ناقابل اشاعت کالم: اپوزیشن کی سیاست میں جمہوریت مقدم یا ذاتی مفادات؟


پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے گزشتہ دنوں موجودہ حکومت کو سلیکٹ اور نا اہل قرار دے کر تمام جماعتوں کو اس کے خلاف قرارداد لانے اور اسے ہٹانے کا غیر معمولی بیان دے کر ملکی سیاست میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ آصف زرداری نے یہ بھی فرمایا کہ ان کے خلاف زیادہ تر مقدمات نواز شریف کے دور کے ہیں اور ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار نواز شریف ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے درمیان فاصلے کم نہیں ہو سکتے یا آپس میں بات نہیں ہو سکتی۔

اس بیان کے اگلے ہی روز آصف زرداری متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے جہاں تفصیلی مشاورت کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس طلب کرکے حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنانے پہ اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پہ میڈیا نمائندوں کے استفسار پہ جوڑ توڑ کے ماہر آصف زرداری نے واضح کیا کہ اپوزیشن کے سب دوستوں سے مل کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بات کی جا سکتی ہے، ان کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ جمہویت کو بچانا ہے، اسی روز مولانا فضل الرحمان نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق سے بھی ملاقات کی جبکہ احتساب عدالت میں ایک ساتھ پیشی بھگتتے ہوئے دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے مابین بھی ملاقات ہوئی جس میں ماضی کے گلے شکووں کے ساتھ مستقبل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پہ بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اپوزیشن رہنماؤں کی سیاست کا محور کیا واقعی جمہوریت کو بچانا ہے یہ جاننے کے لیے صرف ماضی قریب میں جھانک لیں تو جواب با آسانی مل جائے گا۔ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمان تو حکومت کے خلاف اس وقت سے تلوار نیام سے نکالے ہوئے ہیں جب انہوں نے عام انتخابات کے بعد منعقدہ اپوزیشن جماعتوں کی میاں اسلم کی رہائش گاہ پہ منعقدہ پہلی کانفرنس میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کے حلف نہ اٹھانے کی تجویز دی تھی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے فوری طور پہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے خلاف سڑکوں پہ احتجاج کرنے کا راستہ بھی دکھایا تھا، اس دوران پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی بھی کشتیاں جلانے کی شرط پہ ان کی آواز میں آواز ملانے کے لیے ہمنوا تھے تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پارٹی سطح پہ مشاورت کا عذر پیش کر کے اپوزیشن کو فوری طور پہ انتہائی اقدام کرنے سے روک لیا تھا۔

اس دوران صوبہ سندھ میں حکومت اور مرکز میں 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ نشستیں لے کر صبر شکر کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی۔ اپوزیشن کے اس اجلاس کی میزبانی بھی مولانا فضل الرحمان نے کی تھی تاہم اس اجلاس کی محرک پاکستان مسلم لیگ ن تھی اور آصف زرداری کو مولانا کے ذریعے ہی کانفرنس میں شرکت کا پیغام بھجوایا گیا تھا۔ آصف زرداری کی طرف سے لال جھنڈی دکھانے پر اسی اجلاس میں مولانا فضل الرحمان نے شرکاء کو باور کرا دیا تھا کہ ان کی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری سے ٹیلی فون پہ بات ہوئی ہے اس لیے مفاہمت کے بادشاہ سمجھے جانے والے سے حکومت کے خلاف کسی محاذ آرائی کی توقع نہ رکھی جائے۔

اس اجلاس میں عام انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی اپنی پارٹی مشاورت میں اگرچہ نتائج کو مسترد کیا تاہم چئیرمین بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ ان کے ارکان حلف لیں گے اور پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اپوزیشن بھی کرے گی۔ پیپلز پارٹی کے رویے سے مایوسی کے بعد اگست کے پہلے ہفتے میں سابق اسپیکر سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ پہ دوبارہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کے رہنما شریک ہوگئے، دو دن جاری رہنے والے اس اجلاس میں متفقہ طور پہ طے کیا گیا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی میں حلف اٹھائیں گے۔

اس دوران عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ”پاکستان الائنس فار فری اینڈ فئیر الیکشنز“ بھی تشکیل دیا گیا اور عزم طاہر کیا گیا کہ حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے ا ندر اور باہر احتجاج کیا جائے گا۔ دھاندلی کے خلاف الیکشن کمیشن کے باہر 8 اگست کو احتجاج کرنے کی تاریخ بھی طے کر لی گئی۔ یہ اتفاق بھی ہوا کہ وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں پہ اپوزیشن متفقہ امیدوار نامزد کرے گی۔ وزیر اعظم کا امیدوار مسلم لیگ ن، اسپیکر کا پیپلز پارٹی جبکہ ڈپٹی اسپیکر کا ایم ایم اے دے گی۔

یہاں تک تو اپوزیشن جماعتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی تاہم 8 اکتوبر کو الیکشن کمیشن کے باہر منعقدہ احتجاج میں شہباز شریف کی موسم کی خرابی کے بہانے عدم شرکت اور مولانا فضل الرحمان کی انتہائی سخت تقریر سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے لاتعلقی کے اعلان سے اپوزیشن کا شیرازہ متحد ہونے س ے پہلے ہی بکھر گیا۔ تب تک شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور بھتیجی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو دیکھتے ہوئے مفاہمتی سیاست کے حامی تھے جبکہ سب پہ بھاری کہلائے جانے والے شریک چیئرپرسن ”ڈھیل“ ملنے پہ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔

اپوزیشن جماعتوں کے طے کردہ فارمولے کے مطابق مسلم لیگ ن نے وزارت اعظمی کے لیے شہباز شریف، پیپلز پارٹی نے اسپیکر کے لیے سید خورشید شاہ جبکہ ایم ایم اے نے مولانا اسعد محمود کو نامزد کر دیا۔ ۔ مفاد پرستی کے اسی کھیل کے دوران اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن ہو ئے تو معاہدے کے مطابق مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے پیپلز پارٹی کے ا میدوار کو ووٹ دیے تاہم وزیر اعظم کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے، پیپلز پارٹی ارکان نے ایوان میں موجود ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔

صرف یہی نہیں اس کے بعد صدر مملکت کے الیکشن میں بھی آصف زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دینے کی بجائے اپنی کھال بچانے کو ترجیح دی اور یک طرفہ طور پہ اعتزاز احسن کا نام صدارتی امیدوار کے لیے دے کر ڈاکٹرعارف علوی کو واک اوور دے دیا۔ اس دوران اپوزیشن جماعتوں کے مری میں منعقدہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان سمیت ن لیگ کے قائدین کے سامنے دبے لفظوں میں اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا۔

آصف زرداری نے تب مولانا فضل الرحمان سے نہ اپنی دیرینہ رفاقت کا خیال رکھا اور نہ ہی ان کی کسی درخواست کو درخور اعتنا جانا بلکہ انہوں نے اور قمر زمان قائرہ جیسے ان کے مرکزی رہنماؤں نے مولانا کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تب پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے زیر حراست ہونے اور کڑے وقت کے باعث مولانا فضل الرحمان کے ذریعے ہی آصف زرداری کی حمایت طلب کرنے کا پیغام بھیجا تھا تاہم زرداری صاحب نے آنکھیں ماتھے پہ رکھ چھوڑی تھیں، ن لیگ کے ایک سینئر رہنما نے راقم کوبتایا کہ آصف زرداری نے مولانا کو صاف الفاظ میں کہا تھا کہ یہ ( مسلم لیگ ن والے ) تو پھنسے ہوئے ہیں میں ان کی وجہ سے کیوں مصیبت مول لوں چنانچہ اس کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کا احتجاج ہو یا ایوان سے واک آؤٹ، پیپلز پارٹی کے ارکان خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔

اور تو اور جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بھی نیب نے حراست میں لے لیا اور مسلم لیگ ن نے ریکوزیشن پہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب نہ کرنے پہ پارلیمنٹ سے باہر مشترکہ علامتی احتجاجی اجلاس منعقد کیا تو یقین دہانی کرانے کے باوجود پیپلز پارٹی کے ا رکان نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اب نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ ضمانت پہ باہر ہیں جبکہ آصف زرداری پہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں ”اندر“ ہونے کا خوف طاری ہے۔ اب ہاتھ پاؤں مارنے کی باری آصف زرداری کی ہے اور دوری کو قربت میں بدلنے کے لیے کردار ایک بار پھر مولانا کو ہی سونپا گیا ہے جو خود بھی طویل عرصے بعد پارلیمانی سیاست اور اقتدار سے باہر ہونے کے باعث ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی یہ سیاست کیا واقعی جمہوریت بچانے کے لیے ہے یا مطمع نظر صرف ذاتی مفادات ہیں، اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).