سفید فام فوجی کا ہاتھ تھام کر حکمران بننے والی رقاصہ


چار فٹ کی وہ عام سی ناچنے والی عورت جس نے میدان سیاست میں تہلکہ مچا کر ایک ہندوستانی ریاست کی حکمرانی حاصل کرلی تھی

 

ماضی میں متحدہ ہندوستان کی کئی ریاستوں پر خواتین نے بھی حکمرانی کی ہے لیکن سردھنا کی بیگم سمرو ان سے الگ مزاج اور حیثیت کی مالک تھیں ۔نہ انکے پاس شاہی حسب نسب نہ شاہانہ جلال تھا لیکن قسمت نے یاوری کی اوروہ کم سنی میں ہی کوٹھے پر ناچتے ناچتے ایک دن ریاست سردھنا کی مالک بن بیٹھیں ۔ بیگم سمرو کا اصل نام فرزانہ زیب النسا تھا ، 1745ءمیں ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں لیکن والد کے مرنے پر ان کی والدہ انہیں لیکر دلی کے بازار حسن میں لے گئی اور وہاں ناچ گانے کی تربیت حاصل کرکے اپنی بیٹی کو کوٹھے پر بیٹھا دیا ۔بیگم سمرو کی والدہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں سے تعلقات بڑھائے تو اس کی بیٹی کوایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں کی محفلوں میں ناچنے گانے کا موقع مل گیا۔

اس وقت بیگم سمرو کی عمر چودہ سال تھی جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسروالڈر رینہارٹ سومرے کوٹھے پر آیا اور فرزانہ زیب النسا کو بیاہ کر لے گیا ۔اسکی قسمت ہی بدل گئی ۔سومرے میرٹھ میں عیسایت کی تبلیغ کرنے والے مشنریوں کے امور پر فائز تھا ۔محقق بتاتے ہیں کہ سومرے جہاں بھی جاتا بیگم سمرو اسکے ہمراہ ہوتیں اور اسکے سارے انتظامی ،سازشی اور سیاسی معاملات میں اسکی مدد کرتی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیگم سمرو کو اقتدار و اختیارات کے انتظامات کا تجربہ ہوگیا ۔ سومرے نے ایک بڑی فوج تیار کرکے سردھنا کی ریاست کا انتظام بھی سنبھال لیا تھا ۔یہ بنیادی طور پر ایک وسیع جاگیر تھی مگر سومرے نے اسکو ریاست کے طور پر چلانا شروع کیا تھا ۔اسکی موت کے بعد بیگم سمرو نے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اورفوج کو نئے سرے سے منظم کرکے خود اسکی کمان سنبھال لی۔ چند سال بعد جب ایک اور انگریز افسر تبلیغی مشن پر میرٹھ آیا تو افواہ پھیل گئی کہ بیگم سمرو نے اس سے شادی کرلی ہے ۔بیگم سمرو نے سیاسی طور پر خود کو مضبوط کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے تو ایسٹ انڈیا کمپنی اسکے خلاف ہوگئی جس پربیگم سمرو نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی ۔اس بغاوت پراس سے ریاست چھین لی گئی لیکن بعد ازاں میرٹھ اور سردھنہ میں انگریزوں کے خلاف نفرت بڑھنے لگی تو انگریزوں نے بیگم سمرو کو دوبارہ ریاست کا مختار بنا دیا ۔

1803 میں بیگم سمرو کی مرھٹوں سے جنگ ہوئی لیکن بیگم نے گھوڑے پر بیٹھ کر جب خود اپنے دستوں کی کمان سنبھالی تو مرھٹوں کو شکست ہوگئی جس کے بعد بیگم سمرو نے ان کے علاقے پر بھی قبضہ کرلیا ۔

بیگم سمرو کی شخصیت پر بھارت میں ایک فلم بھی بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ، جس میں اسکی انگریزوں کے خلاف بغاوت کو خاص طور پرموضوع بنایا جائے گا ۔بیگم سمرو نے اپنی ریاست میں جو کہ اب میرٹھ کی ایک تحصیل بن کر رہ گئی ہے وہاں چرچ اور دیگر عمارتوں کا جال پھیلا دیا تھا ۔بیگم سمرو کے بارے میں نامور صحافی رضاعلی عابدی نے اپنے کالم میں بڑے خوبصورت انداز میں کئی ایسی باتیں بھی بیان کی تھیںجس سے بیگم سمرو کا حیران کن روپ کھل کر سامنے آتا ہے ۔انہوں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ”لوگ اب فرزانہ عرف زیب النساءکو بھی نہیں جانتے ہوں گے جو ایک سفیدفام فوجی کا ہاتھ تھام کر سردھنا آئی اور فاقوں اور گمنامی سے جو نکلی تو یورپی طرز کی نہایت منظّم اوراعلیٰ فوج کی کمان سنبھال کر گنگا اور جمنا کے درمیان ایک بڑے زرخیزعلاقے کی حکمراں بن گئی ، جس کی سپاہ دلّی کے شاہی خاندان کی حفاظت کے لئے ڈھال ثابت ہوئی اور جب انگریز حکمراں بنے تو انہیں بھی اسی خاتون کی مدد لینی پڑی۔ یہ تھی بیگم سمرو جس کی زندگی کی کہانی کہی جائے تو فرضی لگے لیکن جو حقیقت کی شکل میں آج پھر ہمارا موضوع بن رہی ہے۔

بیگم کا قصہ یہ ہے کہ اس کا نام فرزانہ تھا اور میرٹھ کے قریب کتیانہ میں اپنے باپ اور ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ بوٹا ساقد تھا، کشمیری ناک نقشہ تھا اور گوری رنگت دیکھنے میں بھلی لگتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ باپ مر گئے اور سوتیلے بیٹے نے ماں کا جینا حرام کردیا۔ حالات اتنے بگڑے کہ ایک روز ماں نے بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور دہلی چلی گئی۔ وہاں شہر کی کسی سرکردہ طوائف کے ہتھے چڑھ گئی اورجلد ہی کوٹھے کی رونق بن گئی۔ اس کے رقص کی شہرت سن کر ایک یورپین فوجی اس کودیکھنے پہنچا۔ یہ کوئی عام فوجی نہیں بلکہ کرائے کا فوجی تھا۔ ان دنوں جب مغل سلطنت کے قدم لڑکھڑا رہے تھے اور ہندوستان کے تخت پر قبضے کے بے شمار دعوے دار اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، یورپ سے وہ نئے پرانے فوجی جن کے پاس کچھ کرنے دھرنے کو نہیں تھا ، ہندوستان کی طرف چل پڑے۔ وہ کچھ اس طرح کی آواز لگاتے ہوں گے”جنگ کروالو“۔امیروں ، نوابوں ، رئیسوں، مرہٹوں،سکھوں اور یہاں تک کہ غیر ملکیوں نے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔فرزانہ کے کوٹھے پر جو مہم جو پہنچا وہ لکسمبرگ سے آیا تھا۔ اس کا نام رائن ہارٹ تھا، لوگ اسے سومبر بھی کہتے تھے۔ یہ نام بگڑ کر سمرو بن گیا۔ اور پھر مقدر نے اپنا کام دکھایا اور دلّی کے کوٹھے کی نوجوان رقاصہ بیگم سمرو بن بیٹھی۔ سمرو اس وقت پینتالیس برس کا اور فرزانہ چودہ سال کی تھی۔ سمرو نے طاقت ور فوج کھڑی کرلی تھی جس میں ہندوستانیوں کے علاوہ یورپین بھی تھے۔ جو بے حد منظّم، بہت تربیت یافتہ اور اس وقت کی جدید توپوں اور بندوقوں سے لیس تھی۔وہ اپنی سپاہ ساتھ لئے لکھنو ، بریلی، آگرہ ، دیگ اور بھرت پور سے ہوتا ہواواپس اسی گنگا اور جمنا کے درمیان دوابے میں پہنچا۔ یہ زمانہ جو ڑ توڑ اور سازشوں کا تھا۔ ایسے میں فرزانہ کے مشوروں نے اور اس کی ذہانت نے سمرو کو حیران کردیا۔کل ساڑھے چار فٹ قد تھا۔ سر پر صافہ باندھتی تھی۔ کبھی گھوڑے پر اور اکثر ڈولے میں بیٹھ کر میدان جنگ میں اپنی فوجوں کو حکم دیا کرتی تھی۔ لوگ کہنے لگے تھے کہ یہ کوئی چڑیل ہے جو دشمن کی طرف اپنی اوڑھنی پھینکتی ہے جس کے ساتھ ہی دشمن فنا ہو جاتا تھا۔ سمرو کی موت کے بعدجاگیر اس کے نام لکھ دی گئی جس کی سالانہ آمدنی اس وقت کے نوّے ہزار پاو¿نڈ کے برابر تھی۔ چالیس سال کی عمر میں وہ ایک پادری کے ہاتھوں فرزانہ زیب النسا سے جوآنا نوبلس ہو گئی۔ اسی دوران بیگم اپنی ہی فوج کے ایک فرانسیسی افسر کو دل دے بیٹھی۔ انہوں نے چھپ کر محبت کی اور چوری چھپے شادی کرلی۔ فوج اسے اپنے سابق آقا کے ساتھ بے وفائی سمجھی اور اس نے ناراض ہوکر بغاوت کردی۔بات اتنی بڑھی کہ ایک رات دونوں کو فرار ہونا پڑا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا ، خاتون پالکی میں بیٹھی تھیں۔ ادھر فوجیوں نے ان کا پیچھا شروع کردیا۔فرانسیسی افسر نے کہا کہ مجھے ان کے ہاتھوں قیدی بننا منظور نہیں، آوہم دونوں خود کو مارلیں۔ بیگم نے خود کو چھرا گھونپا جو پسلیوں میں گڑ کر رہ گیاالبتہ افسر نے اپنی کنپٹی پر پستول رکھ کر گولی چلادی۔وہ وہیں مر گیا اور باغیوں نے اس کی لاش وہیں چھوڑ دی البتہ بیگم جو صرف گھائل ہوئی تھی، بچ گئی۔ لیکن فوجیوں نے اسے گرفتار کرکے توپ سے باندھ دیا اور کھلے آسمان کے نیچے مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔فوج میں کچھ یورپین افسر تھے جن کا دل پگھلا۔خاص طور پر آئرلینڈ کے جارج طامس نے جسے لوگ جہازی صاحب کہا کرتے تھے تلخیاں بھلا کرنہ صرف بیگم کو بچا لیا بلکہ سردھنا کے تخت پر دوبارہ بٹھا دیا۔بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور پھر کبھی محبت نہیں کی۔ اس نے تراسی برس کی عمر پائی۔اس واقعہ کے بعد اسے اپنا رعب اور دبدبہ بحال کرنا تھا۔ پھر ایک عجب واقعہ ہوا۔اس کی دو ملازماوں نے آگرہ میں بیگم کے مکان کو آگ لگا دی اور ان دو فوجیوں کے ساتھ بھاگ گئیں جو مکان کی حفاظت پر لگائے گئے تھے۔ آگ بڑی مشکل سے بجھی لیکن بیگم کا سارا قیمتی سامان خاک ہو گیا۔ شہر میں تلاشی شروع ہوگئی اور لڑکیاں بازار میں چھپی ہوئی مل گئیں۔فوراً ہی عدالت بیٹھ گئی۔ بیگم نے حکم دیا کہ انہیں اس وقت تک درّے مارے جائیں جب تک یہ بے سدھ نہ ہوجائیں۔ اسی دوران بیگم کے خیمے کے آگے گڑھا کھودا گیا، لڑکیاں اس میں زندہ دفن کردی گئیں۔یہ واقعہ شام کو ہوا۔ اس رات بیگم کا بستر اسی گڑھے کے اوپر لگایا گیا اور خاتون صبح تک اسی پر سوئیں۔اس سے بھی گہری نیند وہ ستائیس جنوری سنہ اٹھارہ سو چھتیس کو صبح ساڑھے چھ بجے سوئیں اور پھر کبھی نہ اٹھیں۔بیگم سمروبے پناہ دولت چھوڑ کر مریں جس کے بے شمار دعوے دارنکل آئے تھے.بھارت میں بیگم سمرو کو غیر معمولی کردار سمجھا جاتا ہے ،آج بھی سردھنہ کے کلیساوں میں اسکا نام احترام سے لیا جاتا ہے تاہم اسکی چھوڑی جائیدادیں ابھی تک وجہ فساد بنی ہوئی ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).