بے وقعت ورثہ


جرمن ادیب فرانز کافکا کا ناول پڑھ رہا ہوں۔ سوچتا ہوں اسے پڑھنے اور ختم کرنے کے بعد اس کتاب کا کیا کروں؟ یہ جسے میں نے اپنے بچوں کی رزق میں سے پیسے کاٹ کر خریدا ہے۔ پڑھنے اور الماری میں سجا دینے کے بعد میں اسے اپنی بقیہ زندگی میں (اگر ہے بھی تو) کتنی مرتبہ اور اٹھا کے پڑھوں گا؟ شاید کبھی دوبارہ، سہ بارہ پڑھنے کی فرصت ملے۔ یا شاید کبھی اس کے کسی کردار، ماحول، پلاٹ یا منظر کا ذکر کرنا پڑے تو اٹھا کر دیکھنے کی نوبت آئے۔

کیوں کہ کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہر پڑھنے والے کے سامنے ہروقت دھری رہتی ہے۔ کچھ کتابیں ہروقت الماری میں سے تاک جھانک کررہی ہوتی ہیں کہ ہم نے پڑھنے کے ارادے سے ”کیو“ میں رکھا ہوتا ہے۔ یہ کتابیں اپنی خریدی ہوئی بھی ہوتی ہیں دوسروں کی مستعار بھی ہوتی ہیں۔ ان کتابوں کو جن کو فوری پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے مہینہ، چند مہینے اور کبھی سال بھی گزر جاتا ہے۔ آپ بھول بھی جاتے ہیں کہ میں نے کون سی کتابیں پڑھنی تھیں۔

اس دشت کی سیاحی میں آپ کہیں دور نکل چکے ہوتے ہیں۔ پھر فراغت کے کسی لمحے جب آپ اپنی الماری کی صفائی کرتے ہیں اور کتابوں کے ڈھیر اتار کر نئی ترتیب سے لگارہے ہوتے ہیں تب بہت سی کتابیں آپ کے سامنے سے گزرتی ہیں جنہیں آپ ”پلیز ویٹ“ کہہ کر بھول چکے ہوتے ہیں۔ آپ کے دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔ آپ پھر سے ان کتابوں کو علیحدہ کرتے ہیں۔ اپنے شیلف، ٹیبل یا نشست کے آس پاس رکھی الماری میں پھر سے ”کیو“ میں لگا دیتے ہیں۔

ہاں! جب کتابوں کا حال یہ ہو کہ آپ اپنے گھر کی چھوٹی سی لائبریری میں نئی آنے والی کتابوں کے لیے وقت نکال نہیں پارہے۔ کتابوں کی دکانوں پر جاکر جو آپ کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ ہر کتاب کی جانب آپ کا ہاتھ بے اختیار بڑھتا ہے۔ یہ فرانسیسی ادیب ہے۔ وہ جرمن ناول نگار ہے۔ یہاں قدیم اطالوی شاعر جمع ہیں۔ اوپر کے شیلف میں عرب شاعروں کے دیوان اور ان کے ترجمے ہیں۔ یہ! یہاں آپ کے قدموں کے برابر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد مرحوم قطار میں کھڑے ہیں۔

ذرا مڑئیے! یہ سامنے کی رینک میں مختار مسعود، مشاق احمد یوسفی اور خدیجہ مستور ہیں۔ پیچھے شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور شوکت تھانوی کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ فیض، انشائی، احمد ندیم قاسمی۔ پھرتے رہیے کیا کیا سوغات جمع ہیں۔ آپ سب کو دیکھتے گزرتے ہیں اور آخر میں ایک دو کتابیں خرید کر نکل پڑتے ہیں۔ اس نادار بچے کی طرح جو ہوٹل کے گرم گرم چرغے، بروسٹ، بریانی، نہاری اور حلیم کی خوشبو سونگھتے سونگھتے ایک بیس روپے کی روٹی لیتا ہے اور حسرت سے ان سب کو کو دیکھتا نکل جاتا ہے۔ نئی سے نئی کتابیں جمع کرنے اور جلد از جلد انہیں پڑھ کرمزید نئی کتابیں لانے کی خواہش ہمیشہ ہر پڑھنے والی کی ہوتی ہے۔

ایسے میں پھر ایک جرمن ناول نگار کا ناول دوبارہ پڑھنے کی فرصت کب اور کیسے میسر آسکتی ہے؟ پھر میں سوچتا ہے کہ جب اس کتاب کے متعلق مجھے اتنی فرصت نہیں ملنے والی تو پھر میں ساری زندگی اس کا بوجھ اپنے سر پر لے کر کیوں پھرتا ہوں۔ میں نے بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور علماءکو دیکھا ہے جنہوں نے نایاب سے نایاب علمی ذخیرے جمع کیے۔ ساری زندگی اپنی اولاد کی طرح ان کی حفاظت کی۔ بارش، دھوپ اور دھول سے انہیں بچایا۔ وہ ضعیف العمر شخصیات جو اپنی پیرانہ سالی میں اٹھنے کے لیے دوسروں کے سہارے کے محتاج تھیں۔

کتابوں کے معاملے انتہائی حریص پائے گئے۔ کتاب ضائع ہوجائے یہ ان کے تصور میں بھی نہ آتاتھا۔ جنہیں اپنے رہنے کو کھلا مکان میسر نہ تھا اپنی عمر بھی کی اس کمائی کے لیے علیحدہ سے کمرہ، الماریاں اور میزیں بنوارکھی تھیں۔ کمرے کو کسی مہمان خانے کی طرح سجایا گیا تھا۔ روشنی کا خوب انتظام کیا گیا تھا۔ مگر پھر بزرگ انتقال کرگئے۔ کتابیں کباڑیے کی دکان پر غدر کے بعد مغل شہزادیوں کی طرح بازاروں میں رلتی نظر آئیں۔ دھول اور دھوپ کی تمازتوں نے ان کا غازہ رخسار مسخ کر ڈالا۔

کئی سال قبل کی بات ہے۔ میں ان دنوں کراچی میں پڑھ رہا تھا۔ باباجی کے انتقال پرملال کے بعد بچوں نے جانے کتنا عرصہ ان کے ورثے کی کتابیں سنبھالے رکھیں۔ پھر ایک دن باباجی کے از کار رفتہ کپڑے، کاٹ کباڑ اور کتابیں سب لاکر ”بہ نیت ثواب“ ایدھی سینٹر میںجمع کرادیں۔ ایدھی والوں نے کتابوں کا کیا کرنا تھا سو وہ لاکر مدرسے کے طلباءکو دے گئے۔ مجھے جو کتاب ملی وہ عطاءالحق قاسمی صاحب کے بڑے بھائی ضیاءالحق قاسمی مرحوم کی ”جو مجھے یاد آیا“ تھی۔ مرحوم قاسمی صاحب کی کتاب کئی راتیں ایسے سٹور میں گذار چکی تھی جہاں بارشوں کا پانی فیض پہنچانے آتا جاتا ہوگا۔ کتاب کا ٹائٹل اور اندر کے سارے ورق ٹیڑھے میڑھے ہوچکے تھے۔ الجھے ورقوں کو کھولنا بھی مشکل ہورہا تھا۔

میں سوچ رہا ہوں فرانز کافکا کا یہ ناول جو میرے ہاتھوں میں ہے یہ بھی پھر کبھی ایسا ہی بے وقعت سا ورثہ ہوگا۔ یہ کتابیں جنہیں میں سینے سے لگائے پھرتا ہوں کبھی کباڑیے کی دکان پر کوڑی کے مول بکیں گی۔ پھر ایک خیال ذہن میں آتا ہے۔ اگر یہ کتابیں کسی کباڑ کی دکان پر سستے داموں کسی پڑھنے والوں کو مل جائیں تو شاید یہ بھی میرے لیے بہت سستا سودا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).