ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے


ہماری لکھائی بس دل کی کہی ہوتی ہے۔ اس لئے لکھ لکھ کر مٹانا نہیں پڑتا۔ لیکن آج تین دفعہ کاغذ کا گولہ بنا کر پھینکا ہے۔ اگر اس بار بھی نہ لکھا گیا تو ہم ہتھیار ڈال دیں گے اور اپنی بیمار گردن کو سہلانے میں جٹ جائیں گے۔ بل پڑ گیا ہے نا۔ بہت تکلیف ہے۔ داہنی طرف چہرہ موڑتے ہی چیخ نکل جاتی ہے۔ ہم سے نہ ہو پائے گا۔ جان ہتھیلی پر بھی رکھو اور تکلیف بھی سہو؟ اس قدر زیاں کاری ہمارے بس سے باہر ہے۔

آج کا یہ کالم کس کے نام ہے ہم نہیں جانتے۔ سلمان تاثیر کے قتل کا ذکر چھیڑیں یا شہباز بھٹی کا خون محسوس کریں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آٹھ سال تک بے گناہ قید کاٹنے والی آسیہ بی بی کی رہائی پر خوشی کا اظہار کریں یا اس سے ان آٹھ سالوں کی معافی مانگیں ہم نہیں جانتے۔ ملک کی اعلی ترین عدالت نے اسے بے گناہ قرار دیا ہے تو اب قانون کی نظر میں وہ بے گناہ ہے۔ شہر میں ہنگامے کرنے والے لاٹھی بردار مولویوں کو کوسیں یا ان کو اکسانے والے رضویوں اور قادریوں کی طرف نفرت سے دیکھیں۔ ہم نہیں جانتے۔

جہاں آسیہ بی بی کی بریت نے سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیا اور ملک میں ایک خوشی کی فضا قائم کی ہے وہاں ہر طرف ایمرجنسی بھی نافذ کر دی ہے۔ اسلام کے کئی ٹھیکیداروں میں مایوسی کی لہر بھی دوڑا دی ہے۔ کہ آسیہ بی بی اس جرم کی مرتکب کیوں نہیں ٹھہری۔ جس رسول کی ناموس کے رکھوالے بننے کے پیچھے ہم پورا ملک یرغمال بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق آسیہ بی بی نے ایسا کچھ کیوں نہیں کیا جس پر ہم اپنے ہی گھروں کو جلا کر راکھ کر دیں۔

ہمارا گھر دفتر سے محض چھے کلومیٹر پر واقع ہے۔ کل جس افراتفری میں وہاں سے نکلے ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ لاہور کے نواح میں ہونے کے باوجود ہمارا علاقہ بھی سیل ہونے لگا۔ چھے کلومیٹر طے ہونے میں قریب چالیس منٹ لگے۔ یہ کیسا عشق ہے جو پورے ملک کو جلا کر خاکستر کرنے پر تلا ہے؟ رحمت اللعالمین کی تعلیمات کہاں ہوا ہوئیں؟

اس قانون پر بات کرنے کی تو ہماری جسارت نہیں۔ لیکن ابھی بھی زندگی کی کچھ رمق باقی ہے اس لئے کچھ نہ کچھ ضرور کہیں گے۔ جہاں شمع اور شہزاد کو جھوٹے الزام کی پاداش میں نذر آتش کر دیا جاتا ہے، جوزف کالونی جلا کر راکھ کر دی جاتی ہے، مشال خان کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے، غریب آسیہ بی بی کو ایک پانی کے گلاس پر شروع ہونے والی لڑائی پر توہین رسالت کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے، اس کی حمایت کرنے والے سلمان تاثیر کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، شہباز بھٹی کو زندگی سے محروم کر دیا جاتا ہے، وہاں جھوٹا الزام لگانے کی کیا سزا ہے؟ کیا یہ قاتل اس رسول کی توہین کے مرتکب نہیں جن کی زندگی ہی امن و سلامتی کا پیغام تھی؟

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کیا یہ اشتعال پھیلانے والے اور اس مدعے پر سیاست چمکانے والے کا دفعہ کے تحت جیلوں میں قید کیے جائیں گے؟ ملک کا نظام اس لئے مفلوج ہے کہ آٹھ سال بیگناہ قید کاٹنے والی عورت آزاد کیسے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ اسے بے گناہ قرار دے دے تو اسے کیسے دی جا سکتی ہے؟

جہاں ہم وزیر اعظم صاحب کی کل رات کی تقریر کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہیں وہیں چند ہی مہینے پہلے کا وہ وقت بھی دہراتے ہیں جب انہوں نے مخالفین کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا۔ کاش کہ آپ کو اس وقت بھی یہ احساس ہوتا کہ یہ عفریت صرف آپ کے مخالفین کو نہیں بلکہ آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا۔ خیر دیر آید درست آید۔

یہ وقت کٹھن ہے۔ اس کا مقابلہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اس منافرت کی فضا میں اکٹھے ہوں۔ اب کی بار ان شر پسندوں کو عیدی کے چیکوں سے نہ نوازیں۔ مل کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ اب کسی کو آسیہ یا مشال نہ بننے دیں۔ کسی سلمان تاثیر کا خون نہ بہنے دیں۔ اس آگ کو ہمیشہ کے لئے بجھا دیں۔ ٹھنڈا پانی بہا دیں۔
معاف کیجئے گا کالم ختم ہو گیا۔ جس طنز و مزاح کی تلاش میں آپ نے کلک کیا تھا وہ آج ممکن نہیں۔ سلامت رہیے اور رہنے دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).