کیا آپ جانتے ہیں کہ تنہائی، خاموشی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں؟


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ اکیلا رہنے کے باوجود احساسِ تنہائی کا شکار نہیں ہوتے اور بعض لوگ بہت سے لوگوں کے ساتھ رہنے کے باوجود تنہا محسوس کرتے ہیں۔؟ ایک شاعر اور ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں اس سوال پر کافی عرصے سے غور کر رہا ہوں۔

میرا مشاہدہ یہ ہے بہت کم لوگ اپنی مرضی سے اکیلا رہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کہہ سکتے ہیں

 اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں

احساسِ تنہائی کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آپ کتنے لوگوں کے ساتھ رہتے یا ملتے ہیں بلکہ اس حقیقت سے ہے کہ آپ کتنے لوگوں سے دل کی بات کر سکتے ہیں، غم غلط کر سکتے ہیں، مشکل حالات میں مشورہ کر سکتے ہیں۔ غالب کے کسی مشکل شعر پر تبادلہِ خیال کر سکتے ہیں، کسی نئی کتاب پر تبصرہ کر سکتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر سکتے ہیں۔

میرے مرحوم افسانہ نگار دوست سعید انجم ناروے سے کینیڈا فون کر کے مجھے کہا کرتے تھے کہ تم اتنی دور ہو کر بھی دل کے قریب ہو اور اس شہر میں بہت سے لوگ قریب ہو کر بھی بہت دور ہیں۔ کہتے تھے مجھ سے ہر ہفتے بہت سے لوگ ملنے آتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں ملتا تم ملنے نہیں آتے پھر بھی میں دل ہی دل میں تم سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔

ایک دفعہ فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کو ڈنر کی بہت سی دعوتیں آتی ہیں لیکن آپ انکار کر دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ۔ سارتر فرمانے لگے

IN THOSE DINNERS YOU DO NOT EAT YOU GET EATEN UP

احساسِ تنہائی کا تعلق اپنی ذات کو قبول کرنے اور چند دوستوں کی قربت سے ہے۔ جن لوگوں کے چند مخلص دوست ہوتے ہیں وہ اکیلا رہ کر بھی تنہا محسوس نہیں کرتے اور جن کا کوئی مخلص دوست نہیں ہوتا وہ بہت سے لوگوں کے ساتھ رہ کر بھی احساسِ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔

جو لوگ اپنی تنہائی کو دل سے قبول کر لیتے ہیں وہ زندگی کا یہ راز جان لیتے ہیں کہ تنہائی کا خاموشی سے گہرا رشتہ ہے اور جو لوگ تنہائی اور خاموشی کے عادی ہو جاتے ہیں اور انہیں دل کی گہرائیوں سے قبول کر لیتے ہیں وہ زندگی کا یہ راز بھی جان لیتے ہیں کہ تنہائی، خاموشی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں۔

جب ہم ادیبوں اور شاعروں، صوفیوں اور دانشوروں کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ جانکاری ہوتی ہے کہ یہ سب لوگ تنہائی، خاموشی اور دانائی سے دوستی کر لیتے ہیں اور جب انہیں یکسوئی میسر آتی ہے تو وہ کبھی لیبارٹری میں برسوں کی ریاضت کے بعد سائنس کے فارمولے دریافت کرتے ہیں یا برسوں کی محنتِ شاقہ سے ناول تخلیق کرتے ہیں۔ نجانے کتنے ادیبوں اور دانشوروں نے اپنی معرکتہ الارا کتابیں جیل کی کوٹھڑی میں لکھیں جہاں تنہائی، خاموشی اور دانائی نے ان کی بہت مدد کی۔

امریکی ماہرِ نفسیات ہیری سٹاک سالیوان کا کہنا ہے کہ انسانوں کا سب سے بڑا نفسیاتی مسئلہ ڈیپریشن یا انزائٹی نہیں بلکہ احساسِ تنہائی ہے۔ جو لوگ اپنے ساتھ تنہا نہیں رہ سکتے وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ بہت زیادہ کام کر کے WORKOHOLIC بن جاتے ہیں، حد سے زیادہ شراب پی کر ALCOHOLIC بن جاتے ہیں اور یا منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ منشیات کا استعمال بھی بے حس بننے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے لوگ اپنے ساتھ تنہائی میں وقت نہیں گزار سکتے۔

میں نے اپنے کیلنک میں پچھلے تیس برس میں جن نفسیاتی مریضوں اور منشیات کے عادی لوگوں کا علاج کیا ہے اس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی اکثریت اپنی ذات کے بارے میں اچھا خیال نہیں رکھتی۔ وہ اپنے آپ کو پسند نہیں کرتے۔ ان کی شخصیت میں LOW SELF ESTEEM ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔

ہم اپنے کلینک میں ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ ایسے کاموں میں شریک ہوں جن سے ان کے احساسِ کمتری میں کمی آئے اور وہ ایسے کام کریں جن پر انہیں فخر ہو۔ ہم بہت سے لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ VOLUNTARY WORK کر کے خدمتِ خلق کریں تا کہ ان میں عزتِ نفس پیدا ہو اور وہ اپنی شخصیت اور خدمتِ خلق پر فخر کر سکیں۔ جب لوگوں کا احساسِ کمتری ختم ہو جاتا ہے تو وہ ایک صحتمند اور پرسکون زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ احساسِ کمتری کے کم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے احساسِ تنہائی میں بھی کمی آتی ہے۔ پھر وہ اپنے ساتھ تنہائی میں وقت گزار کر خوش ہوتے ہیں اور ان کے لیے چند مخلص دوست بنانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ہم ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ مخلص دوستوں کا ایک حلقہ بنائیں جسے ہم FAMILY OF THE HEART کہتے ہیں۔

ماہرین ِ نفسیات کو بھی دھیرے دھیرے اس نفسیاتی حقیقت کا اندازہ ہو رہا ہے کہ احساسِ تنہائی کی کمی نفسیاتی صحت کے حوالے سے کتنی اہم ہے۔

جوں جوں ہم نفسیاتی صحت کو بہتر سمجھ پا رہے ہیں ہم پر زندگی کا یہ راز منکشف ہو رہا ہے کہ خاموشی، تنہائی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں۔ کالم کے آخر میں میں مجھے اپنے دو اشعار یاد آ رہے ہیں جو میں نے پچیس برس اکیلے اور خوش رہنے کے بعد لکھے تھے۔ وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

 وہ دریا بن کے بہتا تھا تو کتنا شور کرتا تھا

            سمندر میں وہ جب سے آ ملا خاموش رہتا ہے

عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں

            میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail