ایک معمولی سی نیکی کسی کی زندگی بدل سکتی ہے


ہندوسانی ادکار شاہ رخ خان کی ماں اسے فلم کے ایک سین میں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ بیٹا دھندہ کوئی بھی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا اس کا احترام کرنا چاہیے ایسے ہی دنیا کا کوئی بھی عمل چھوٹا بڑا نہیں ہوتا آپ کی نیت اور خلوص اہمیت رکھتا ہے کہ آپ کسی کی طرف ہمدری سے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اسے آپ کی مدد سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو آپ نے اپنا حق ادا کر دیا اس کا کچھ بوجھ ہلکا کر دیا۔ یہ بات خاص مقام رکھتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا

سچ کہوں تو دنیا واضع طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ایک طاقتور اور دوسرا کمزور کی صف بندی ہے اور کچھ لوگ تو اس قدر حالات کے جبر کا شکار ہیں کہ یوں لگتا ہے ان کے ساتھ زمانہ سوتیلی ماں کا سلوک کر رہا ہے وہ اس قدر کمزور ہیں کہ خود کو انسان ثابت کرتے کرتے مر جاتے ہیں کہ وہ بھی انسانیت کی برادری کا حصہ ہیں لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔ ارون دھتی رائے انڈیا کی سفید زلفوں والی خوبصورت دیوی سی رائٹر ہیں جنہوں نے ویسے تو نہیں ایک کتاب لکھ ڈالی ”ننھی منی چیزوں کے خدا“ اور اس میں وہ لفظوں کا کون سا قرض ہے جو نہیں ادا کرتی ان کے یہ الفاظ تو میری زندگی کا بڑا اثاثہ ہیں ننھی منی چیزوں کے خدا میں انسانیت کا مقدمہ لڑنے کا ان کا انداز منفرد ہے۔

لکھتی ہیں کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ میں خدائے بزرگ برتر کو ساتویں آسمان سے اتار کر زمین پر لے کر آؤں اور اسے ان ننھی منی چیزوں سے ملاقات کرواؤں جنہیں خدا پیدا کر کے بھول گیا ہے۔ ایسے کھرا سچ لکھنے کے بعد ارون دھتی خاموش ہی رہے تو اس سے کوئی شکوہ نہیں اس لئے کہ ایسے ننھی منی مخلوق اور وہ لوگ ہر صبح شام ہماری نظر کے سامنے آتے ہیں اور ہم طوطا چشم ان کے وجود کو نظر اندازکیے گزر جاتے ہیں اور یقین مانیے انہیں ہماری ضرورت ہوتی ہے ہمارا ایک دلاسہ ایک سہارا انہیں مزید چلنے اور زندگی کی جنگ لڑنے کے قابل بنا سکتا ہے لیکن ہم بلا کے کنجوس لوگ ہیں ہم چھوٹی سی ہمدری بھی کیونکر کریں ہماری بنیا قسم کی سوچ ہے ہم جس کے ساتھ ہمدری کرتے ہیں اس سے پہلے سوالیہ نطروں سے اس سے پوچھتے ہیں کہ اس کا مجھے کیا فائدہ ہو گا۔

کچھ نہیں تو ہم دعا کی سودے بازی کے چکر میں ہوتے ہیں جبکہ یہ انسانیت کی معراج نہیں ہے انسانیت کی معراج صرف یہ ہے کہ آپ دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کہ اس کا ہاتھ تھام لیں اور اسے چند قدم مذید چلنے کا حوصلہ دیں شاید وہ اس کے منزل کی طرف آخری قدم ہوں اس لئے کہ اس بات کا اندازہ مجھے اپنی ذاتی زندگی کے ایک تجربے سے حاصل ہوا۔ ہوا یوں کے گھر والوں نے مجھے شیخ رشید کی طرح انجنیئر بنانے کا فیصلہ کر دیا اور وہ بھی ایسوسیٹ انجنئیر بنانے کا فیصلہ اور میرے لئے یہ تعلیم ایسی تھی جیسے مجھے کسی نے جیل میں ڈال دیا ہے۔

مجھے کچھ بھی نہ سمجھ میں آتا۔ نہ پڑھائی میں من لگتا کلاس کے آخری ڈسکوں پر بیٹھتے میں نے کالج سے فرار ہونے کو ترجیح دی۔ تین سال کا ایسوسیٹ کا ڈپلومہ پانچ سال لگا کر کیا گھر والوں نے بھی خرچہ بند کر دیا۔ اپنی ذات کے اندر ایک بوجھ محسوس کرتا کہ کب یہ پل صراط پار کروں گا اور کسی یونیورسٹی میں کسی اور سبجیکٹ میں ایڈمیشن لوں گا۔ ان ابتلا کے دنوں میں میرے ساتھ ایک واقع ہوا جو مجھے بھلائے نہیں بھولتا۔

میرے پیپر تھے اور میرے پاس تیاری کرنے کے لئے کتاب ہی نہیں تھی کلاس فیلو خود تیاری کر رہے تھے ان سے کیوں کر مانگ سکتا تھا اور کسی سے پیسے بھی نہ مانگ سکتا تھا اور کتاب نہ ملتی تو فیل ہو جاتا اور ایسا فیل کہ پھر شاید کبھی ایجوکیشن کا نام نہ لیتا لیکن میرے لئے کتاب ساری زندگی کا سرمایہ بنی تھی جو میں نہ خرید سکتا تھا۔ میرے ساتھ معجزہ یہ ہوا کہ میرے دوست کے ایک انکل ہم روم میٹس کے فلیٹ میں آئے تھے کہ ان کی تیاری کا اور حال احوال پتہ کر سکیں جانے کیسے انہیں یہ میری مشکل کا اندازہ ہو گیا کہ میرے پاس کتاب بھی نہیں ہے اور دوسرے دن پیپر بھی ہے۔

وہ مارکیٹ گئے میرے لئے پیپر والی کتاب لے آئے مجھے دے کر کہنے لگے بیٹے میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا یہ کتاب لو اور تیاری کرو اور میرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کوشش کرو کہ پاس ہو جاؤ اور انہیں نہ بتانا کہ میں نے تمہیں کتاب لا کردی ہے میں نے پیپر کی تیاری کی اور میں اس مرتبہ پاس ہو گیا۔ آج اس واقعے کو دس سال بیت گئے لیکن میرے لئے دیوار کی تحریر بنی ہے یہ بات کہ اگر وہ فرشتہ صفت انسان مجھ طالب علم کو دلاسہ نہ دیتا اور وہ کتاب لا کر نہ دیتا تو آج میں بھی کسی پراکسی وار کا ایندھن بن کر مارا جاتا اس لئے کہ دوسرا ٹھکانہ وہ ہی تھا۔

دنیا کہ لئے چھوٹی سے بات میری زندگی کے بدلنے کا ساماں بنی آج ساری باتیں تب یاد آئی اور جھوٹا بھرم توڑ کر لکھنے پہ مجبور ہوا کہ میری ایک بہت اچھی سی ملتان کی ماں ہیں صائمہ ملک نام ہے ان کا۔ یوں سمجھیے ہمارے ملک کی ارون دھتی رائے ہیں مجھے بیٹا کہتی ہیں بڑی شفقت کرتی ہیں ہم سب کے فورم پہ میرے ساتھ لکھتی بھی ہیں اور سخت بیمار بھی ہیں اس کے باوجود انسانیت کی خدمت پہ مامور ہیں کہ مزدوروں اور بے سہاروں کی زندگی کا بوجھ ہلکا کر سکیں انہیں کہیں چائے کی پیالی کا خرچہ دے سکیں تاکہ ان کی دیہاڑی کے ملنے والے پانچ سو روپے میں سے پچاس سو روپے کھانے اور چائے کے تو بچ سکیں، کسی کمزور کے لئے دوائی کا انتظام ہو سکے اور جانے کیا کیا چھوٹی چھوٹی باتیں جن میں سے ہر ایک کا تعلق انسانیت کے دکھ اور احساس کے ساتھ جڑا ہے۔

وہ یہ سب معمر خواتین اساتذہ جن میں لیلہ ثاقب اور نغمہ زاہد جنہوں نے اس عظیم کام کی شروعات کی ہے جبکہ وہ خود بھی سخت علیل ہیں یہ سب اپنی اساتذہ کی ٹیم اور طالب علموں کے ساتھ مل کر ملتان میں ہیلپ سکارڈ کے نام سے ایک ادارے کے ذریعے انسانیت کی فلاح کے لئے کام کر رہی ہیں۔ وہاں ملتان میں موجود لوگوں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے اور ان کی آواز بننا چاہیے کہ حکومتوں اور این جی اوز کی طرف دیکھنے سے بہتر ہے ایک قدم انسانیت کی راہ میں اٹھا دیاجائے تو سفر آساں ہو جاتا ہے۔ صائمہ ملک، لیلہ ثاقب اور نغمہ زاہد اور ان کی ٹیم اپنے حصے کا ادا کر رہے ہیں اور ہمیں بھی جہاں موقع ملتا ہے ننھی منی چیزوں کی حمایت میں آواز اٹھانی چاہیے جن کا کوئی بھی سہارا نہیں ہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا

عجیب لوگ ہیں
ہم اہل اعتبار کتنے بدنصیب لوگ ہیں
جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے
جو نام بولنے کا تھا اس ایک نام کو
گلی گلی پکارتے رہے

جو کھیل جیتنے کا تھا اس کھیل کو ہارتے رہے
کسی سے بھی قرض آبرو ادا نہیں ہوا
لہولہان سعاعتوں کا فیصلہ نہیں ہوا
برس گزر گئے ہیں معجزہ نہیں ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).