آئی جی کو وزیر اعظم نہیں ہٹا سکتا تو پھر کون ہٹا سکتا ہے؟


یہ تو سراسر نا انصافی ہے کہ آئی جی وفاقی وزیر تک لیول کے فرد کا ایک دن میں 38 مرتبہ کال کرنے پر بھی فون اٹینڈ نہ کرے یا کال بیک نہ کرے۔ قانونی یا دفتری تو چھوڑیں اخلاقی طور پر بھی یہ درست بات نہیں۔ پاکستان کے موجودہ نظام حکومت میں سرکاری ملازم، وزیراعظم اور اپنے اپنے کھاتے کے وفاقی وزیروں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ آئی جی یا کوئی بھی آفیسر کسی وزیر کا غیر قانونی حکم ماننے کا پابند نہیں، مگر اس کی بات سننے سے ہی انکار کرے، یہ تو وہ اپنے عہدے سے تجاوز کر رہا ہے، اس طرح تو ملک ہی نہیں چلے گا۔ کوئی سیکریٹری کسی وزیر کی کال نہیں سنے گا۔ یہ تو انارکی ہوگی۔

اصل میں بیوروکریسی سالہا سال مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی حکومتوں کے ساتھ کام کرتی رہی ہے یا پھر ان کو فوجی حکومتوں کا ڈنڈا سیدھا رکھتا ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی، نوکر شاہی کے ٹھاٹ کم کر دیے ہیں، ان کے بیرونی دورے ختم کر دیے گئے ہیں، بڑی بڑی بے شمار گاڑیاں چھین لی گئی ہیں، آفیس کے انٹرٹینمنٹ فنڈ کے نام کے لاکھوں روپے بند کر دیے ہیں، ان کی بادشاہی طرز کی نوکری میں رخنہ آیا ہے اس لئے ان سے ہضم نہیں ہو رہا۔ اگر تحریک انصاف نے کرپشن کے خلاف واقعی سنجیدہ قدم اٹھائے تو ان کو چھوٹے سرکاری ملازمین اور بیوروکریسی کی طرف سے کافی رکاوٹیں پیش آئیں گی۔

آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کے معاملے پر ملک بھر میں ایک بحث جاری ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل کو عدالت طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سنا ہے کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی کا تبادلہ کیا گیا، سیکرٹری داخلہ بتائیں کہ آئی جی اسلام آباد کو کیوں ہٹایا، سنا ہے کسی وفاقی وزیر کے بیٹے کا معاملہ ہے، قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس صاحب کے حکم پر آئی جی کو ہٹانے کے احکامات معطل کر دیے گئے ہیں۔

اس معاملے پر وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا آئی جی پولیس اسلام آباد کو کسی دباؤ کی وجہ سے ہٹانے میں کوئی صداقت نہیں بلکہ اس حوالے سے فیصلہ تین ہفتے قبل کر لیا گیا تھا۔ ترجمان نے اپنے ایک بیان میں تردید کی کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر تبدیل کیا گیا ہے وزیراعظم عمران خان کی مصروفیات اور دورہ سعودی عرب کی وجہ سے تبادلے کی سمری منظور ہونے میں تاخیر ہوئی۔ اس معاملے پر حکومت کے ترجمان فواد چودھری کا موقف وزن دار ہے کہ اگر وزیر اعظم آئی جی کو معطل نہیں کر سکتا تو پھر حکومت کس لئے ہے؟

اگر معاملہ فون اٹینڈ نہ کرنے کا بھی ہے تو، جب آئی جی ایک وفاقی وزیر کے 38 مرتبہ فون کرنے پر، ( جی ہاں وفاقی وزیر کا کہنا ہے انہوں نے آئی کو 38 بار کال کی)، بھی جواب نہیں دے رہا، تو وہ ایک پبلک سروس عہدے پر رہنے کے کیسے قابل کیسے ہوا۔ پھر حکومتی کاروبار کیسے چلے گا۔ اس طرح تو کوئی بیوروکریٹ، کسی وزیر کا فون نہیں اٹھائے گا۔

سرکاری افسر کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی کا بھی غیر قانونی حکم نہ مانے مگر حکومت وقت کے خط کا جواب نہ دے، ان سے ملے بھی نہ اور ان کے فون کال پر جواب نہ دے، اس کا اختیار اس کی نوکری اس کو نہیں دیتی۔ سندھ میں حال ہی میں ایسا تجربہ ہو چکا ہے جب آئی جی ای ڈی خواجہ کو پیپلز پارٹی کی حکومت غیر قانونی احکامات دیتی تھی تو وہ نہیں مانتے تھے مگر وہ سندھ حکومت کا ہر جائز حکم مانتے تھے، ان کے فون سنتے تھے، ان کی میٹنگس میں جاتے تھے نہ کہ آئی جی اسلام آباد کی طرح، ایک دن میں 38 فون کال کا جواب نہ دینے پر تو دو گہرے دوستوں میں فرق آ سکتا ہے یہ تو ملازمت سے معطلی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).