پانی کاکوئی نعم البدل نہیں


ہمارے محلے کے ایک صاحب آج پانی کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے علاقے کی پیچھے گلیوں میں پہنچ گئے۔ اچانک انھوں نے ایک جگہ لوگوں کا جم غفیر دیکھاوہ دور ہی سے خود کلامی کرنے لگے کہ چھوڑو میاں کون جائے اس محلے میں تو آئے دن کوئی نہ کوئی فساد برپا رہتا ہے۔ مگر دماغ اچکوے کھانے لگا اور صاحب سے کہا کہ اجی جاکر دیکھتے ہیں آخر ماجرا کیا ہے؟ کہیں کوئی ہاؤسنگ اسکیم، کسی سیاسی پارٹی کے منشور کی کھتہ، کوئی شوشہ، قدرتی گیس کے ذخائر یا پھر پانی کا چشمہ تو برآمد نہیں ہوگیا۔ لو جی جسے ہی صاحب نے پانی و گیس کا نام سنا ان کی چھٹی حس نے فوراً کہا جاؤ۔ اور وہ بڑے میاں اپنے تھکے قدموں، لاغر جسم اور بھوجھل توانائی کے ساتھ ہجوم میں جا پہنچے۔

سامنے موجود منظر نے صاحب کے اوسان خطا کر دیے ایک خدا ترس شخص کے گھر پانی بھر نے والوں کی ایک لمبی قطار لگی تھی جوکہ اس مسیحا کے گھر سے ہوتی ہوئی الٹے ہاتھ والی گلی کے اندر داخل ہوگئی بلکل اسی طرح جس طرح سی این جی سی این جی بند ہونے کی صورت میں چھوٹی بڑی گاڑیاں قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں۔ ان صاحب نے اپنے پانی کے برتن بھی اسی لائن میں لگا دیے اور ساتھ کھڑے لوگوں سے پوچھا۔ بھائی یہ ماجرا کیا ہے یہ علاقہ بھی تو ہمارے علاقے کا حصہ ہے پھر یہاں پانی کیوں آرہا ہے جبکہ عیسائی بستی اور وہاں موجود مسلمان گھرانوں کی 4 گلیاں آج دو سال ہوئے پانی کی بوند بوند کو ترس گئی ہیں؟ جامع مسجد مکی بھی ہمارے علاقے میں ہے اس طرف کی چند گلیوں میں بھی ہفتے میں 2 دن پانی آرہا ہے صرف پانی کی قلت علاقے کے کچھ حصے میں ہی ہونا تھی کیا؟ مگر ساتھ ہی انہیں پانی دیکھ کر جو خوشی ہوئی ان صاحب نے توپانی کو دیکھ کر خوشی سے جھومنا شروع کردیا۔

قریب ہی کھڑے ایک لڑکے نے کہا بابا جی آپ پانی دیکھ کو اس قدر خوش ہورہے ہیں کہ پھولے نہیں سما رہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی کوئی لاٹری نکل گئی ہو یا کوئی حور مل گئی ہو۔ یہ سن کر میاں جی کہنے لگے ارے بیٹا پانی کا کوئی نعم البد ل نہیں ہے پانی ان تمام عارضی اور مصنوئی چیزوں سے زیادہ مقدس اور نایاب ہے۔ ہاہاہاہا ساتھ ہی کھڑے ایک اور شخص نے ہنستے ہوئے کہا اچھا بابا جی پھر تو آپ کو ایک بڑی خوش خبری دو کہ اس حصے میں آج 7 دن سے مسلسل پانی آرہا ہے۔

جونہی صاحب نے یہ سنا وہ سناٹے میں آگئے حیرت سے اس شخص کو دیکھ کر کہنے لگے۔ مجھے تو یہ پانی کی تقسیم مساوی بنیادوں پر ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی کیوں کہ ایک ہی علاقے کے کچھ حصوں میں بھرپور پانی آرہا ہے جبکہ اسی علاقے میں ہم بھی رہتے ہیں۔ اس بات کو سن کر ایک عورت نے کہا بابا جی یہ سب کام ہماری سیاسی پارٹیز اور واپڈا والوں کا ہے جہاں آپ رہتے ہو میں بھی وہی سے آئی ہو پانی بھرنے۔ یہاں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے حصے کی جن گلیوں میں پانی نہیں آرہا وہاں کے علاقہ مکین خود نہیں چاہتے کہ پانی آئے کیوں کہ آگے علاقے والوں نے اپنے حق کے لئے آواز بلند کی واٹر بورڈ کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا جب ہی آج یہ لوگ پانی کی نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں اور میں نے جب جب سب گلی والوں سے کہا کہ آؤ ان کے خلاف آواز اٹھائیں کوئی گھروں سے نہیں نکلا۔

اور پانی ڈالنے والی سوزوکی والے کے الگ نخرے برداشت کرنے پڑتے ہیں کہتا ہے مجھے آگے بھی جانا ہے کل آؤ گا پانی لے کر ابھی پہلے والے آرڈر پر دوں گا پانی۔ 500 روپے دے کر بھی پانی کے لئے اس کے پیچھے ایسے بھاگنا پڑتا ہے کہ وہ فی سبیل اللہ دے کر جا رہا ہے۔ یہ تمام باتیں ایک عورت سن کے بول اٹھی کہ اسی علاقے میں حاجی خوشی کی بلڈنگ اور عیسائی پاڑے والی گلیوں میں با اثر اور سیاسی پاڑٹیز کے لوگوں کے فلٹرز لگے ہوئے ہیں وہ پانی بیچ رہے ہیں جب پانی بیچا جائے گا اور جان بوجھ کر واپڈا کی طرف سے پانی کے وال بندکیے جائیں گے تو بھلا کہاں سے آئے گا پانی۔

جب بھی میں واٹر بورڈ گئی واٹر بورڈ والے جھوٹ بول کرمجھے بھیج دیتے ہیں اماں آجائے گا پانی ابھی پانی کی قلت ہے۔ ارے جب پانی کی قلت ہی ہے تو یہ 7 دن سے جو پانی آرہا ہے وہ کیا کسی جنات بستی کی پانی کی لائن سے آرہا ہے یا کسی جھیل یا آبشار سے؟ یہ سن کر سب ایک ساتھ ہنسنے لگے۔ ہاں یہ سیاسی پارٹیز، واٹر بورڈ اور علاقے کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے اب بھلا کوئی اپنے چلتے ہوئے کاروبار پر کیسے لات مار کر ان علاقہ مکین یا غریبوں کا سوچے گا یہ پورا چین سسٹم کے تحت کام ہورہا ہے۔ یہ الفاظ اس شخص کے تھے جو ان تمام لوگوں کو اپنے گھر سے پانی دے رہا تھا۔

جی ہاں آپ نے صحیح کہا وہ صاحب اب لوگوں سے محو گفتگو ہوئے اور کہا اب دیکھو یہ تبدیلی لانے والی حکومت نے 100 دن مانگے تھے اب عوام کو بے وقوف بنا کر وقت کی مدت بڑھا دی گئی اور چیف جسٹس صاحب نے پانی کی کمی کا بہانہ رچا کر ڈیمز کے نام پر عوام ہی کو لوٹنا درست سمجھا اور تو اور فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ عوام 2 سال تک اور برداشت کر لے پھر سب اچھا ہوگا ڈیمز پانی سب موجود ہوگا۔ کیا ان لوگوں کو نہیں پتہ کہ اللہ پاک نے 3 حصے پر پانی جبکہ ایک پر انسان کی رہائش کا انتظام کیا تو کیسے پانی کی قلت ہو سکتی ہے؟ کراچی کا پانی ملک ریاض کے پاس جاتا ہے اور باقی سندھ حکومت، واٹر بورڈ، سیاسی پارٹیز، واٹر مافیا مل کر پانی کی لنگر بانٹ کرتے ہیں وہی بات ہو گئی کہ پانی کی وجہ سے ہم مر بھی رہے ہیں اور پانی کے لئے ترس بھی رہے ہیں۔

بابا جی وہ کیسے؟ ارے بیٹا سیلاب، بارشوں نے پنجاب کی طرف تباہی مچا رکھی ہے اوپر سے ہندوستان زائد اور سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی طرف کر دیتا ہے اب تم ہی بتاؤ ہم پانی بچاتے نہیں ہیں پھر پانی کی قلت کا رونا روتے ہیں وہاں لوگوں کی فصلیں، گھر، مویشی سب پانی کی نظر ہوگئے اور ہمارے یہاں پانی کی ٹنکیاں اور نلکے پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں پانی بھرنے والے تمام لوگ ایسے ان صاحب کو غور سے سن رہے تھے جسے کسی عالم کی باتوں کو سنا جاتا ہے۔ سب لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھرے اب ان صاحب کی باری آئی وہ بھی جب برتن بھر چکے سب نے اس خدا ترس انسان کا شکریہ ادا کیا سب نے اسے اجتماعی دعا دی اور اپنے اپنے گھروں کو چل دیے مگر اس عزم کے ساتھ کہ:

باتوں سے کوئی بات بنی ہے نہ بنے گی
اٹھتے ہیں مجاہد توبدل جاتی ہیں تقدیریں

خدارا یہ ایک علاقے کا نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور پانی کا کاروبار صرف کراچی میں نہیں پورے پاکستان میں کھلے عام پانی کی کرپشن ہو رہی ہے اور ہم ہیں کہ اس بات کو سچ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ پانی کی قلت کا پروپیگنڈا ایک سازش ہے اور عوام اگر چاہتی ہے کہ ان کی حالت تھر جیسی نہ ہو تو پلیز اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کروورنہ ہم واقعی پانی جیسی نعمت سے محروم ہو جائیں گے خاموش مزاجی کے بندھن کو توڑو ورنہ ہمارے آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
(تحریر: حمیدہ گل محمد۔ مفادات کی جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).