مذہبی کارڈ اور مکافاتِ عمل


بعض اوقات انسان کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو قبول ہو جاتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی ہمارے وزیراعظم صاحب اپوزیشن جماعتوں کو للکار رہے تھے کہ اگر انہوں نے دھرنا کرنا ہے تو آئیں اپنا شوق پورا کر لیں۔ ان کی حکومت کنٹینر اور کھانا بھی فراہم کرے گی اور اگر اپوزیشن کو دھرنوں کے لئے بندے میسر نہ ہوں تو بندے بھی مہیا کرے گی۔ شاید منہ سے نکلی بات اپوزیشن تک پہنچے بغیر ہی پلٹ کر واپس آ گئی ہے۔ وزیر اعظم کو دھرنے کے لئے سہولت کار بننے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی اور آسیہ بی بی بریت کیس میں مذہبی جماعتوں کے احتجاج اور دھرنوں کی بدولت پورا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

دوسری طرف وزیر اعظم کے خطاب نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ اپنے خطاب میں ان کی طرف سے احتجاجیوں کو دھمکیاں دینا اور ان معلومات کا بھی افشا کر دینا جن کا میڈیا نے مکمل بلیک آؤٹ کیا ہوا تھا، قابلِ پریشانی ہے۔ وزیر اعظم صاحب یہ سمجھنے کے لئے نہ جانے اور کتنا وقت لیں گے کہ اب وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں کنٹینر پر کھڑے مولا جٹ نہیں۔ وہ یہ بھی فرما رہے تھے کہ دھرنوں اور احتجاج سے ملک نہیں چلتے، مزدوروں کا نقصان ہوتا ہے۔

لوگوں کو آنے جانے میں مشکلات ہوتی ہیں اور ہم یہ ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے بالکل درست فرمایا لیکن کاش انہیں یہ فرماتے ہوئے تھوڑی شرمندگی محسوس ہوتی اور تسلیم کر لیتے کہ چار سال انہوں نے جس طرح سڑکوں اور چوراہوں پر قبضہ کر کے پاکستانی عوام کا جینا حرام کیے رکھا، وہ بھی غلط تھا۔ کاش ان کو یاد آتا کہ جب انہوں نے 126 دن تک دھرنا دیاتھا، پارلیمنٹ ہاؤس، وزیر اعظم ہاؤس، سپریم کورٹ اور پی ٹی وی جیسے قومی اداروں کی عمارتوں پر بلوائیوں سے حملہ کروایاتھا، قوم کو بجلی کے بل اور ٹیکس نہ دینے اور مکمل سول نافرمانی پر اکسا یاتھا، وہ بھی غلط تھا۔

لاہور، اسلام آباد، کراچی، فیصل آباد اور پورے پاکستان کو بند کرنے کا نعرہ لگایا تھا وہ بھی غلط تھا۔ پارلیمنٹ اور عوام کے منتخب نمائندوں پر لعنت بھیجی تھی، وہ بھی غلط تھا۔ آج وزیر اعظم صاحب کس منہ سے ان تمام باتوں کو حرام قرار دے رہے ہیں جن کو انہوں نے خود حلال قرار دلوا کروزیر اعظم کا عہدہ حاصل کیا۔ اس وقت عمران خان اور تحریکِ انصاف کی حکومت کے سامنے ان کے اپنے سابقہ بیانات، منفی سیاسی طرزِ عمل اور وہی مذہبی کارڈ سب سے خطرناک اپوزیشن بن کے کھڑے ہیں۔ یعنی قدرت کا کائناتی اصول مکافاتِ عمل کارفرما ہے اور اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور اپنی روش نہ بدلی توقدرت کا یہی مکافاتِ عمل انہیں لے ڈوبے گا۔

تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کو طاقت ور قومی اداروں، پاکستان مسلم لیگ ق اور دیگر بہت سی اندرونی و بیرونی خفیہ طاقتوں کی آشیرباد حاصل رہی۔ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے تمام جائز و ناجائز حربے آزمائے۔ لیکن آج کسی سیاسی یا خفیہ طاقت کی سپورٹ کے بغیر صرف مذہبی جماعتوں کے دو دن کے احتجاج نے حکومت کی پتلون گیلی کر دی۔ میں کہتا ہوں آفرین ہے پاکستان مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت پر، 126 دن نہ صرف تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے بلوائیوں کو دھرنا کرنے دیا بلکہ ان کے منہ سے نکلنے والی گولہ باری بھی برداشت کی اور آفرین ہے آج اپوزیشن جماعتوں کے فیصلہ پرجنہوں نے اس موقع کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ یہی موقع تھا اگر اپوزیشن جماعتیں مذہبی جماعتوں کے احتجاج میں شامل ہو جاتیں تو یہ نیب، ایف آئی اور سپریم کورٹ کے چکر رفو چکر ہو جاتے اور آپ کو پتا بھی نہ چلتا کہ مذہبی کارڈ کس طرح آپ کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیتا۔

آسیہ بی بی توہینِ رسالت جیسے حساس کیس کے فیصلہ میں بہت سی باتوں میں ابہام موجود ہے۔ جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے مذہبی نوعیت کے کیسز میں بیرونی دباؤ کام کر جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کیس میں بھی یہی ہوا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ آسیہ بی بی کی رہائی کے لئے مغربی حکومتوں، این جی اوز اور خصوصاً امریکہ کا شدیددباؤ تھا۔ 22 جنوری 2018 کو پاکستان کے مختلف اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی اور خبر یہ تھی۔ ”یورپی یونین نے آسیہ بی بی کی رہائی کے بدلے جی ایس پی پلس کا درجہ اور مالی امداد کی پیش کش کر دی“۔

یہ آفر صرف یورپی یونین کی طرف سے تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور روس کی طرف سے بھی آسیہ بی بی کے معاملہ پر مختلف آفرز کی گئیں۔ بہت سی این جی اوز آسیہ بی بی کی رہائی کے لئے مہم چلا رہی تھیں۔ ”فری آسیہ“ کا انگلش نغمہ بھی جاری کیا گیا جو بہت سے چینلز پر چلا اور اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اور اب آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد USCIRF یعنی امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے نہ صرف اس فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے بلکہ پاکستان سے توہینِ رسالت کے 40 مزید ملزمان کی رہائی اور توہینِ رسالت کا قانون ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ادھر پاکستان میں چند ہفتے قبل آسیہ بی بی کے وکیل اور چند مشنری لیڈرز نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات بھی یقیناًاسی سلسلہ کی کڑی تھی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت شدید معاشی بحران سے پریشان ہے ( اوپر درج خبر کے حوالہ سے ) ۔ انہیں بحران پر قابو پانے کے لئے بیرونی امداد کی ضرورت ہے اور آسیہ بی بی کی رہائی سے حکومت کے لئے بیرونی امداد کے بہت سے در کھل گئے ہیں۔ 24 اکتوبر 2018 کو مبینہ طور پر اسرائیلی جہاز کی اسلام آباد میں آمد بھی اسی بات کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہے اور یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آسیہ بی بی کو فیصلہ جاری ہونے سے قبل ہی بیرونِ ملک پہنچا دیا گیا تھا۔ ماضی میں عمران خان صاحب خود بھی میڈیا چینلز پر آکر کہہ چکے ہیں کہ آسیہ بی بی کو رہا کر دینا چاہیے۔ یہ تمام حقائق یہ شبہ پیدا کر رہے ہیں کہ یہ عدالتی فیصلہ محض انصاف کے تقاضوں سے نہیں بلکہ انکل سیم کے دباؤ سے ہوا ہے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے فیصلہ میں سب سے پہلے ایف آئی آر کے پانچ دن لیٹ درج ہونے سے کیس کو کمزور قرار دیا حالانکہ جج صاحبان کومعلوم ہے کہ پاکستان میں اکثر معاملات کی ایف آئی آر مہینوں تک درج نہیں ہوتی۔ تھانہ کا عملہ جان بوجھ کر ایف آئی آر درج نہیں کرتا یا اندراج میں تاخیر کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ملزمہ آسیہ بی بی کے پنچایت میں اقبالِ جرم اور گواہوں کے بیانات کو بھی رد کر دیا۔

بہرحال کچھ بھی ہو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کیس میں کہیں تو انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو ہائی کورٹ برقرار رکھتی ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو یکسر رد کر دیتی ہے۔ یعنی فیصلہ یا تو پہلے دو عدالتوں نے غلط کیا تھا یا اب غلط ہوا ہے۔ مذہبی جماعتوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن عوام کے جان و مال کا نقصان ناقابل برداشت ہے۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اب کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا دھرنا شرنا بالکل نہیں چلے گا کیونکہ اب نہ تو ڈی جی رینجرز ان کو پیسے دینے والے ہیں۔ نہ ہی ان کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہے، نہ ان کے پاس جہانگیر ترین، اعظم سواتی یا علیم خان جیسے انویسٹر ہیں، نہ اب کوئی ان کے لئے منصوبے اور روڈ میپ بنانے والا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جتنا مذہبی کارڈ کھیلنا تھا کھیل لیا۔ فی الحال انہیں اس کارڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے مذہبی جماعتوں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے۔ امید ہے اس کالم کی اشاعت تک مذہبی جماعتوں کا احتجاج ختم ہو چکا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).