بیاد ہم جماعت مولوی اسمٰعیل، ماہر امراض قلب


ان دنوں داڑھی رکھنے کا رواج عام نہیں تھا جیسے ان دنوں ہے۔ داڑھی وہی رکھتے تھے جو مذہبی اعمال کی جانب زیادہ راغب ہوا کرتے تھے۔ ایسے افراد کو ویسے ہی مولوی کہہ کر پکارا جانے لگتا تھا۔ جس نے داڑھی نہ رکھی ہوتی چاہے وہ مدرسہ نظامیہ کی تکمیل ہی کیوں نہ کیے ہوتا اسے مولوی نہیں کہتے تھے۔ اس لیے نشتر میڈیکل کالج میں ہمارا کلاس فیلو میر جمیل مولوی کے نام سے موسوم نہیں ہوا تھا۔ یہ تو مجھے کہیں 2015 میں لندن میں میر جمیل کے گھر مہمان ہو کر معلوم ہوا، جہاں وہ سرجن کے علاوہ مسجد کا امام بھی ہے، عربی زبان میں چند کتابوں کا مصنف بھی بن چکا ہے اور اب داڑھی والا بھی ہے۔ ہر پیر اور ہر جمعرات کو روزہ بھی باقاعدہ رکھتا ہے۔

یوں ہماری نشتر میڈیکل کالج کی کلاس میں شروع سے چار افراد مولوی تھے۔ جھنگ سے مولوی اسمٰعیل، ہڑپہ ساہیوال سے مولوی عبدالحق، چشتیاں سے مولوی شفیق اور ملتان کا مولوی سلیم۔ مولوی عبدالحق بس نماز پڑھتا تھا اور بہت پڑھاکو ہوا کرتا تھا۔ سنا ہے آج کل وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں پیر بھی ہے۔ شفیق ویسے ہی شفیق تھا اور تبلیغی جماعت سے وابستہ۔ سلیم کو مذہبی بحث کرنے کا شوق ہوتا تھا۔ بھائی شفیق کے علاوہ سب ننگے سر کلاس میں آیا کرتے تھے البتہ شفیق کے سر پر شروع سے جناح کیپ ہوتی تھی۔ سب سے کم مذہبی اگر کوئی تھا تو مولوی اسمٰعیل تھا۔ ہنسوڑ، پھکڑ باز اور بہت سوں کا کھلا ڈلا دوست۔

ان چاروں کے علاوہ تیسرے چوتھے سال میں دو اور نوجوانوں نے بھی داڑھیاں بڑھائی تھیں۔ ایک افتخار حمید مظہر تھا، جو بہت موزوں طبیعت فی البدیہہ شعر کہہ دینے والا، کسی کا بھی ٹھٹھہ اڑا دینے والا نوجوان تھا مگر داڑھی رکھ کے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا تھا اور اس نے بھی جناح کیپ پہننا شروع کر دی تھی۔ ڈاکٹر افتخار حمید مظہر عرصہ ہوا ٹریفک کے ایک حادثے میں فوت ہو گیا تھا۔ دوسرا پرویز نام کا خوبصورت بلند قامت نوجوان تھا، جو مشرقی پاکستان سے منتقل ہو کر جب ہمارا ہم جماعت ہوا تو اپنی ہلکی سنہری داڑھی، گھنے بالوں اور جینز میں ہالی وڈ کی فلموں کے ہیرو جیسا لگتا تھا۔

پھر اس پر نہ جانے کیا افتاد ٹوٹی یا اللہ کی رحمت ہوئی کہ اس نے اپنا نام بدل کر بلال بن یوسف رکھ لیا۔ سر پر بڑا سا پگڑ باندھنے لگا اور شلوار قمیص پہننے پر جم کے رہ گیا۔ وہ فوج کا مایہ ناز ہارٹ سرجن بنا۔ اب بھی داڑھی بے تحاشا لمبی رکھے ہوئے ہے مگر ریٹائر بریگیڈیر صاحب اب سر کھلا رکھتے ہیں۔ بوقت ضرورت پینٹ بھی پہنتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ وقت انگلینڈ میں بسر ہوتا ہے۔ گاف کھیلتے ہیں۔ اس کی دیدہ زیب مسکراہٹ اور خلیق گفتگو جیسے تھی ویسے ہی قائم ہے۔

مولوی اسمٰعیل کی عادت تھی کہ وہ بیٹھے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور انگشت شہادت سے اپنی داڑھی کے بالوں کو بل دیتا رہتا تھا۔ ہمارا ایک اور کلاس فیلو ہوتا تھا برکت علی۔ بچوں کی طرح چھوٹا سا، چھوٹا قد، بہت پڑھنے والا اور ہر وقت مسکراتا ہوا۔ ہمارے ہائجین کے ایک پروفیسر ہوتے تھے عبدالقادر صاحب، جنہیں ان کی غیر موجودگی میں طلباء قادرو کہا کرتے تھے۔ ان کی کلاس میں لوگ بہت مذاق کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ ایک ایک کرکے کئی طلباء کو نکال باہر کیا کرتے تھے۔

مولوی اسمٰعیل اور برکت کو تو بلاوجہ اکثر نکال دیتے تھے۔ اسمٰعیل کو بے توجہ جان کر کہ وہ داڑھی سے کھیلتا تھا۔ بلکہ ایک بار تو اس کے بارے میں تاریخی فقرہ بھی کہا تھا کہ ”آ جاتے ہیں داڑھی لگا کر“۔ بیچارے برکت کو اس کے چہرے پر جمی مسکان کے سبب کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر ہنس رہا ہے۔ ڈاکٹر برکت علی آٹھ دس سال پہلے دل کے دورے کے سبب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔

پروفیسر موصوف نے ایک دو دفعہ مجھے بھی کلاس سے نکال دیا تھا۔ بلکہ ایک بار جب نکالے گئے ہم دس بارہ افراد کمرہ جماعت سے باہر جمع تھے تو اخلاق نے جو ملتان کے کارڈیئک سنٹر کے انچارج کے طور پر ریٹائر ہوا ہے تجویز دی کہ پتلونوں کے پیچھے سے قمیصیں نکال کر پلو پکڑ کے ریل بنائی جائے جو چھک چھک کرتے ایک طرف کے دروازے سے داخل ہو اور پروفیسر کے ڈائس اور طلباء کے بنچوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی اس طرف کے دوسرے دروازے سے نکل جائے۔

سب نے اتفاق کر لیا۔ اب چیلنج یہ تھا کہ انجن کون بنے گا۔ میں نے ہمیشہ کی طرح کہا کہ میں بنوں گا۔ ریل بن گئی۔ میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو اکڑا کے اس کے بیچ منہ کی سیٹی رکھے کوک چھک چھک کرتا ہوا جب عین پروفیسر کے سامنے پہنچا تو مجھے گمان ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ پروفیسر کے تحیر کے علاوہ طلباء کے چہروں پر بھی ہنسی کی بجائے حیرت تھی۔ میں نے گردن گھما کے جو اپنے پیچھے دیکھا تو کوئی ڈبہ نہ تھا ہی نہیں بس انجن تھا۔ میں پلٹ کر دوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔ شرارت اخلاق کی تھی، وہ تھا ہی شرارتی مگر سب سے زیادہ مولوی اسمٰعیل ہنس رہا تھا اور ہنس ہنس کے پیٹ پکڑے ہوئے تھا۔

چار پانچ روز پہلے مجھے بلیک پول انگلینڈ سے اپنے ہم جماعت سرجن قلندر خان کا میسیج ملا کہ مولوی اسمٰعیل فوت ہو گیا ہے۔ اس نے یہ خبر بریگیڈیر ڈاکٹر بلال بن یوسف کی وال پر پوسٹ میں پڑھی ہے۔ اچھی بری خبریں عموماً ہمارا ہم جماعت پروفیسر ڈاکٹر مقصود بغدادی ہمیں ای میل کر دیتا ہے۔ ایسی کوئی ای میل نہیں تھی۔ میں نے سوچا کسی طرح کنفرم کر لیا جائے چنانچہ کل رات لیٍفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر اقبال قاضی ماہر چشم سے میسیج پر پوچھا۔ اس نے فوراً فون کرکے الٹا مجھ سے افسوس کرنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا بھائی مجھے معلوم نہیں، قلندر نے اطلاع دی ہے، تم کہیں سے کنفرم کرو۔ آج صبح اس نے میسیج کیا کہ مولوی اسمٰعیل کی بیوی سے بات ہوئی ہے وہ 25 اکتوبر کو دل کا دورہ پڑنے سے ہمیں چھوڑ گیا ہے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

ایک عرصہ ہوا کہ مولوی اسمٰعیل سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ پانچ برس قبل میں راولپنڈی میں تھا۔ ہمارے ہم جماعت میجر جنرل ڈاکٹر محمد اسلم تب شفا میڈیکل کالج کے پرنسپل تھے جو بعد میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وی سی ہوئے اور اب غالباً پھر سے شفا کمپلکس سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسلم ہم سب کو جوڑے رکھتے ہیں۔ جب بھی باہر سے کوئی ہم جماعت پہنچتا ہے تو وہ ایک دعوت پر شہر میں موجود ہم جماعت دوستوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔

ایسے ہی ہم غالباً آرٹلری میس میں جمع ہوئے۔ سب ہم جماعت پہچانے جا رہے تھے مگر ایک داڑھی والا نہیں۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے پہچانا؟ میں نے تھوڑا سا تذبذب کیا تو اس نے سب کے سامنے اچھی بھلی چپت میرے چہرے پر جما کے ایک بے ضرر سی گالی دی اور کہا ”توں مولوی اسمٰعیل نوں بھل گیا ایں“۔ میں جو چپت کھانے پر بھنایا ہوا تھا اٹھ کر اس سے لپٹ گیا۔

وہ تب پمز میں کارڈیالوجسٹ تھا۔ باتوں باتوں میں میں نے اپنے دل کی دھڑکنوں میں بے ترتیبی کا تذکرہ کیا تو اس نے پیشکش کی کہ کل میرے پاس پہنچ جاؤ، سارا چیک کر دیاں گے۔ میں اگلے دن اپنے جگری دوست ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل فرقان شیخ کے ساتھ، جس کے ہاں میں مقیم تھا، پمز پہنچا تو مولوی اسمٰعیل نے میرا سٹریس ٹیسٹ اپنی نگرانی میں کروایا۔ بعد میں ہنس کے کہنے لگا کہ ہم اتنے تیز ٹریڈ مل پر اتنی دیر کسی کو نہیں رکھتے مگر تجھے اس لیے رکھا تاکہ ”صحیح“ ٹیسٹ ہو اور پھر عادت کے مطابق زور زور سے ہنسنے لگا۔

میں نے گلہ کیا کہ یار مولوی اگر مجھے دورہ پڑ جاتا تو۔ کہنے لگا جے بچنا سی تے بچ جاندا اور پھر ہنسنے لگا۔ ریزلٹس پر تین کارڈیالوجسٹ سر جوڑ کر بیٹھے اور اخذ کیا کہ مجھے آئی ایچ ڈی ہے یعنی دل کو مناسب آکسیجن نہ پہنچنے کا مرض ہے۔ خیر اس تشخیص کو ماسکو میں ڈاکٹروں نے مناسب سٹریس ٹیسٹ لے کر یکسر رد کر دیا تھا۔

مگر میرا ہم جماعت مولوی اسمٰعیل ماہر امراض قلب جو لوگوں کو دل کے دورے پڑنے سے بچاتا تھا خود دل کے دورے سے جانبر نہ ہو پایا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے اور درجات بلند کرے، آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).