بات کہنے کے آداب


#آداب #تخاطب #انداز #تکلم
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہر شخص کو لکھنے کی غیر محدود آزادی میسر ہے اور چونکہ یہ تقریباً ہر قسم کی سنسرشپ سے فری ہے اس لئے بسا اوقات لوگوں کا انداز گفتگو اور اسلوب تحریر نہ صرف غیر معیاری اور سوقیانہ ہوتا ہے بلکہ جارحانہ بھی۔ اختلاف رائے کو انا کا مسئلہ بنادیا جاتا ہے اور بالآخر ذاتیات پر حملے برہنہ گفتاری اور دشنام طرازی تک بات پہنچ جاتی ہے۔ چونکہ دین اسلام زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے اس لئے اس کی تعلیمات ہر موڑ پر ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔

مباحثہ دینی ہو یا سیاسی، سماجی ہو یا ذاتی، اس میں حسنِ اسلوب مطلوب اور محبوب ہے اور حسنِ اسلوب یہ ہے کہ متکلم (فرسٹ پرسن) مخاطب (سکنڈ پرسن) کو نشانہ بنانے کے بجائے غائب (تھرڈ پرسن) کو مخاطب کرے۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کے پاس جب کبھی کسی کی شکایت پہنچتی تو آپ صل اللہ علیہ و سلم اس شخص کو ڈائریکٹ مخاطبکیے بغیر کہتے ”پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں“ کتنی حکمت ہے اس پیرہن میں کہ جس کو سمجھانا تھا اس کی سبکی بھی نہیں ہوئی اور بات اس تک پہنچ بھی گئی۔

کتنی خوبصورتی اور اخلاص ہے اس انداز تکلم میں۔ در اصل مقصد نصیحت کرنی ہو نا کہ فضیحت۔ اللہ سبحانھ وتعالى نے قرآن حکیم میں داعیوں کو بھی یہی سکھایا ہے ”ادعوا الی ربک بالحکمة والموعظة الحسنة“ یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف حکمت سے اور اچھے ناصحانہ انداز میں دعوت دی جائے۔ اگر حکمت کا تقاضہ ہے کہ بھری محفل کسی کو دعوت دی جائے تو بھری محفل میں اور اگر تنہائی میں بات کرنے سے بہتر نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے تو تنہائی میں۔

بات ہمیشہ مثبت انداز میں ہو کسی شخص یا گروہ یا مذہب کے عیوب پر جارحانہ حملہ کے بجائے اپنے مذہب کے محاسن کا تذکرہ کیا جائے۔ ہندو مذہب میں ذات پات کی برائی طبقاتی نظام برہمن شودر ویسیہ اور چھتری کی تقسیم کی وجہ سے نیچی ذات والوں کی ذلت آمیز زندگی پر روشنی ڈالنے کے بجائے اسلام میں اعلیٰ اور ادنیٰ کا معیار ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (قران) یعنی اللہ کی نظر میں سب سے محترم مکرم اور عزت والا وہی شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔

رنگ و نسل کی بنیاد کوئی اونچی ذات کا یا کوئی نیچی ذات کا نہیں ہوتا۔ لافضل لعربی علی عجمی ولا ابیض علی اسود الا بالتقوى (حدیث) یعنی کسی عربی کو غیر عربی پر یا کسی گورے کو کالے پر ترجیح نہیں دی جائے گی اگر ترجیح دی جائے گی تو تقویٰ کی بنیاد پر دی جائے گی۔ اس طرح کی مثبت باتیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ جو عیوب غیروں کے اندر نسل در نسل سرایت کر چکی ہو ان سے جذباتی وابستگی ہوجاتی ہے ان کے خلاف ڈائریکٹ بولنا مضر اور counterproductive ہو سکتا ہے۔

اگر کسی عزیز کو کسی برائی سے روکنا مقصود ہو تو یہ نہ کہے کہ تم یہ غلط حرام ناجائز یا نازیبا حرکت کرتے ہو اس سے باز آجاؤ بلکہ یوں کہیں کہ سننے میں آیا ہے کہ آپ کے کچھ کام غلط ہیں اگر ایسا ہے تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ اور یہ اکیلے میں سمجھایا جائے تو نصیحت ہوگی اور سمجھانے والا عنداللہ ماجور ہوگا اور اگر یہی بات اس نے اس کے دوست احباب یا گھر والوں کے سامنے رکھی تو یہ فضیحت ہوگی اور ممکن ہے وہ شخص ضد اور غصہ میں کفریہ کلمات کہ دے۔ اس لئے فضیحت کرنے والا عنداللہ ماخوذ ہوگا۔

آپ کی وابستگی کسی ایک سیاسی پارٹی، ملی تنظیم یا مسلک مشرب سے ہے اور آپ اس کی اتباع کرنے کے لیے آزاد ہیں مگر دوسروں کو حق پر نہیں ہونے پر اصرار اور لعن طعن کرنا درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جس تیزی سے دوستوں کی فہرست لمبی ہوتی ہے اسی رفتار سے ”دوستوں کے غیرمناسب اسلوب میں“ تبصروں سے خفگی بھی ہوتی ہے اور ان فرینڈ بلوک تک کی نوبت آپہنچتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).