سیاسی شعور؟


ہمارا معاشرہ آج کل بہت زیادہ سیاسی ہو چکا ہے۔ ہر جگہ پر سیاسی بحث اور تکرار جاری ہے۔ سوشل میڈیا کا تو مقصد ہی اب سیاسی پوسٹ رہ گیا ہے جو کہ ایک رواج بن چکا ہے۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں اس کو سیاسی شعور کہ رہی ہیں اور وہ اس کا کریڈٹ بھی لے رہی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی بحث کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن ایک چیز جو کہ بہت غلط اور معاشرے میں خرابی کا باعث بن رہی ہے وہ سیاسی شعور کے نام پر شخصیت پرستی اور عدم برداشت ہے۔

شخصیت پرستی ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکی ہے۔ جو شخص کسی ایک جماعت کو سپورٹ کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ جماعت بالکل ٹھیک ہے اور باقی تمام جماعتیں کرپٹ، چور اور ملک دشمن ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ان نوجوانوں کو اپنی سحرانگیزیوں میں اس طرح جّکڑ لیا ہے کہ وہ اب کسی دوسرے کا موقف سننے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے صحت مند بحث ختم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف مخالف جماعت کو غلط ثابت کرنا اور اپنی پارٹی کو درست ثابت کرنا رہ گیا ہے۔

آج کل سوشل میڈیا لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا اور پروپیگینڈا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ہزاروں فیک اکاونٹس بن چکے ہیں جو دن رات افواہیں پھیلانے اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ وہ سیاسی شعور ہے جو ملک کی ایک پارٹی کریڈٹ لیتی ہے؟ ایک صحافی جو اپوزیشن کے دنوں میں کسی پارٹی کے بارے نرم رویہ صرف اس لیے رکھتا تھا کہ جب وہ جماعت اقتدار میں آے گی تو ملک کے حالات بہترکرے گی لیکن جب وہ جماعت اقتدار میں آتی ہے تو وہی صحافی جب تنقید کرے تو اس کے خلاف ایک مہم شروع کر دی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل حقائق کو بھول کر سیاسی جماعتوں کی سحرانگیزیوں میں گرفتار ہو چکی ہے۔ کوئی کسی کا موقف سننے کو تیار نہیں۔ پوری دنیا میں سیاسی جماعتوں نے اور ان کے لیڈروں نے نوجوانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ہر شخص کا موقف سنے اور دلیل کے ساتھ اس سے اختلاف کریں اور یہ اختلاف اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔

بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ سوشل میڈیا پر ایسی اخلاقیات سے عاری پوسٹس کرتے ہیں گویا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی ان پڑھ اور جاہل شخص کی پوسٹ ہو۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اندھادھند سیاسی تقلید سے نکلیں اور حقائق اور دلیل کی دہ پر گامزن ہوں۔ جب تک یہ نام نہاد سیاسی شعور ہمارے اندر رہا تو ہم دنیا کی مہذب قوم کبھی بھی نہیں بن سکتے ہیں۔ آخر میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی کارکنوں کی تربیت کریں۔ اساتذہ کرام، دانشوروں، کالم نگاروں اور اینکرر پرسن حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس سماجی برائی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ناصر فراز
Latest posts by ناصر فراز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).