اٹھارویں ترمیم، اسرائیلی طیارہ اور روشنی کا سعودی نظریہ اضافت


صدر پاکستان عارف علوی سے لے کر   کابینہ کے متعدد ارکان گزشتہ دو روز  سے ایک ایسی بات کی تردید کرنے پر  مصر ہیں جو ان کے  بقول وقوع پذیر ہی نہیں ہوئی ۔ یعنی ایک اسرائیلی طیارہ کی پاکستان آمد، اس کا دس  گھنٹے تک اسلام  آباد میں قیام  پھر براستہ عمان تل ابیب واپسی۔ ایک اسرائیلی ایڈیٹر اور عالمی ایوی ایشن کے ریکارڈ کے مطابق  امریکہ میں رجسٹرڈ اور اسرائیل کے زیر استعمال ایک طیارہ   گزشتہ  ہفتے کے شروع میں  اسلام آباد آیا تھا۔ اس پرواز کو ان معنوں میں خفیہ رکھنے کے لئے  کہ یہ اسرائیل سے   پاکستان آیا  ہے، اسے پہلے اردن کے دارالحکومت عمان میں لینڈ کروایا گیا اور پھر نئے شیڈول   اور پرواز نمبر کے ساتھ اسلام آباد روانہ کیا گیا۔ واپسی پر بھی یہی روٹ اختیار کیا گیا۔ اس لحاظ سول ایوی ایشن کے ترجمان  کی تردید کے بعد معاملہ ختم ہوجانا چاہئے  تھا کہ کوئی اسرائیلی طیارہ پاکستان نہیں آیا۔ لیکن جس تسلسل اور جس لب و لہجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور اب صدر پاکستان عارف علوی نے اس  ’بے بنیاد‘ خبر  پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا ہے، اس سے چہ میگوئیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا  پر متحرک لوگوں کو بھی اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔

حیرت کی بات تو ہے کہ جو واقعی رونما ہی نہیں ہؤا  اور جس  پرواز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، کابینہ کے ارکان اور صدر مملکت اس پر تبصرہ کرنے پر  مصر ہیں۔  ملک کے ’بے اختیار‘ صدر عارف علوی نے تو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پاکستان  اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ وعدہ ترکی کے دورہ پر روانگی کے وقت کیا ہے جس نے اسرائیل کے قیام کے صرف ایک برس بعد ہی اسے تسلیم کرنے کے بعد سفارتی تعلقات استوار کرلئے تھے۔ دنیا کے 162 ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں اور  اسرائیل کی سخت مخالفت کرنے والے بعض عرب ممالک اس وقت درپردہ  اس یہودی ریاست کے ساتھ پینگیں بڑھانے اور تعلقات استوار کرنے   میں مصروف ہیں۔ کسی کی مخالفت یا حمایت سے نہ اسرائیل کی حیثیت میں فرق پڑا ہے اور نہ ہی فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کا نام لیتا ہے۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران جس اسرائیلی طیارہ کی پاکستان آمد کا واویلا بپا ہے ، اس کے دوران ہی اسرائیل کے وزیر اعظم  بنجامن نیتن یاہو    دو روزہ  پر اومان کے دورہ پر آئے تھے ۔ یہ دورہ خفیہ رکھا گیا تھا اور اسرائیلی وزیر اعظم نے خود  ایک ٹویٹ کے ذریعے بعد میں اس کا اعلان کیا تھا۔ اب  سلطنت آف اومان کے وزیر خارجہ  یوسف بن علاوی نے کہا ہے کہ ’اسرائیل خطے میں ایک ملک ہے اور ہم سبھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’دنیا بھی اس حقیقت سے واقف ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اسی طرح سلوک روا رکھا جائے اور اسرائیل پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘  اومانی وزیر  خارجہ  نے کہا کہ’  اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں ہم لوگ ثالث نہیں ہیں لیکن ہم  فریقین کو  قریب لانے   کے  لئے سہولتیں اور خیالات فراہم کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ ہم اسرائیل اور فلسطین کے متعلق اپنی اس تجویز کے متعلق   پرامید  بھی ہیں‘۔ انہوں نے یہ اعلان بحرین میں سیکورٹی  کی ایک ریجنل  کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کی  انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے آج ہی  ایک ٹویٹ میں اسرائیلی طیارہ کی پاکستان آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کے معاملہ کو ہی موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ ایک ایسے وقت میں اسرائیلی میڈیا نے اسرائیلی طیارہ کی پاکستان آمد کی جعلی خبر کے ذریعے توجہ حاصل کی ہے جب نیتن یاہو کے اومان کے دورہ سے پاکستان کو  سیکورٹی  کا اہم معاملہ درپیش ہے۔ اگر اسرائیل کو اومان میں قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے تو اس کے پاکستان کے لئے سنگین اسٹریجک مضمرات ہوں گے۔ کیوں کہ امریکی فوج  پہلے ہی اومان میں  موجود ہے‘۔ تحریک انصاف کی حکومت نے دو ماہ کی مختصر مدت میں چاہے کوئی اور کارکردگی نہ دکھائی ہو لیکن خوف کی فضا پیدا کرنے، سیاسی مخالفین کو دھمکانے کے علاوہ جس کام میں نام پیدا کیا ہے کہ وہ   غیر متعلقہ معاملات میں وزیروں و مشیروں کے بے سر و پا بیانات کا  سلسلہ ہے۔ وزیر اطلاعات معیشت پر بات کرتے ہیں، وزیر خارجہ امور انصاف پر خیالات کا اظہا  ضروری سمجھتے ہیں اور اب وزیر انسانی حقوق نے دفاعی اور سلامتی امور پر بات کرتے ہوئے   اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ اومان  کو پاکستان کی سلامتی سے ملا  کر ایک دلچسپ اور بے نظیر مثال قائم کی ہے۔  اہل پاکستان کو تو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ اسرائیل کیوں پاکستان کے لئے خطرہ ہے اور جس امریکہ کو ہم خود بڑھ کر اڈے اور فوجی تعاون فراہم کرنے کی طویل تاریخ رکھتے ہیں اس کی اومان میں موجودگی پر ایک وزیر کس منہ سے تبصرہ کررہی ہیں۔

حکومت کو جس معاملہ کو نظر انداز کرنا چاہئے تھا، اس پر لگاتار گفتگو کے ذریعے اسے زندہ رکھنے  کی کوشش کی جارہی ہے۔  اسرائیلی طیارہ کی پاکستان آمد پر سوشل میڈیا  پر چلنے والی گپ کو ایک سنجیدہ معاملہ بنانے کا کارنامہ اسرائیلی اخبار کے مدیر یا دشمنوں نے سرانجام نہیں دیا بلکہ اس کا سہرا تحریک انصاف کے ہونہار رہنما بڑی خوشی سے اپنے ہی سر باند ھ سکتے ہیں۔   یہ پارٹی اب برسر اقتدار بھی  ہے  تو پوچھا جا سکتا  ہے کہ ایک افواہ نما خبر پر اتنی شدت سے غبار  نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے تحریک انصاف کے کسی ذمہ دار لیڈر یا وزیر کو سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے معاون  چئیرمین آصف زرداری کے اس بیان  کی تردید کرنے کی ضرورت   کیوں محسوس نہیں  ہوئی کہ ان پر  آئین کی اٹھارویں ترمیم کی تنسیخ کے لئے تعاون نہ کرنے پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔  اور ان کے ساتھیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔  اپریل 2010 میں اس آئینی ترمیم کے ذریعے صدر سے اسمبلیاں توڑنے  کا اختیار واپس لیا گیا تھا اور صوبوں کو خودمختاری دینے کے لئے اہم فیصلے کئے گئے تھے۔  اس کے علاوہ آئین کی شق 6کو مؤثر بنایا گیا تھا جس کے تحت آئین شکنی کی سخت سزا تجویز کی گئی تھی۔ اب ملک کا سابق صدر اور ایک اہم پارٹی کا مرکزی لیڈر دعویٰ کررہا ہے کہ اس  صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے  اور پارلیمنٹ کو مزید بااختیار کرنے کی کوشش کی بجائے  نیا پاکستان بنانے والی  اکثریتی پارٹی ایک ایسی ترمیم کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے تسلسل اور علاقائی افہام و تفہیم  کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔    ملک  میں حاوی سیاسی ہراس کی کیفیت  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے تبدیل کرنے اور اختیارات کو مرکز میں جمع کرنے کی  افواہیں  تسلسل سے سامنے آتی رہی ہیں۔

آصف  زرداری نے کل لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران  اٹھارویں آئینی ترمیم کے بارے  میں باتیں کرتے ہوئے  ملک میں پہلے سے موجود شبہات کو ایک ٹھوس حقیقت بنادیا ہے۔ لیکن انہوں نے بھی یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ ان پر اس اہم آئینی ترمیم کو غیر مؤثر بنانے کے لئے کس طرف سے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔  اگرچہ انہیں زیادہ صاف لفظوں میں اس بارے میں اظہار خیال کرنا چاہئے تھا تاکہ ان کی باتوں کو اپنے خلاف کرپشن کے الزامات اور مقدمات سے گلو خلاصی کی کوشش نہ کہا جاسکے۔ لیکن حکومت پر بھی  اس حوالہ سے واضح اور دو ٹوک مؤقف سامنے لانے کی  ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے سیاسی ماحول میں یہ وضاحت اہم ہے جب موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر قوی تر ہوتا جارہا ہے کہ وہ  اسٹبلشمنٹ  سے دوستی اور عدلیہ سے خیر سگالی کے نام پر دراصل ملک میں سیاسی خوف اور بنیادی آزادیوں کو محدود کرنے کے عمل میں آلہ کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ میڈیا پر پابندیوں اور بے یقینی کےماحول   نے مایوسی اور بے چینی میں اضافہ کیا ہے جو جمہوریت ہی نہیں ملک کی سلامتی اور معاشی اور سفارتی مفادات کے لئے بھی بے حد نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کو معطل کرکے مرکز کو طاقت ور بنانے کی باتیں پہلے بھی مختلف ذرائع سے سامنے آتی رہی  ہیں لیکن  ’باوثوق‘ ذرائع سے سامنے لائی جانے والی ان خبروں  کو اہمیت دینا اسی طرح مشکل تھا جس طرح ایک اہم اپوزیشن پارٹی کے نائب چئیرمین اور  ملک کے سابق صدر کی باتوں کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہو سکتا۔  لیکن حکومت  کے ارکان تسلسل  سے ایک ایسی خبر پر تبصرے کرنے پر مصر ہیں جنہیں وہ خود ہی جعلی قرار دیتے ہیں۔

پاکستان نے  عرب ملکوں سے دوستی کے نام پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے گریز کیا ہے ۔  ملک کے مذہبی عناصر اور انتہا پسند حلقوں کو  فلسطینی  تنازعہ کو بنیاد بنا کر یہودیوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے  کا حق تفویض کیا  گیاہے۔ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جد و جہد میں مسلسل ناکام ہورہا ہے ۔ جماعت الدعوۃ جیسی عالمی طور سے مشکوک تنظیم اور  دہشت گردوں کی عالمی فہرستوں میں شامل  مذہبی لیڈروں کی پشت پناہی کو حکومت اور  بااختیار حلقے قومی  وقار کا معاملہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگر ان حالات میں مرکز کو مضبوط اور صوبوں کو بے اختیار کرنے کی کوئی سازش کی جارہی ہے تو  ا س کے صرف ملکی حالات اور بین الصوبائی تعلقات پر ہی اثرات مرتب نہیں ہوں گے بلکہ اختیارات کے ارتکازسے  جو خرابیاں پیدا ہوں گی ان میں سلامتی کے معاملات سر فہرست ہوں گے۔ ان کا تعلق ملک  کے چھوٹے صوبوں میں جاری بے چینی سے بھی ہے۔  اور مشرق وسطیٰ میں سامنے آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی پاکستان کو چوکنا رہنے اور اپنے آپشنز واضح کرنے  کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت ایسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے   بااختیار پارلیمنٹ اور اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی محتاج ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت ملک پر برسر اقتدار پارٹی   اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حالات و واقعات سے بے خبر ہو کر نعرے بازی میں مصروف ہے۔

بحرین میں ہونے والی سیکورٹی کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے  کہا ہے کہ ’ہمیں مشرق وسطیٰ میں دو وژن کا سامنا ہے۔ ایک روشنی کا وژن ہے  (سعودی)  اور دوسرا  تاریکی کا وژن ہے  (ایرانی) جو پورے خطے میں فرقہ بندی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ روشنی کی ہمیشہ تاریکی کے خلاف جیت ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اسے کس طرح شکست دیتے ہیں‘۔  پاکستان  کے وزیر اعظم عمران خان حال ہی میں سعودی عرب سے چھے ارب ڈالر کا  امدادی پیکج لے کر آئے ہیں۔ وزیر خارجہ کے بقول سعودی عرب کے قریبی حلیف متحدہ عرب امارات سے بھی اتنی ہی مالیت کا  امدادی پیکج مانگا  جارہا ہے۔

پاکستان کو یہ بتانے کی بجائے کہ اسرائیلی طیارہ اسلام آباد آیا تھا  کہ نہیں یہ واضح کرنا ہے کہ کیا وہ روشنی کی اس تعریف سے متفق ہے جس میں صحافیوں کو قتل اور آزادیوں کو سلب کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali