آسیہ بی بی اور ریاست پاکستان


طویل عرصہ بعد پاکستانی حکومت کی طرف سے ایک جرات مندانہ اقدام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ جناب محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایک بڑا حوصلہ افزا بیان دیا ہے ہم سب رسول اکرم ﷺ کی ناموس اور عزت کو سب سے مقدم رکھتے ہیں لیکن آسیہ بی بی کے بارہ میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا ہے۔ پاکستان کی سب سے بالا عدالت کے اس فیصلے کو ہر صورت میں تسلیم کیا جانا چاہیے۔ نیز ایک چھوٹا سا مذہبی طبقہ جو اپنے ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کے چکر میں احتجاج کر کے، سڑکیں بلاک کر کے، معشیت کو نقصان پہنچا کر، عوام کی زندگی اجیرن بنا کر پاکستا ن کی جڑیں کاٹ رہا ہے ان کو ہر حال میں روکنا ہو گا اور قانون اور ریاست کو اپنی رٹ بحال کرنا ہو گی۔

آسیہ بی بی کا واقعہ تقریبا دس سال پرانا ہے اور اس واقعہ کی بین الاقوامی سطح تک متعدد بار گونج سنائی دی جا چکی ہے۔ سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی جیسے قوم کے بہادر بیٹے بھی اسی کیس کے سلسلہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بالآخر امید کے برعکس سپریم کورٹ نے قانون، شواہد کی کمزوری، گواہوں کے بیانات میں تضادات اور استغاثہ کی جانبداری کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بہت جرات مندانہ قدم اٹھایا اور درست فیصلہ سنایا۔ پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے، میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی ہمت کو داد دینے پر مجبور ہوں جنہوں نے یہ فیصلہ دیا۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔

پیارے آقا سیدنا محمد مصطفیﷺ کی عزت ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے۔ لیکن جس طریق سے حرمت رسول کے اس قانون کو لاقانونیت کا جواز بنا کر استعمال کیا جاتا ہے اس پر ہر باشعورانسان افسوس کرتا ہے۔ پھر ہمارے نام نہاد مولوی عوام کے جذبات کو ابھار کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ناموس رسالت کا نام استعمال کرتے ہیں، پور ی دنیا میں اسی بری مثال نہیں ملتی۔

اب پاکستان کی عزت اور ریاست کی رٹ کی بحالی حکومت ک ہاتھ میں ہے۔ چند ماہ پہلے فیض آباد دھرنے میں ریاست کی رٹ کو جس بری طرح پامال کیا گیا، اس سے پوری دنیامیں ہماری بے مثال جگ ہنسائی ہوئی اور مذہبی منافرت کو ایسی خطرناک ہوا ملی ہے جس کا سدباب ناممکن نظر آرہا تھا۔ وزیر اعظم صاحب کے آج کے بیان سے دوبارہ یہ امید ہو چلی ہے کہ شاید ہمارا مذہبی انتہاپسندی کی طرف یہ اٹھتا قدم رک پائے اور ہم اسلام کی پرامن اور محبت سے لبریز تعلیم کو پاکستان میں دوبارہ جاری کر سکیں جس میں ہر مذہب کا پیروکار مکمل آزادی سے اپنی مذہبی تعلیم پر عمل کر سکے۔ ہم دوسروں کے لیے اپنے دل وسیع کر سکیں۔ دوسروں کے عقائد کا احترام کر سکیں۔

اگر اس کے برعکس حکومت نے ایک مرتبہ پھر ان مولویوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تو عمرا ن خان صاحب یہ یاد رکھیں کہ پاکستا ن میں ہر وہ سیاسی لیڈر جس نے ان نام نہاد مولویوں کے آگے سر جھکایا تو یہ وہ ایسا کمبل بن جاتے ہیں جن سے نہ تو جان چھڑائی جا سکتی ہے اور نہ وہ خود جان چھوڑتے ہیں۔ خدا را اپنے آپ کو پاکستان کے ہر طبقہ کا لیڈر سمجھیں تا کہ پاکستان کی اچھی اور قابل قبول شکل دنیا کے سامنے آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).