سوشل میڈیا پر ہماری آپ کی رائے ہمیشہ غلط ہوتی ہے


پچھلے چند برسوں میں راقم نے جن ذاتی علّتوں میں اضافہ کیا ہے ان میں ایک سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنا ہے۔ شروعات فیس بک سے ہوئی۔ خاندان کے مختلف مقامات پر رہائش پذیر افراد، کچھ پرانے اور کچھ مزید پرانے دوستوں سے تجدیدِ تعلقات اولاً خوشگوار تجربہ تھا۔ لیکن جیسا کہ بالمشافہ گفتگو میں بالآخر ”اور سناوؑ“ والا مقام آ جاتا ہے، اسی طرح فیس بک پر بھی احباب نے کچھ عرصہ بعد اپنے اقوال کی بجائے دینی و علمی شخصیات کے اقوالِ زرّیں لکھنا شروع کر دیے جن میں سے بعض کے بارے میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان ہستیوں نے ہرگز نہیں کہے جن سے یہ منسوب کیے جا رہے ہیں۔

جن احباب کو سیاست کا زیادہ چسکا ہے انہوں نے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی توصیف اور ناپسندیدہ سیاستدانوں کی تضحیک پر مبنی مواد ڈالنا شروع کر دیا۔ خاکسار نے چونکہ وعظ و نصیحت کے لئے بعد از دوپہر بروز جمعہ کا وقت مقرر کر رکھا ہے لہذا اس خیال سے ٹوئیٹر کا رخ کیا کہ ایک سو چالیس حروف میں تو منہ بھر کر گالی نہیں جا سکتی پند و نصائح کی گنجائش کیا ہو گی (شروع میں ٹوئیٹر پیغامات ایک سو چالیس حروف تک محدود تھے، دو سو اسّی حروف کی بدعت بعد میں شروع ہوئی) ۔

لیکن خاکسار نے اپنے ہموطنوں کی دریا کو کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت کو سمجھنے میں شدید غلطی کی۔ خیال تو یہ تھا کہ معروف و غیر معروف ناموں کے لکھے ہوئے پیغامات پڑھیں گے اور جہاں طبیعت مائل ہوئی وہاں ان خواتین و حضرات کو اپنے گرانقدر خیالات سے بھی نواز دیں گے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ دوسروں کی رائے پڑھنے میں تو کوئی رکاوٹ نہیں البتّہ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں احتیاط لازم ہے کہ بظاہر ایک بے ضرر سے جملے کے جواب میں آنے والا جملہ آپ کی پچھلی سات پشتوں کو لپیٹ کر آپ کے چودہ طبق روشن کر سکتا۔

خاکسار نے اپنی تمام عمر میں اتنی گالیاں ”منہ زبانی“ پڑتے نہیں سنیں جتنی گذشتہ چند برسوں میں تحریری شکل میں دیکھ لیں ہیں۔ اگر آپ بلاول بھٹو زرداری کی کسی تقریر یا بیان کی تعریف کر دیں تو آپ یقیناً اندھے ہیں جنہیں زرداری صاحب کی چار براعظموں پر پھیلی مبیّنہ کرپشن اور تھر میں قحط سے مرتے بچے نظر نہیں آتے۔ اسی طرح اگر آپ یہ کہہ بیٹھیں کہ پانامہ کیسں کا فیصلہ بظاہر قانون کی بجائے ملزم کی شکل کر کیا گیا ہے تو آپ کرپشن کے حامی اور چوروں کے طرفدار ہیں۔

اگر آپ کا موؑقف یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں اقلیّتوں کے وہ حقوق ہی دے دیں جن کی اسلام ضمانت دیتا ہے تو آپ جاہل ہیں جنہیں قادیانیوں کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا علم ہی نہیں۔ نیز آپ دینی غیرت سے بھی عاری ہیں (راقم کو یہاں یہ اعتراف ہے کہ وہ کسی ایسی سازش سے واقف نہیں جو غیر مسلم پاکستانیوں نے اپنے ہی ملک کہ خلاف کی ہو اور اس کا دل بھی یقیناً ایمان سے عاری ہو گا جبھی تو یورپ کے کسی ملک میں ہونیوالی کسی اسلام دشمن حرکت پر مشتعل ہو کر اپنے ہی ہموطنوں کی املاک کو نقصان پہنچانے پر آمادہ نہیں ہوا) ۔

اگر آپ جواباً یہ کہہ دیں کہ آپ نے اب تک پرانے پاکستان کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ کی سعادت سے محروم رکھا ہے، نیز عملی طور پر نہ سہی لیکن آئینی طور پر آپ مسلمان ہیں تو آپ محض ”جیالے“ یا ”پٹواری“ نہیں رہتے بلکہ باقاعدہ ”لبرل“ قرار پاتے ہیں، بمعنی ”لادین“ اور ”ملک دشمن“ نہ کہ روشن خیال۔ جو زیادہ اشتعال میں آ جائیں وہ محض ”لبرل“ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ”دیسی لبرل“، ”لنڈے کا لبرل“ جیسی کوئی سند عطا کر دیتے ہیں۔

یہ اب سوشل میڈیا کا ہی اعجاز ہے کہ عشروں سے غدّاری اور کفر کے جو سرٹیفکیٹ صرف سیاستدانوں اور دانشوروں کو دیے جاتے تھے وہ اب عوام النّاس کو بھی ملنے لگے ہیں۔ سیاستدانوں اور دانشوروں کو تو پھر جلسے جلوسوں یا اخباری بیانات میں مشرقی پاکستان میں آپریشن، جہادِ افغانستان، کالا باغ ڈیم جیسے معاملات کی مخالفت کرنا پڑتی تھی تاہم اب ہر خاص و عام کے لئے گھر بیٹھے ان اعزازات تک رسائی ممکن ہے۔ درکار ہے تو بس ایک عدد انٹرنیٹ کنکشن، کچھ فالتو وقت اور سماجی، سیاسی اور مذہبی طور پر ایسے خیالات جو انٹرنیٹ پہ موجود مجاہدینِ ملک و ملّت کی طبع پر ناگوار گزریں۔

ان انٹرنیٹ مجاہدین کا چونکہ واحد مقصد دفاع ملک و دیں ہے نہ کہ ذاتی نمود و نمائش اس لئے ان کی ایک بڑی تعداد اپنی اصل شناخت چھپا کر رکھتی ہے (تاہم بعض کے خیال میں جب دلیل کی جگہ دشنام سے کام لینا ہو تو پردہ کرنا مجبوری بن جاتی ہے۔ واللہ اعلم) ۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ تمام محبانِ ملک و ملّت مصنوعی شناخت کا سہارا لیتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو دھڑلے سے آپ کی ولدیّت پر اس وجہ سے سوال اٹھا دیں گے کہ آپ کے نزدیک ڈیم بنانا یا اس کے لئے پیسے اکٹھے کرنا عدلیہ کا کام نہیں۔

سوشل میڈیا کی تمام تر رونق راقم جیسے عامیوں (ظاہر یا پوشیدہ) کی وجہ سے نہیں۔ آزاد میڈیا کی برکت سے بھاری مشاہروں کے عوض ہلکے پن کا جو مظاہرہ ہماری ٹی وی سکرینوں پر سیاسی تجزیے کے نام پر ہوتا ہے اس کی بھرپور نمائندگی سوشل میڈیا پر دکھائی دیتی ہے۔ نئے پاکستان کے متعارف کردہ سیاسی کلچر کے طفیل شاید ہی کوئی نام ہو جس پر ”لفافہ“ یا ”حوالدار“ کا لیبل نہ لگا ہو (اور اگر کوئی بچ گیا ہے تو وہ ”لبرل“ ہے ) ۔ کچھ ناموں کے ساتھ ایسے کسی لیبل کا استعمال تو نری تہمت کے زمرے میں آتا ہے لیکن بد قسمتی سے ٹی وی سکرینوں اور اخباری کالموں میں قد آور بننے والوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو پستہ قد ثابت کرنے میں مصروف نظر آتی ہے اور بفضلِ خدا کافی کامیاب ہے۔

سوشل میڈیا کے نزول سے پہلے میڈیا کو معاشرے کا عکس کہا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا پر نجانے اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ نہیں۔ راقم کی ذاتی خواہش اور دعا تو یہی یے کہ ایسا نہ ہو کہ سوشل میڈیا میں نظر آنے والا عکس کسی بھی لحاظ سے خوش کن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).