کلامِ فیض میں تجسیم کاری (Personification)


شاعری محض جذبات کے اظہار کا نام نہیں بلکہ جذبات کے لطیف پیرائے میں اظہارکا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو شاعری سے مراد ایسا کلام ہے جس میں جذبات ، نظریات اور احساسات کا اظہار اس طرح سے کیا جائے کہ پڑھنے والے کوتحریر سپاٹ ، ثقیل اور بے مزہ محسوس نہ ہو بلکہ اس میں ادب کی چاشنی ، زبان کی مٹھاس اور لطافت بھی محسوس ہو ۔ اسی لئے شعراء اپنے کلام کو موثر اور لطیف بنانے کے لئے بہت سے شعری لوازمات استعمال کرتے ہیں ۔ جن میں تشبیہہ ، استعارہ، صنعت تکرار، صنعت تجنیس، امیجری، تجرید، ایہام، تلیمح، تمثیل، صنعت ِ تضاد، حسن ِ تعلیل، رمزیت ، اشاریت ، سہل ممتنع ، رعایت لفظی، مراعات النظیر، مجاز مرسل اور تجسیم جیسی صنائع شامل ہیں ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری سے مراد ایسی تحریر ہے جو مفہوم اور معنی کے اظہار کے ساتھ ادبی لطافت اورشیرینی بھی رکھتی ہو۔
جس طرح ہر شاعر کا اسلوب دوسرے شعراء سے فرق ہوتا ہے۔ اس طرح ہر شاعر کی شاعری میں صنائع بدائع کے استعما ل بھی قابل ِ شناخت ہو تاہے ۔ کوئی شاعر تشبیہہ و استعارے کا اما م کہلا تا ہے تو کوئی رمز و اشاریت میں ید ِ طولیٰ رکھتاہے ۔کوئی امیجری کے استعمال سے اپنے اشعار کو خوبصورت بنا تا ہے تو کوئی تمثال آفرینی سے ۔اس طرح جب ہم بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردوشاعر فیض احمد فیض کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ان کے ہاں تجسیم کار ی کا استعمال بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔ فیض کی شاعری جہاں روایتی مضامین کو نئے روپ دینے کے حوالے سے منفر د ہے وہاںِ تجسیم کے استعما ل کے بہترین استعما ل کے باعث بھی ایک امتیازی مقام رکھتی ہے ۔ باقی اردو شعراء کی نسبت فیض احمد فیض نے یہ صنعت بے حد خوبصورتی اور کثرت سے استعما ل کی ۔ فیض کی شا عری جہاں فنی اور فکر ی لحاظ سے بے مثال ہے وہاں اسے کا طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ فیض سے بہتر اور کثرت سے اس صنعت کو کسی نے استعمال نہیں کیا۔
کلام فیض میں تجسیم کاری کے حوالے بات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ تجسیم کاری کی مختصر تعریف پیش کر دی جائے ۔ اور یہ واضح ہو جائے کہ تجسیم کیا ہے اور تجسیم کی دوسری فنی اصطلاحات سے کیا مماثلت اور کیا فرق ہے ۔
تجسیم کو انگریزی زبان میں Personification کہاجاتاہے ۔جس سے مراد کسی غیر مرئی شے کوجسم دیناہے۔ کسی جذبے یا احساس کو جسمانی خدوخال یا حرکات عطاکرناہے۔ یہ صنعت شعر کے تاثر میں بے پنا ہ اضافہ کرتی ہے اور قاری پہ سحر طاری کردیتی ہے ۔ تجسیم کار ی کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر انور جمال اپنی کتا ب ادبی اصطلاحات میں یوں فرماتے ہیں۔

اردو لغت فرہنگِ تلفظ کے مطابق ’’تجسیم سے مراد صورت دینا، جسم دینا، بے جان اشیاء کو جاندار فرض کرنا ہے جو کہ ادب میں عام ہے ‘‘ اردو لغت فیروز اللغات کے مطابق ’’ مذہبی حوالوں میں مسیحیوں کے عقیدے خدا کے مجسم ہونے کو تجسیم کہاجاتا ہے ۔ جبکہ ادب کی زبان میں غیر مرئی اشیاء جذبات اور احساسات کو جسم دینے کو تجسیم کہا جاتاہے ‘‘ اسی طرح ویب سائٹ بنام اردو دائرہ معارف العلوم میں تجسیم کی تعریف یوں درج ہے ’’ تجسیم ( تج۔ سیم) عربی زبان میں ثلاثی مجر د کے باب سے مشتق اسم ہے۔ او راردو میں من و عن داخل بطور اسم مستعمل ہے ۔ ۱۸۴۷ء کو ’’تاریخ ابولفدا میں مستعمل ملتا ہے ۔ کیفیت کے اعتبار سے مو نث واحد ہے ۔ اس کے معانی صاحب جسم یا مجسم ہونے کے ہیں۔ کسی مجرد شے کو جسمانی شکل و صورت دینا ہے ‘‘
مندرجہ بالا تمام تعریفوں سے ہم یہ مجموعی طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ علم الکلام کی رو سے کسی احساس ، جذبے ، رویے یا کسی بھی مجر دکو جسمانی افعال اور حسیات سے متصوف کرنا تجسیم کہلاتاہے
فیض کا یہ مخصوص تجسیم کا رنگ ان کے ہر مجموعے میں کثرت سے بکھر ا نظر آتاہے ۔ جس طرح تصویر کے رنگ ، نقوش اور لکیروں کا زیر وبم دیکھنے کے عمل سے حسیات کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے باہمی آہنگ سے ذہن میں حسن کا ایک معیار جنم لیتاہے ۔ اسی طرح شاعر اپنی فنی ہیئت اور حسی تجربات سے شعری ادراک کو متحرک کرتاہے ۔دراصل شاعری وہ توصیف الحال ہے جو مصورانہ جزئیات نگاری کے لفظی بیان سے ایک تصویر ، ایک فضاء بلکہ ایک عصری منظرنامہ تخلیق کرتی ہے ۔ہر شاعر کی طرح فیض کی شاعری کا اپنا ایک رنگ ہے اور یہ رنگ فیض کی تجسیم کاری کے باعث ہی انوکھا، اچھوتااور پرکار بنا ہے۔ ا ن کی کتب کا تدریجی جائزہ لیاجائے تو ان میں آغازِشباب کی واردات محبت کے بے ضرر جذبات اورنسوانی تناسبات طرح طرح سے جلوہ نمائی کرتے ہیں ۔ان کی نظم ’’ تنہائی ‘‘ ان کے تجسیم کاری مخصوص کے رنگ میں لپٹی ہوئی ایک منفرد نظم ہے ، ملاحظہ کریں کس خوبصورتی سے فیض احمد فیض نے اس نظم میں ’سو گئی راستہ راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار ‘ تاروں کا غبار، خوابیدہ چراغ ، اجنبی خاک اور بے خواب کواڑوں جیسی تجسیم کار ی کی اچھوتی مثالیں پیش کی ہیں۔جن سے قاری کے دل و دماغ پر ایک گہرا تاثر قائم ہو تا ہے۔ اور بے جان حروف مجسم ہو کر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

فیض اپنی اس مخصوص ذہنی کیفیت جس میں مجرد اشیاء جسم اوڑھے نظر آتی ہیں کے بارے میں خود بھی بتاتے ہیں

ان کی ایک غزل کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں
میر ی خاموشیوں میں لرزاں ہے
میر ے نالوں کی گمشدہ آواز
اسی طرح ان کی نظم سرود ِ شبانہ ملاحظہ کریں ۔تجسیم کے حوالے سے اسے اگر اردو کی بہترین نظم کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ ملاحظہ کریں کہ چاندنی کی تھکی ہوئی آواز، آبشارِ سکوت ، پیکرِ التجا ہے خاموشی جیسی نادر تجیسم کاری کی مثالیں شاید ہی اردو ادب میں کسی اور شاعر کے ہاں ملیں ۔

فیض جی نے عوام الناس کے بارے میں شدت سے سوچااور اظہار کیا ہے۔اس فکری رویے نے فیض کے کلام میں ایک مخصوص منظرنامہ او ر حرکی استعارہ تخلیق کیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی زندگی کے مخصوص واقعا ت ، عصر ی وسیاسی مسائل مل کر فیض کی شاعری کو کئی رنگوں کی قوس ِ قزح بنا دیتے ہیں ۔ ان رنگو ں سے فیض کی شاعری کی وہ مخصوص فضاترتیب پاتی ہے جس کے باعث فیض اپنے ہم عصر شعراء میں ممتاز اور منفرد مقام پر نظر آتے ہیں ۔ ’’دستِ صبا‘‘ کی سب سے مقبول غزل ’یاد‘ کو اگر اردو ادب میں تجسیم کاری کی بہترین مثال یا نمائندہ غزل کے طور پر پیش کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس غزل میں فیض احمد فیض کا فن تجسیم کاری اپنے اوج پہ نظر آتاہے ۔ہر شعر اپنے اندر ایک الگ دنیا بسائے ہوئے ہے۔ آواز کے سائے، ہونٹو ں کے سراب، سانس کی آنچ، دل کے رخساراور یا د کے ہاتھ جیسی تجسیم بلاشبہ اردو ادب کے سرمایہ ہیں جن سے ناصرف فیض کابلکہ اردو ادب کا قد بلند تر ہو تا نظر آتا ہے ۔

فیض احمد فیض کی ایک اور نظم ملا حظہ کریں جس میں مجردات کو بہت خوبصورتی سے جسم دئیے گئے ہیں ۔ جس کاعنوان ’’ زنداں کی ایک صبح‘‘‘ہے جس میں چاندنی کی سیہ چادر، چاندی کے بھنور، چاندکے ہاتھ، رات اور صبح بہت دیرگلے ملتے رہے، نیند کی اوس، بیزار قدم، چور صدائیں جاگیں، تالے کے جگر، سر پٹکنے لگا دریچہ جیسی نایاب تجسیم کاری کی مثالیں موجو دہیں ۔

فیض کے مجموعے دستِ صبا میں ایک اور نظم بعنواں ’زنداں کی ایک شام ‘ ملاحظہ فرمائیں جس میں رات، صبا، اشجار، چاندنی کا دستِ جمیل جیسی تجسیم کی بہت عمدہ مثالیں شامل ہیں ہے۔

کلام ِ فیض میں سے لی گئی یہ صرف چند مثالیں ہیں جبکہ یہ مثالیں ان کے پہلے مجموعے دستِ صبا سے لے کر ان کے آخری مجموعے غبارِ ایام تک جا بجا بکھری پڑیں ہیں۔ فکری اعتبارسے ترقی پسندانہ نظریات کے مالک فیض کی شاعری میں محروم طبقات کی محرومیاں، معاشرتی استحصال، سماجی ناہمواریاں ، مقہور اور مجبور عوام کے دکھوں اور مجبوریوں جیسے موضوعات پائے جاتے ہیں ۔ یوں بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ فکری طور پر فیض کی پہچان ترقی پسندانہ نظریا ت ہیں تو فنی طور پر فیض کی پہچان تجسیم کار ی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).