جمال خشوگی کا خون بہا کس نے وصول کیا۔ ناقابل اشاعت قرار پایا کالم


ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے وزیراعظم عمران خان کی طرح ایک سچے اور کھرے انسان ہیں۔ سفارتی نزاکتوں کے پیش نظر تصنع یا بناوٹ سے کام نہیں لیتے نہ ہی چنیدہ الفاظ کی مینا کاری سے مزین لچھے دار گفتگو کرتے ہیں۔ من میں جو بھی ہوتا ہے جھٹ پٹ اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اب آپ امریکی اخبار سے وابستہ صحافی جمال خشوگی کے قتل پران کا ردعمل ہی دیکھ لیں۔ انہوں نے اس خون ناحق کی مذمت تو کی لیکن جب بھی کوئی صحافی معاشی پابندیوں کے امکانات پر بات کرتا ہے تو لگی لپٹی رکھے بغیر واضح کر دیتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں۔

اس قتل میں ملوث عرب ملک امریکہ سے سالانہ 450 ارب ڈالر کی خریداری کرتا ہے، ہم اس پر پابندیاں کیسے لگا سکتے ہیں۔ گزشتہ روز تو انہوں نے بہت واضح انداز میں اپنا مافی الضمیر بیان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جمال خشوگی کے قتل کا طریقہ ”بہت بھونڈا“ تھا اور ”نہایت برے انداز میں اس پر عملدرآمد کیا گیا“۔ با الفاظ دیگر ٹرمپ اپنے عرب دوستوں کے فرسودہ طریقہ واردات پر سر پیٹ رہے تھے اور یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اپنے دشمنوں اور مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے اور بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں جن سے دامن پہ کوئی داغ آئے نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ ہو۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بے ساختہ ردعمل پر مجھے فرانسیسی فلسفی والٹیئر کا تاریخی جملہ یاد آیا جس نے کہا تھا ”قتل ممنوع ٹھہرا ہے اس لئے سب قاتل سزاوار ہیں ماسوائے ان فاتحین کے جو بڑی تعداد میں قتل کر ڈالیں۔ “ کسی ایک شخص کو نشانہ بنایا جائے تو غل مچ جاتا ہے لیکن جنگی مہم جوئی کی صورت میں یلغار کی جائے تو آپ قاتل کے بجائے نجات دہندہ کہلاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی امریکی مہم جوئی کو دیکھ لیں۔ کتنے ہی ”جمال“ اس کمال سے قتل ہوئے کہ کسی کو اُف کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔

سرتسلیم خم کہ آپ کو امت مسلمہ کے قائد کی حیثیت حاصل ہے اور آپ کے اس قائدانہ منصب پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا مگر ناخلف ناقدین کو نکیل ڈالنے کے لئے ابھی آپ کو برادر اسلامی ممالک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ گستاخ صحافیوں کو ٹھکانے لگانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے کلید بردار چاکلیٹی ہیرو طیب اردوان سے ہی مشورہ کر لیتے کہ مخالفین کو کیسے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

فوجی بغاوت کی صورت میں موقع میسر آیا تو عہد نو کے ”صلاح الدین ایوبی“ نے اگلے پچھلے سب حساب کتاب برابر کر دیے۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ”زمان“ کو ٹیک اوور کرکے سارے کس بل نکال دیے۔ غیر سرکاری خبر رساں ادارے ”جہان“ کا کنٹرول سنبھال لیا گیا۔ لگ بھگ 100 اخبارات و جرائد پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تنقید کرنے والے تمام صحافیوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے مخالفین کو چُن چُن کر فوجی بغاوت کی دیوار میں چُن دیا گیا۔

برادر عزیز! ہم پاکستانی تو آپ کے پیروں کی خاک ہیں مگر معذرت کے ساتھ آپ تو ہمارے مقابلے میں بھی اناڑی نکلے۔ آپ کے درمیان ہمارے سابقہ سپہ سالار جناب راحیل شریف موجود ہیں، ان سے استفادہ کیا ہوتا یا پھر تبدیلی کے علمبردار وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کی ہوتی تو یوں ”خشوگی“ کے قتل سے بدنام نہ ہوتے۔ ضروری تو نہیں کہ بیرون ملک جا کر ایسے ناہنجار صحافیوں کو ٹھکانے لگایا جائے، انہیں خاموش کروانے کے اور بھی طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر اخبارات کے اشتہارات بند کرکے ان کا گلہ گھونٹ دیا جائے، ادائیگیاں نہ کرکے مصنوعی بحران پیدا کردیا جائے یا پھر ناپسندیدہ صحافیوں کو ان کے اداروں سے نکلوا کر بے روزگاری کا مزہ چکھایا جائے تاکہ معاشی قتلِ عام کے ذریعے یہ ناقدین اپنی موت آپ مرجائیں۔

بہرحال جمال خشوگی کے قتل پر عالمی دباؤ کا سامنا کرنے والے برادر اسلامی ملک کی قیادت ایسی اناڑی بھی نہیں۔ یمن کی مہم جوئی میں انہوں نے والٹیئرکے فلسفے پر من و عن عمل کیا اور سرخرو ٹھہرے۔ اس سے پہلے بھی وہ بیرون ملک آپریشنز میں اپنے متعدد ناقدین کو ٹھکانے لگا چکے ہیں لیکن اقتدار کا کھیل بھی سانپ اور سیڑھی کی طرح خطرناک ہوتا ہے اس میں کب کونسی غلطی بلنڈر ثابت ہو، اس بارے میں پورے وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ برادر اسلامی ملک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

موقع کی تاک میں بیٹھے ممالک نے اس قتل کو نعمت غیر مترقبہ سمجھا اور اپنے اپنے حصے کا تاوان وصول کرنے میں لگ گئے۔ امریکہ کے واجبات تاخیر کا شکار تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے عرب اتحادی اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، اب اس واردات کے بعد نہ صرف ادائیگیوں کے معاملات حل ہو گئے بلکہ امریکی گرفت بھی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی۔ اس قتل کی سب سے زیادہ قیمت ترکی نے وصول کی کیونکہ یہ قتل اس کی سرزمین پر ہوا۔

ایک طرف امریکہ سے بگڑتے تعلقات سنور گئے، امریکی پادری اینڈریو برنسن جس کی گرفتاری پر ترک معیشت اور کرنسی عدم استحکام کا شکار ہوگئی تھی، اسے چپکے سے رہا کر دیا گیا۔ شام اور ترکی کی سرحد پر وہ علاقہ جو کردستان ورکرز پارٹی کے کنٹرول میں ہے اور جہاں ترکی کئی سال سے قدم جمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا مگر امریکی مخالفت کے باعث کامیابی نہیں مل پا رہی تھی اب یہ علاقہ پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آگرے گا۔

اسی طرح جمال خشوگی کے قتل پر عالمی دباؤ کا شکار برادر اسلامی ملک اب ترکی کی قطر اور ایران سے دوستی کے باوجود طیب اردوان سے گھٹنوں کے بل مصافحہ کرنے کے لئے بیتاب دکھائی دیتا ہے اور یہ سب جمال خشوگی کے قتل ناحق کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ ہاں البتہ اردوان، خون بہا کے طور پر ولی عہد کی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو یہ بہت بڑی قیمت ہوگی۔

جمال خشوگی کے اندوہناک قتل سے ہم پاکستانیوں کی بھی لاٹری لگ گئی۔ اُدھار تیل اور کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرنے کے لئے اکاؤنٹ میں ڈالر رکھنے کی درخواست تو ہم نے پہلے بھی کی تھی مگر شنوائی نہ ہوئی۔ یہی موقع تھا اپنے حصے کا خون بہا وصول کرنے کا اور ہم نے اس معاملے پر اپنی خاموشی کی قیمت وصول کرلی۔
کالم نگار پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ”جنگ“ سے منسلک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد بلال غوری

بشکریہ روز نامہ جنگ

muhammad-bilal-ghauri has 14 posts and counting.See all posts by muhammad-bilal-ghauri