گناہگاروں کی بے گناہیاں


شری کرشن پانچ ہزار برس پہلے تھے۔ حضرت مسیح دو ہزار برس پہلے۔ حضرت محمد تیرہ سو برس پہلے اور گورو نانک چار سو برس پہلے۔ گورونانک کے بعد درجنوں نہیں، سینکڑوں درویش، ولی اللہ اور خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوئے، جو اپنی تمام زندگی لوگوں کو گناہوں سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ مگر دنیا کے گناہ کم نہ ہوئے، اور جب تک دنیا قائم ہے، گناہ ہوتے رہیں گے۔

گناہوں کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ حصہ، جن کو انسان گناہ سمجھ کر کرتا ہے، اور دوسرا وہ حصہ، جن کے ہم مرتکب تو ہوتے ہیں، مگر ان کو ہم گناہ نہیں سمجھتے۔ یعنی گناہگار ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے آپ کو بیگناہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ میں چند ایسے گناہ پیش کرتا ہوں، جو فی الحقیقت تو گناہ ہیں، مگر ہم ان گناہ نہ سمجھتے ہوئے ان کے مرتکب ہوتے ہیں۔

میری عمر پندرہ برس کی تھی، اور میں حافظ آباد کی منڈی کی ایک دوکان پر منیمی (یعنی لنڈے حرفوں میں دوکان کی کلرکی ) کا کام سیکھتا تھا۔ میری یہ شروع سے ہی عادت بلکہ فطرت ہے، کہ میں ہر شے کو دیکھنے کے بعد اس پر غور کرتا ہوں۔ اور اس منیمی کو سیکھنے یا منیمی کرنے ( کیونکہ میں نے ایک برس کے قریب بطور منیم کے بھی ملازمت کی ) کے زمانہ میں بھی ہر بات پر غور کرتا۔ اس زمانہ پنجاب کی منڈیوں میں دو بڑی یورپین فرموں کے دفاتر ہوتے تھے، ایک سنڈے پیٹرک کمپنی اور دوسری ریلی برادرز۔

ان دونوں کمپنیوں کا کام یہ تھا، کہ یہ ان منڈیوں سے اناج خرید کر یورپ بھیجتیں، اور ان دونوں فرموں کے ذریعے پنجاب کا کروڑ ہا من غلہ ہر سال یورپ جاتا۔ حافظ آباد کی اس منڈی کے بالکل قریب ایک بہت بڑا احاطہ تھا۔ منڈی کا جو دکاندار ان کمپنیوں کے پاس اپنا غلہ فرخت کرتا، غلہ فروخت کرنے سے پہلے اس احاطہ کو استعمال کرتا۔ جس کی صورت یہ تھی، کہ جتنا غلہ فروخت کرنا ہوتا، وہ اس احاطہ میں ایک طرف جمع کر دیا جاتا، اور دوسری طرف مٹی کا بہت بڑا ڈھیر لگا دیا جاتا۔ یہ مٹی چھلنی میں چھنی ہوئی بہت باریک ہوتی، اور چکنی ( یعنی جس مٹی میں چپکنے کی صفت ہو ) ہوا کرتی۔ سب سے پہلے احاطہ میں چند انچ اونچائی میں غلہ بچھا دیا جاتا، پھر اس پر چکنی مٹی کا پاؤڈر ڈالا جاتا۔

چکنی مٹی کے پاؤڈر کو غلہ پر ڈالنے سے پہلے غلہ پر مشکوں کے ذریعے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا، اور پھر مزدور اس غلہ، پانی اور مٹی کے مکچر کو پاؤں کے ساتھ چند منٹ ہلاتے، تاکہ گیلی مٹی غلہ کے ساتھ چپک جائے۔ اس کے بعد پھر نیا غلہ چند انچ تک اونچائی میں بچھایا جاتا، پھر چھڑکاؤ ہوتا، اور پھر مٹی ڈال کر مزدوروں سے پاؤں کے ذریعے ملایا جاتا، اور اس طرح غلہ کا یہ ڈھیر دس دس پندرہ اور بیس بیس فٹ بلند چلا جاتا، اور پھر اس کو بوریوں میں بھرا جاتا۔

یعنی منڈیوں کے یہ دکاندار، جو صبح ہی ہر روز مسجد، گوردوارہ، مندریا ٹھا کر دوارہ میں ضرور جاتے، ان دونوں فرموں کے پاس غلہ فروخت کرنے سے پہلے غلہ میں سینکڑوں من مٹی اور پانی ملاتے اور ایک دکاندار بھی اس بے ایمانی پر شرم محسوس نہ کرتا۔ اور اگر کبھی کوئی اعتراض کیا جاتا، تو اس اعتراض کا جواب صرف یہ ہوتا، کیا صرف ہم ہی کرتے ہیں، کیا تمام دکاندار یہ بے ایمانی نہیں کرتے۔ گویا کہ چونکہ تمام دکاندار ہی یہ گناہ اور بے ایمانی کرتے ہیں، اس لئے یہ گناہ بے گناہی قرار دے دیا گیا ہے۔

میرا اندازہ ہے، کہ ہندوستان اور پاکستان کے اردو، ہندی، انگریزی اور گورمکھی اخبارات کے حلقو ں میں شاید پانچ فیصدی ایسے اخبارات ہوں گے، جن کے پاس اے۔ بی۔ سی کا اشاعت کے متعلق سرٹیفکیٹ نہ ہو، اور یہ مشتہرین کے پاس اپنی اشاعت کے متعلق جھوٹ نہ بولتے ہوں۔ اور جھوٹ بھی دوگنا، سہ گنا، دس گنا اور بیس گنا۔ یعنی اصل اشاعت پانچ سو ہو گی، تو مشتہرین کو دھوکہ دینے اور اشتہارات لینے کے لئے اس اخبار کا کنویز مینجر یا ایڈیٹر پانچ، سات یا دس ہزار اشاعت بتائے گا۔ اور اگر اصل اشاعت سے کوئی واقف پرائیویٹ طور پر اس جھوٹ، بے ایمانی اور دھوکہ کے متعلق دریافت کرے، تو جواب یہی ہوتا ہے، کہ کیا یہ بے ایمانی صرف ہم ہی کرتے ہیں، دوسرے تمام اخبارات نہیں کرتے؟ یعنی چونکہ یہ گنا ہ سب اخبار والے کرتے ہیں، اس لئے یہ گناہ ثواب قرار دے دیا گیا ہے۔

آپ کسی افسر کو ٹیلیفون کیجیے، اور ملاقات کے لئے وقت پوچھئے۔ ٹیلیفون پر جواب دیتے والا یا ملازم ہو گا، یا افسر کی بیوی۔ جواب یہ ہو گا، ٹیلی فون بند نہ کیجیے، میں دیکھ کر بتایا ہوں (یا بتاتی ہوں ) کہ صاحب گھر پر ہیں یا نہیں۔ حالانکہ صاحب ٹیلیفون کے پاس ہی بیٹھے چائے پی رہے ہوتے۔ ملازم یا بیوی جب پوچھتیں، کہ فلاں صاحب ملنے کے لئے وقت پوچھتے ہیں۔ اور اگر صاحب ملنا نہ چاہیں، تو ملازم یا بیوی ٹیلیفون کرنے والے کو جواب دیتے ہیں، کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں، اور اگر ٹیلیفون کرنے والا یہ پوچھے، کہ صاحب کا گھر پر آنے کا کون سا وقت ہے؟ تو جواب دیا جاتا ہے، کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا، کہ کب آئیں گے۔ یعنی اس افسر نے اگر نہ ملنا ہو، تو ملازم یا بیوی کو بے تکلفی کے ساتھ جھوٹ بول کر کہنا پڑتا ہے، صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ گویا کہ جھوٹ، جھوٹ بولنے والی فہرست سے خارج ہو چکا ہے۔

صوبہ جات کے وزارء دورہ پر جاتے ہیں۔ اور یہ دورہ اگر ان کی کانسی ٹیوانسی میں ہو، تو یہ مصنوعی اور تصنع والی مسکراہٹ اور گرم جوشی کے ساتھ اپنے سرکردہ ودٹروں سے مصافحہ کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، کیا آپ لوگوں کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ جواب میں ودٹر کہتا ہے، کہ جناب آپ نے پچھلی سال حکم دیا تھا، کہ کنوئیں کے پاس گندے پانی کی نکاسی کے لئے نالی بنائی جائے، مگر ابھی تک نالی نہیں بنائی گئی۔

یہ سن کر وزیر صاحب مصنوعی غصہ کی صورت میں اپنے پرسنل اسسٹنٹ کو (جو ساتھ ہی ہوتا ہے ) فرماتے ہیں، یہ پی۔ ڈبلیو۔ ڈی والے بہت خود سر ہیں، انہوں نے، میرے حکم کی اب تک تعمیل نہیں کی۔ آپ نوٹ کیجیے، کہ ان کو سزا دی جائے، اور فوراً نالی بنائی جائے۔ یہ سن کر دیہاتی بھی خوش ہو جاتا ہے، اور وزیر صاحب بھی اپنے دورہ کا فرض پورا کر لیتے ہیں۔ ایک برس اور گزر جاتا ہے، اور اگلے برس دورہ پر پھر وہی پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کو کوسنے کا ڈرامہ کھیلا جاتا ہے۔ کیونکہ جمہوریت کے جھنڈے کے نیچے کسی وزیر کا جھوٹ بولنا کوئی گناہ نہیں، وزراء کی وعدہ خلافیاں ثواب قرار دے دی گئی ہیں، اور نئے انتخابات تک ان وعدہ خلافیوں اور طفل تسلیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

آپ بازار میں سامان خریدنے جائیے۔ ایک دکاندار ایسا نہ ملے گا، جو زیادہ قیمت بتا کر کم قیمت نہ لیتا ہو، اور جھوٹ بولتے ہوئے گاہک کی جیب تراشی کرنا تجارتی ہو شیاری نہ سمجھتا ہو۔ مثلاً انڈے فروخت کرنے والے کے پاس جائیے۔ انڈوں کا نرخ پوچھئے، جواب ملے گا، دو روپیہ دس آنہ درجن، یعنی ساڑھے تین آنے کا ایک انڈہ۔ گاہلک دو آنہ دینا چاہے گا۔ دکاندار تین آنے کا مطالبہ کرے گا۔ آخر ڈھائی آنہ پر فیصلہ ہو گا۔ دو انڈوں کی قیمت پانچ آنہ دیتے ہوئے گاہک کہے گا، انڈے گندے نہ ہوں، تازہ ہوں۔ دکاندار کہے گا، بالکل تازہ، انڈے ہیں، خراب ہوں، تو واپس کر دیجیے۔ انڈے گھر پر لائے گئے ُ تو ان میں سے ایک گندہ، ایک اچھا۔ دکاندار خوش، کہ اس نے پانچ آنے میں ایک اچھا اور ایک گندہ انڈہ فروخت کیا۔ گاہک اب گندے انڈے کو لے کر واپس کرنے دکاندار کے پاس جائے، تو ایک گھنٹہ کا وقت صرف ہونے کے علاوہ دکاندار سے بک بھی کرنی پڑتی ہے۔ گاہک مجبور ہے، کہ دکاندار کو کوستے ہوئے گالیاں دے کر صبر کر لے۔ کیونکہ موجودہ اقتصادی کشمکش کے دور میں تجارتی بے ایمانی کو بددیانتی قرار نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon