خواتین واٹر کینن کے استعمال سے شاک کی کیفیت میں تھیں اب آنسو گیس سے ہر وہ گھر متاثر ہونے لگا جہاں خواتین اور بچے خود کو محفوظ سمجھے بیٹھے تھے۔

دوران رپورٹنگ میں نے گھروں میں گرنے والے آنسو گیس شیلز کے سبب خواتین اور بچوں کو اتنا بے بس پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ نہ کسی کو اس وقت پردے کی فکر تھی نہ دوپٹے کا ہوش سب گھر سے باہر نکل کر یا تو سانس لینا چاہ رہے تھے یا پانی ڈال ڈال کر خود کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

وزیر اعلی سندھ کے احکامات کے سبب پولیس کو اس پر تشدد کارروائی سے روکا گیا لیکن ان احکامات کے باوجو ایک گھنٹے تک پولیس پیچھے ہٹ کر بھی آنسو گیس کی شیلنگ کرتی رہی جسے ہمارے کیمرے کی آنکھ نے لمحہ بھر لمحہ قید کیا۔ پولیس کی مکمل واپسی کے بعد سیاسی رہنماؤں نے اپنی انٹری دی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar