پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کا دوسرا رخ


رواں ہفتے سعودی عرب نے بلآخر پاکستان کو چھے ارب ڈالر کا بیل آوٹ پیکج دے ہی دیا۔ سمجھوتے کے مطابق سعودی عرب پاکستانی خزانے میں ایک سال کے لیے تین ارب ڈالر جمع کراے گا اورمعاشی طور پر تباہ حال بیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک کو تین ارب ڈالر کا تیل ادھار پر دے گا۔ پاکستان کو اس ادھار کی ادائیگی ایک سال کے بعد کرنی ہوگی اور یہ معاہدہ تین سال تک رہے گا جس کے بعد اس پر نظر ثانی کی جائے گی۔

اگرچہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی پاکستان کو قرضے دیے ہیں اور بظاہر یہ پاکستان کے نئے وزیراعظم اور ان کی حکومت کی کامیابی ہے کہ وہ اب آئی ایم ایف سے باقی درکار قرض نسبتاً آسان شرائط پر لے سکیں گے۔ لیکن اس بار سعودی مدد کے ساتھ سرمایہ کاری بھی ہے جو کہ جیوپولیٹکل نقطہ ِ نظر سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔

اس بار کے مذاکرات میں سعودی عرب نے ایک بار پھر گوادر میں تیل کی ریفانیری لگانے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے پہلی دفع دلچسپی کا اظہار پاکستانی وزیراعظم کے پہلے دورے پر پانچ ہفتے پہلے کیا اوراس کے بعد منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد بھی پاکستان بھیجا۔ کہا یہ جا رہا کہ گوادر کے آس پاس ریفانیری لگانے کا معاہدہ، جو کہ پاکستان اسٹیٹ آئل اور سعودی آرامکو کے بیچ متوقع ہے، کا بینہ کی اجازت کے بعدجلد ہی کیا جائے گا۔

پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کوسمجھنے کہ لیے ضروری ہے اس وقت کے پاکستان اور چین کے معاشی سیاسی تعلقات کو ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ اگرچہ چین پاکستان میں پہلے ہی کھربوں کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور اسے قدرے کم مالیت کے قرضے بھی دے چکا ہے تاہم یہ مزید قرض دینے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ قرض جہاں ایک طرف بیجنگ کو اس کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے سب سے بڑے اور اہم حصے سی پیک کو کامیاب کرنے میں مدد دے گا وہیں پاکستان کے چین پر انحصار کو بڑھاتے ہوئے اسے دیگر قرض خواہوں، خاص طور پر آئی ایم ایف سے دور کرے گا جو کہ چین کے لیے معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے مفید ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین سے قرض لے کر پاکستان کسی حد تک معیشت میں جان ڈال سکتا ہے لیکن چین پر بہت زیادہ انحصار اس کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے اور شاید اسی خدشے کے پیشِ نظر سعودی عرب سے بیل آوٹ پیکج لیا گیا۔

تاہم اس بات کو سمجھنے کہ لیے ضروری ہے کہ اس ساری صورتِ حال کو سعودی عرب۔ یمن جنگ اور سعودی عرب۔ ایران کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اس معاہدے سے جہاں سعودی عرب کو گوادر میں بننے والی نئی ریفاینری سے فائدہ ہوگا وہیں اسے تیل ذخیرہ اندوزی کی سہولت بھی میسر آئے گی جہاں ایک اندازے کے مطابق قریب بائیس ارب ڈالر کا تیل ذخیرہ کیا جا سکے گا۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اگر ایران کبھی بھی آبنائے ہرمز کو بند کرتا ہے تو سعودی عرب کے پاس پاکستان میں اتنا ذخیرہ ہوگا کہ وہ ایشائی ملکوں کو یہاں سے بنا کسی رکاوٹ کے تیل بیچ سکے گا۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سعودی تیل جب پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد چین کو بیچے گا تو اس سے ایران اور چین کی تیل کی تجارت میں کمی آئے گی۔ ایران کی معاشی مشکلات بڑھیں گی تو سعودی عرب کو بھی فائدہ ہوگا اور امریکہ کو بھی۔ کیونکہ معاشی طور پر تباہ حال ایران نہ تو یمن میں پروکسی جنگ میں سعودی عرب کا مقابلہ کرسکے گا نہ امریکی پابندیا ں سہہ سکے گا۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس نیکی کے بدلے سعودی عرب کل پاکستان سے یمن میں جنگی تعاون کی اپیل کردے۔ اگرچہ ابھی تو پاکستان محض ثالث بننے کی پیشکش کر رہا ہے۔

اب یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین پاکستان سے ایران کے مقابلے میں قدرے سستا تیل تو خریدنے میں خوش ہوگا لیکن گوادر یا سی پیک روٹ پر کہیں بھی سعودی عرب کی موجودگی اسے پریشان کرے گی۔ کیونکہ چین کا سی پیک بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسے بیرونی دنیا سے تجارت کے لیے آبنائے مالاکہ سے نہ گزرنا پڑے اور وہ ایک ایسا روٹ استعمال کرے جس پر اس کا مکمل کنٹرول ہو۔ اب ظاہری بات ہے کہ سعودی عرب کے اس روٹ کا حصہ بنے سے چین کا یہ مقصد متاثر ہوتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ گذشتہ ماہ پاکستان کو سعودی عرب کے سی پیک کا حصے بننے کی خبروں کی تردید کرنی پڑی۔ اور چین کو ایک بار پھر اعتماد میں لینا پڑا کہ سب اس کی منشا کے مطابق ہوگا۔

سعودی عرب کی گوادر میں موجودگی سے پاکستان کی مشکلات کم ہوں نہ ہوں ایران کی بڑھ جائیں گی۔ یہ موجودگی ایران کے سنی آبادی کے صوبوں میں ویسی ہی کشیدہ صورتِ حال پیدا کر سکتی ہے جو اس وقت یمن کی سرحد کے ساتھ سعودی عرب کے شیعہ آبادی کے علاقوں میں ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کے کشیدہ علاقوں میں موجود مسلح گروہ وہابی اسلام کے پیروکار ہیں اور سعودی عرب گوادر سے ہو کر زیادہ آسانی سے ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ گوادر میں سعودی عرب کی موجوگی ایران اور بھارت کے مشترکہ منصوبے چاہ بہار کو بھی متاثر کرے گی۔

چونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے بھارت متاثر ہو اور پاکستان مکمل طور پر چین پر انحصار کرنے لگے اس لیے یہاں سعودی سرمایہ کاری اس کے فائدے میں ہے۔ امریکہ کسی بھی ذریعے سے پاکستان سے اس حد تک تعلق بنائے رکھنا چاہے گا جس سے اسے یہاں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے کا موقع ملتا رہے اور اسے تسلی رہے کہ پاکستانی نیوکلیر ”غلط ہاتھوں“ میں نہیں جائے گا۔

اس صورت میں پاکستان کی ترجیحات یہ واضح کریں گی کہ آنے والے دنوں میں یہاں کا عالمی منظر نامہ کیا ہوگا۔ اسلام آباد اگر تمام پہلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے ایسی شرائط پر قرض لیتا ہے کہ جس سے اسے کم سے کم جیوپولیٹیکل پیچیدگیوں کا سامنا ہوتو یہ یقناً اس مشکل وقت سے نکل سکتا ہے۔ لیکن قرض اگر خواہوں کی من چاہی شرائط پر لیا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھ جائیں گی۔

عمران خوشحال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمران خوشحال

عمران خوشحال PORTMYFOLIO.COM کے بانی اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئیجیز کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ وہ ڈیلی ٹائمیز سمیت متعدد پاکستانی اخبارات اور ویب سائیٹس کے لیے لکھتے ہیں۔

imran-khushaal-raja has 5 posts and counting.See all posts by imran-khushaal-raja