ہاکی کی کپتان اور اسلامی جمعیت کے جوان


ہوا کچھ یوں کہ ہم نے اپنی تعلیمی زندگی کا ہر ہر معرکہ سر کر لیا۔جو اور جس قسم کی ایکٹیوٹی کالج سکول میں ہوتی ہماری سربراہی میں 5 لڑکیوں کو گروہ اس میں حصہ لیتا اور داد پاتا۔ بی اے کا آخری سال تھا جب طلباء تنظیموں سے پابندی اٹھا لی گئی۔۔ ھر لمحہ مومن کی نئی شان، نئی آن۔ ہماری فطرت ٹھہری مسلم لیگ کے جوانوں کی کمان ہم نے سنبھال لی۔۔ نوجوانوں کو ووٹ کی اہمیت اس کے تقدس کے درس دیتے۔ مسلم یوتھ فیڈریشن رجسٹر کروائی۔ مسلم لیگ امیر رہنماؤں کی غریب جماعت رہی ہے۔ اپنے خرچے پانی پہ کالج فیلوز کو گھسیٹ گھسیٹ مسلم لیگ میں شامل کروایا۔۔۔۔ بتایا کہ دیکھو یہ ہے وہ جماعت جو پاکستان بنانے کی “زمہ دار” ہے(ویسے اب اگر کہتے تو آج کا جوان بہت پیٹتا)

کرنا خدا کا کیا ہوا ہے کہ ہماری پرجوش تقاریر کے سبب ہم جمیعت کی نظر میں آگئے۔ اور جمعیت کے سرکردہ ارکان میں بوائے کالج کے جوان شامل تھے۔ ہم سے ہمارا گلا مانگتے کہ یہ گلہ یہ اندازو بیان ہمیں دے دے “ٹھاکر”۔ لیکن ہم بھی وہ کہ کمٹمنٹ کر لی تو پھر کانوں میں گویا روئی ٹھونس لی۔ صالیحن کی یہ جماعت پردے اور شریعت کی سب سے بڑی داعی ہے۔ تو بزبان شاعر ہم سے بات کی جاتی۔۔۔ یعنی خواتین کالج کے باہر بوائز کالج شباب ملی ونگ کے جری بہادر جوان ہمیں یاد کرواتے کہ ملک خدا کا۔۔۔ قانون اللہ کا نفاذ جمیعت کا۔۔۔ کبھی جماعت کی خواتین کالج میں ہمیں چائے پلانے لے جاتیں۔۔۔۔ ہم چائے کے ساتھ سموسے کی بھی فرمائش کر دیتے۔ ٹھنڈی بوتل بھی اکثر پیتے۔ہمارے زمانے تب بوتل ہی کم ملتی تھی ٹھنڈی تو بالکل ہی نہیں۔ سلسلہ چلا الیکشن کے دن آئے ہمیں ٹکٹ ملا۔ بینرز پوسٹرز کی بہار آئی۔ ہمارا شہر صالحین کا شہر ہے۔ تو ظاہر ہے کہ کالج میں اکثریت بھی ان کی ہی تھی۔ لیکن ہماری جان پہچان لوگوں کی لپک لپک کے مدد کی عادت چار سال میں ہمیں مقبول کر چکی تھی۔ لیجئے یہ بتانا شاید بھول گئے کہ ہم کھلاڑی بھی تھے ھاکی کے۔۔ “خطروں” کے بھی ،ہم نے دھواں دھار جملہ بازی کی ہمارے گروپ نے محنت کی عظمت کے ذریعے ووٹ کو عزت دو کی پالیسی اپنائی۔

تب جب کہ ہفتہ رہ گیا ہم نے اپنے کیمپ میں دبی دبی سرگوشیاں محسوس کیں۔ جاسوس بٹھائے کہ پتا کریں کیمپ میں بے چینی کیسی، ایک دن کی ریکی کے بعد جو علم ہوا اس پر دل “چھن سے جو ٹوٹا کوئی سپنا” سا ہوا۔ ابا کے اقوال اور جناح صاحب کے خبر نامہ سے پہلے ایک قول کو دھرایا، قومیں مشکل حالات میں گھبرایا نہیں کرتیں، اور دوبارہ ہمت جٹائی۔ الیکشن ہوا معرکہ زبردست رہا ہر طرح کے دباؤ کے باوجود مسلم لیگ کے فورم سے ہی چار ٹکٹ حاصل کئے۔ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی سو ہم ہار گئے۔ لیکن پورے شہر میں معرکے کی دھوم رہی کیونکہ جمیعت پہلی بار کسی الیکشن میں بلا انتخاب منتخب نا ہو سکی، ٹف ٹائم ملا۔

جو وجہ ہار کی بنی وہ یہ کہ ہم بے باک لڑکی ہیں جو ہاکی جیسے غیر شرعی کھیل کھیلتے رہے نا صرف کھیلتے رہے۔۔۔ کپتان بنے جیتے بھی۔ ہر بار جب کسی کپتان کی جیت اور الیکشن کا سنتے ہیں، اپنا دور یاد آتا ہے اور سوچتے ہیں کہ کیا یہ کپتان صرف اس لئے بچ جائے گا اور پبلک اس کے ساتھ ہے کہ یہ مرد ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).