آسیہ کیس: نقصان سے بچنے کیلئے چند گزارشات


سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ مسیح کو رہا کرنے کا حکم دیے جانے کے بعد پورے ملک کے بالخصوص مذہبی طبقے کی طرف سے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے، ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں، جلاؤ گھیراؤ کو آج تیسرا دن ہے، جس میں چند ایک لوگوں کی قیمتی جانیں بھی جا چکی ہیں۔ موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو حالات مزید خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالات کی بہتری میں اگر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ دو ہی طبقے ہیں

1۔ حکومت
2۔ مذہبی طبقہ

وزیر اعظم عمران خان نے بہت عجلت میں قوم سے خطاب کرکے معاملے کو مزید بھڑکا دیا ہے، کسی بھی ذمہ دار شخصیت سے اس طرح کی جذباتی تقریرکی توقع نہیں کی جا سکتی، وزیر اعظم سے تو قوم یہ توقع کر رہی تھی کہ وہ اس نازک موقع پرمشتعل افراد کو اعتماد میں لیکراس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں گے لیکن انہوں نے کہا کہ ایک چھوٹے سے طبقہ کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ردعمل دیا گیا ہے، انہوں نے دھرنا والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کو کمزور نہ سمجھیں ہم کہیں بھی ٹریفک جام ہونے دیں گے اور نہ ہی جلاؤ گھیراؤ۔ وزیراعظم کے وزراء ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے اور انہوں نے دھرنا والوں کو اس سے بھی خطرناک دھمکیاں دے ڈالیں۔

وزیراعظم اور ان کے وزراء نے ریاست کے سامنے عوام کی جس کمزوری کا ذکر کیا ہے وہ درست ہے کیونکہ عوام بہر صورت ریاست کے ساتھ ٹکر نہیں لے سکتے، لیکن کیا کوئی بھی ریاست اپنے ہی عوام کے سامنے اس طرح کے انتہائی آخری اقدام اٹھاتی ہے؟ کیا حکومت نے مذاکرات کی پوری کوشش کر لی ہے؟ کیا اہل مذہب کے سرکردہ لوگوں سے بات چیت کر لی گئی ہے؟ کیا مصالحت کے لئے کسی تھرڈ پارٹی کی خدمات لی گئی ہیں؟ وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اس موقع پر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، وہ تمام حلقوں کے لئے قابل قبول ہو سکتے ہیں کیا ان کی خدمات سے مایوسی کے بعد طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے؟ ان سارے سوالوں کا جواب یقینا نفی میں ہے، اس کے برعکس انتہائی آخری اقدام کو شروع میں ہی آزمانے کی کوشش کی گئی ہے تو نتیجہ یہ نکلا ہے کہ احتجاج کا دائرہ وسیع تر ہو گیا ہے اور پورے ملک میں خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔

جہاں تک تعلق ہے مذہبی طبقے کا تو انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر شدید ردعمل دیا ہے، مذہبی طبقے کی طرف سے بھی انتہائی آخری اقدام اٹھایا گیا ہے اس کے برعکس اگر ہمارا مذہبی طبقہ اس فیصلہ سے متعلق آئیں میں موجود گنجائش کا فائدہ اٹھاتا اور اس کیس کی بھر پور پیروی کرتا اور نامور وکلاء کی خدمات حاصل کی جاتیں تو ملک و قوم کو نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔ پورے ملک سے شدیدردعمل کے بعد بھی ہمارے مذہبی طبقہ کو وہی کرنا پڑے گا جو آئین کے مطابق ہے، ان سطور کو تحریرکرتے ہوئے عالمی ختم نبوت کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے لئے باقاعدہ اپیل دائر کر دی ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ اس کیس کی حساسیت کے پیش نظر، نظر ثانی میں مذہبی طبقے کے تمام تحفظات کو دور کرتے ہوئے ایسا فیصلہ دے گی جسے ملک کے تمام حلقے قبول کریں گے۔

حکومت کو سب سے پہلے اس خمار سے باہر نکلنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ملک کے چھوٹے سے طبقے کی طرف سے ردعمل آیا ہے، وزیراعظم کو حکومتی بقراط مسئلہ کی حساسیت سے متعلق درست حقائق نہیں بتا رہے ہیں، ایسے مشیر وزیراعظم کے خیرخواہ ہوسکتے ہیں نہ ہی ملک و قوم کے۔ وزیراعظم کواس مسئلہ پر شاہ محمود قریشی، نورالحق قادری اور اسد قیصر جیسے جہاندیدہ اور نرم مزاج لوگوں سے مش اور ت کرنی چاہیے۔ انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ اسی مسئلہ پر میاں نوازشریف کی حکومت کو 14 دنوں کے بعد آپریشن میں ناکامی کے بعد مذاکرات کرنے پڑے تھے، ان لوگوں کی طاقت کا صحیح اندازہ نہ کرکے جو غلطی گزشتہ حکومت نے کی تھی اور اس کے نقصانات اٹھائے تھے آج وہی غلطی موجودہ حکومت بھی کرنے جا رہی ہے، یہ واحد مسئلہ ہے جس پر لوگ یکجا دکھائی دیتے ہیں اور اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔

ملک میں موجود ایک خاص طبقہ جو سرے سے توہین رسالت قانون کا ہی خاتمہ چاہتا ہے وہ موجودہ دھرنے کو ختم کرنے کے لئے حکومت کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا مشورہ دے رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں ایسے لوگوں کے باتوں میں نہیں آنا چاہیے اور ریاست کو اس نازک موقع پر ایسا کردار ادا کرنا جو ایک باپ اپنے ناراض بچے کو منانے کے لئے کرتا ہے، اس کے بر عکس ہر طرح کی سختی کار گر ثابت نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).