افراسیاب خٹک نے مستقبل کا خدشات بھرا نقشہ بیان کر دیا


 

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سینئر سیاست دان افراسیاب خٹک نے اگلے روز لاہور میں انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جن خدشات کا اظہار کیا ، اس طرح کے خدشات کم و بیش دیگر حلقوں کی جانب سے بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔ افرا سیاب خٹک نے ان خدشات کو ایک بیانیہ دے دیا ہے۔ اس بیانیہ کو کسی مخصوص سوچ کے حامل سیاستدان یا مخصوص سیاسی حلقوں کا بیانیہ قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

افرا سیاب خٹک کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں ڈھانچہ جاتی تبدیلی ( اسٹرکچرل چینج ) لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت میں لانا اس منصوبے کا حصہ ہے۔ منصوبے کے تحت 18 ویں آئینی ترمیم کو ختم کر دیا جائے گا ۔ صدارتی نظام نافذ ہو گا ، صوبے کمزور ہوں گے اور مجموعی طور پر پاکستانی سماج سیاسی حوالے سے کمزور ہو جائے گا ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک وقتی انتظام ( اسٹاپ گیپ اریجمنٹ ) ہے ۔ بات بہت آگے تک جائے گی اور ملک میں بالآخر صدارتی نظام رائج ہو گا اور وفاقی اکائیوں کو کمزور کر دیا جائے گا ۔ افراسیاب خٹک نے اور بھی بہت حساس معاملات پر باتیں کی ہیں اور متنبہ کیا ہے کہ اگر منصوبے پر عمل کیا گیا تو ہر محلے میں کسی انتہا پسند کا راج ہو گا اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے ہر محلے میں فوج کی ایک بٹالین لگانا ہو گی ۔

اس تقریب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے ۔ افرا سیاب خٹک کا یہ خطاب سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہو چکا ہے ۔ کچھ لوگ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ افرا سیاب خٹک ایک مخصوص سیاسی سوچ رکھتے ہیں ۔ یہی بات افرا سیاب خٹک ان لوگوں کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ان خدشات کو مسترد کرنے کی بجائے انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس طرح کے خدشات کیوں پیدا ہوئے ۔ صرف افرا سیاب خٹک یہ بات نہیں کہہ رہے بلکہ اس ملک کے موثر سیاسی حلقے اس بات کی تائید کر رہے ہیں ۔ انہی خدشات کی بنیاد پر ملک میں نئی سیاسی صف بندی ہو سکتی ہے۔

قبل ازیں سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ملک میں 18 ویں آئینی ترمیم رول بیک ہو سکتی ہے ۔ افرا سیاب خٹک نے کچھ قوتوں کے اس مبینہ منصوبے کا روڈ میپ بھی بتا دیا ہے ۔ میاں رضا ربانی کی باتوں پر پہلے زیادہ توجہ نہیں دی گئی ، اب ان کی سیاسی جماعت سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی یہ باتیں کر رہی ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہونے جا رہا ہے؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ سے اس سوال کا اثبات میں جواب ملتا ہے ۔ قیام پاکستان کے فورا بعد سے ہی یہ کشمکش شروع ہو گئی تھی ۔ پاکستان کی سیاسی قوتیں قرار داد لاہور کو بنیاد بنا کر ملک میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کرتی رہیں ، جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے ، اس کے برعکس وحدانی طرز حکومت یا صدارتی نظام کی حامی تھیں ۔ 1973 ء تک یہ طے نہیں ہو سکا تھا کہ پاکستان میں کونسا نظام حکومت ہونا چاہئے ۔ پاکستان کے دو لخت ہونے اور حکمران اشرافیہ کے کمزور ہونے کے بعد سیاسی قوتوں نے اتفاق رائے سے 1973 ء کے دستور کی منظوری دی اور یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان ایک وفاق ہے اور اس کی بقاء وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام میں ہے ۔ اس دستور کی منظوری کے بعد کشمکش میں اضافہ ہوا اور 1970 ء سے 2000 ء تک چار عشروں میں یہ کشمکش عروج پر رہی ۔ دو فوجی حکومتوں نے اس آئین میں صدارتی ترامیم کیں اور کسی حد تک پارلیمانی جمہوری نظام کو صدر مملکت کے تابع کر دیا ۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ ان ترامیم کو رول بیک کیا گیا اور 1973 ء کے آئین کی اصل روح کو بحال کیا گیا ۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کشمکش ختم نہیں ہو گی ، وہ میاں رضا ربانی اور افرا سیاب خٹک کی باتوں کو اہمیت دینے لگے ہیں اور ان کے خدشات کی بنیاد پر ملک میں ایک بار پھر نئی سیاسی صف بندی ہو سکتی ہے ۔ ان خدشات کا پاکستان کی سیاسی تاریخ خود جواز میسر کرتی ہے ۔ اب دوسرے فریق کے موقف کا تجزیہ کرنا چاہئے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت خصوصا وزیر اعظم عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی زیادہ تر قیادت کرپٹ ہے اور کرپٹ لوگ احتساب سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرپٹ سیاست دانوں کو ’’ این آر او ‘‘ نہیں دیا جائے گا ۔ اگر بالفرض محال یہ تصور کر لیا جائے کہ مبینہ طور پر کرپٹ سیاست دان احتسان سے بچنے کے لیے سیاسی طور پر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں تو وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا کو 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف بات کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس پر اپوزیشن کے سارے خدشات کی تائید ہو گئی ہے۔ اس حقیقت کو بھی ضرور مدنظررکھنا چاہئے کہ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل ، تحریک لبیک پاکستان، تحریک اللہ اکبر اور دیگر مذہبی اتحادوں اور جماعتوں نے 55 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ سیاسی خلا پیدا ہوگا تو اسے کوئی تو پر کرے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).