مارننگ شو میں طالبات کا رقص اور سماج کی اچھل کود


دو عورتوں نے پوری بستی کے مردوں کی اجتماعی غیرت کو چیلنج کیا ہے۔ تو عدالت کب لگ رہی ہے؟ حالانکہ اس کی اب ضرورت نہیں۔ کیونکہ بستی کے سرداروں نے فیصلہ دے دیا ہے کہ ”دونوں خواتین طوائف ہیں“۔

مقدمہ: یونیورسٹی میں پڑھنے والی دو خواتین نے ایک مارننگ شو میں رقص کیا ہے۔
مقدمے کے مدعی، گلگت بلتستان کی تہذیب، ثقافت، اخلاقیات اور مذہب کے خود ساختہ چوکیدار اور ٹھیکیدار ہیں۔

ملزمان۔
ہر سماجی کیس کی طرح اس کیس کی ملزم بلکہ مجرم عورت ہے!
ثقافت کو اس کیس میں مرکزی اور مذہب کو سیکنڈری اہمیت حاصل ہے۔ جبکہ فرقہ اس کیس کا سب سے دلچسپ پہلو ہے اور بنیادی دلائل یہ ہیں۔

1۔ کیونکہ رقص کا جرم خاتون سے سرزد ہوا ہے تو یہ بالواسطہ بستی کے مروجہ قوانین، اخلاقیات اور معیارات کے خلاف ہے۔
2۔ کیونکہ خاتون آخری شے ہے جو بستی کے سب ناخداؤں یا جنگل کے سارے جانوروں کی غیرت کو لمحے میں جھنجھوڑ سکتی ہے اس لیے اسے یوں ان سب کی اجتماعی غیرت کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جیسے جیسے دلائل کی تعداد اور آمد بڑھ رہی ہے ویسے ویسے سماج کے چہرے پہ پڑے دہرے معیارات کے پردے مزید ہٹ رہے ہیں اور اس صنفی غیر متوازن اور زود حس ثقافت کی پرتیں بھی کھل رہی ہیں۔ جنگل کے جانورں اور بستی کے رہائشیوں کی جانب سے پہلے کے کسی بھی کیس سے بھی زیادہ دلچسپ بحث کے پوائنٹس سامنے آرہے ہیں!

مثلاً؛
چونکہ ملزم لڑکیاں ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھتی ہیں جو نسبتاً خواتین کی سماجی آزادیوں پہ زیادہ یقین رکھتا ہے لہذا اس گروہ کے تمام لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ اپنی شناخت گلگت بلتستان سے نہ جوڑیں کیونکہ خاتون کی سماجی اور شخصی آزادی علاقے کی ثقافت اور روایات کے منافی ہے۔

چونکہ اہل علاقہ نے فرقے کے نام پر یہاں ایک دوسرے کے گردن کٹتے اور گھروں، شہروں کو آگ لگتے بھی دیکھا ہے لہذا فرقہ وارانہ مار دھاڑ اور اس کے نقصانات پوائنٹ آف ڈیبیٹ کبھی ہو نہیں سکتے۔ اس پہ بات کرنا شرپسندی ہے۔ کسی خاتون کا مارننگ شو میں کیا جانے والا رقص یا فٹ بال کی ٹیم میں لڑکی کی سیلیکشن، یہ ہیں اصل مسائل۔ جن پہ علما، وکیل، سیاستدان، دانشوران، حکمران، عوام سب کو سر جوڑ کے بیٹھنے کی ضرورت ہے

مذہب، ثقافت، اخلاقیات اور روایات کا مکس اچار ہمیشہ سے روایتی، مذہبی، اخلاقی اور با غیرت جتھوں کے لئے سب سے موثر ہتھیار رہا ہے۔ ان چار عناصر کا مرکب، قبائلی سماج کی ڈائنامکس میں مرد کے لئے خاتون کی ڈیٹرینس کا بہترین سامان ہے۔ قبائلی سماج اور پدرسری نظام نے زیادہ تر انھی چار عناصر کے مرکب سے طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کی حکمت عملی کامیاب بنائی۔ کہیں پہ کسی عنصر کا رول زیادہ ہوگا کہیں کم۔

ذرا تصور کریں کہ ایسے مہذب لوگ جو پانچ عورتوں کو کسی شادی میں گانا سن کے تالیاں بجانے پہ قتل کردیں اور دلیل دیں کہ ان کی ثقافت اور مذہب اس کی اجازت نہیں دیتے۔
ایک کلمہ گو فرقے کی لڑکی کا رشتہ، دوسرے کلمہ گو فرقے کے لڑکے سے کرنے پہ لڑکی کے قتل کو ترجیح دیں اور دلیل یہ دیں کہ ہمارا فرقہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
خود حکمران پہ یہ الزام ہو کہ وہ چھوٹی چھوٹی نوکریوں کے بدلے خواتین کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔

وہی سوسائٹی، وہی لوگ، جہاں سینکڑوں خواتین معاشی اور سماجی نا انصافیوں سے تنگ آکے خود کشی کر چکی ہوں، جہاں غیرت کے نام پہ قتل کرنے والے بھائی کی ماں پہ خاندان دباؤ ڈال کے قاتل کو سزا سے بچا لے تو کیا بستی کے کسی انسان نما شیر یا لومڑی کی عزت پہ حرف آیا؟ کیا ان میں سے کسی کی غیرت نے تھوڑی دیر کے لئے جوش مارا؟

اخلاقیات وہ جو بستی کا خود ساختہ حکمران طے کرے یعنی اس معاملے میں بھی پیمانہ جنسی شناخت کے تابع۔ مرد پیدا ہوا ہے تو کیسی اخلاقیات، کہاں کی اخلاقیات۔ ساری دنیا اپنی ہے جیسے چاہو مسخر کر لو۔ چوری، ڈاکہ، قتل، کوئی برائی تھوڑی ہیں۔ راہ چلتی عورت پہ دو چار جملے کسنا اخلاقیات کامسئلہ تھوڑی ہے۔ کسی خاتون کا کسی بھی قسم کا استحصال بھی حرام ہے جو کسی مرد کی اخلاقی پوزیشن کو مشکوک کر دے۔ مرد ہے بھئی۔

اور عورت ہے تو انسان تھوڑی ہے۔ پراپرٹی ہے جناب۔ شاید کسی زمانے میں صرف باپ، بھائی، چچا، ماموں اور شوہر کی پراپرٹی ہوا کرتی ہوگی مگر آج کل تو سارے جگ کی پراپرٹی ہے۔ ایک قدم طے شدہ حدود سے باہر نکالے گی تو پوری بستی کی عزت، غیرت، سب داؤ پہ۔

ارے دیکھو تو ذرا۔ بھوک، غربت، بیماری، جھالت اور فسادات، یہ سب ”اخلاقیات کی انڈیکس“ پہ کسی سماج کی پوزیشن کو ذرا نقصان نہیں پہنچاتے۔ بس عورت کو ”اپنی حد“ میں رہنا چاہیے۔ جب تک عورت اپنی ”حد“ میں ہے سب ٹھیک ہے الحمدللہ۔ اور ”حد“ بھی وہ جو مرد نےطے کی ہے۔ اس پہ بھی جنسی اجارہ داری۔ عورت نے اگر اپنی مرضی سے اس ”حد“ سے ایک قدم باہر رکھ لیا تو مسجد، مندر، حکمران، رعایا، عالم، جاہل، سب کے پاس اس کا علاج موجود ہے۔

اور ہاں دراصل عورت کا رقص بھی حلال ہو سکتا ہے شرط یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے رقص نہ کرے۔ مگر اب جبکہ فیصلہ آ چکا۔ تم ”بری“ عورت ہو، تم نے اپنی مرضی کی اور جنگل بستی کے مروجہ اصول اور حدود کو تم نے اپنی مرضی سے روند ڈالا، تمہیں یہ بات سمجھنی ہوگی نہ صرف تم بلکہ تمہارا خاندان اور علاقہ سب باعث ننگ ہیں۔ تم جانو اور بستی جانے۔ ہم اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).