جمہوریت خطرے میں ہے!


جب سے ہوش سنبھالا ہے جمہوریت اور ملک دونوں کو خطرے میں پایا ہے۔ جب بھی کسی کے سیاسی۔ معاشی مفادات پر سودے بازی نہیں ہوپائی تو خطرہ بھاگ کر بیچ میں بیٹھ گیا۔ جو الیکشن جیت نہیں پاتا اسے دھاندلی کی بو آجاتی ہے۔ جس کو اپنی طاقت کمزور پڑتی نظر آتی ہے اسے ملک خطرے میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ کوئی ڈنڈے کے ذریعے مطلب نکالتا ہے تو کوئی ٹینک لے کر چڑھ دوڑتا ہے۔ آج کل ایک بار پھر جمہوریت اور ملک دونوں ”خطرے“ میں ہیں۔

اپوزیشن کو خوابوں میں جمہوریت لڑ کھڑاتی نظر آتی ہے تو حکومت کو دن میں ملک خطرے میں نظر آتا ہے۔ جن کی وجہ سے یہ دونوں ہیں وہ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت ختم نہیں ہورہی ہے تاہم یہ ادھیڑ عمری کے بحران سے گزر رہی ہے جس میں یہ نہیں معلوم کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ نہ جانے کس سمت سے آنیوالا کوئی ٹرک روند کر چلا جائے۔

علم سیاست کے کھوجی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور بڑھتی ہوئی اقتصادی ناہمواری جمہوریت کو سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ سمجھتے ہیں۔ ”ہاؤ ڈیموکریسی اینڈز“ یعنی جمہورت کیسے ختم ہوتی ہے میں پروفیسر رنسیمن لکھتے ہیں کہ اس وقت کی سیاسی غیر یقینی اورمایوسی جمہوریت کے لئے مہلک بنتی جارہی ہے۔ جمہوریت تھک گئی ہے لیکن اس کے رستے میں ڈھ جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دنیا میں جو بھی ہو لیکن پاکستان میں جمہوریت کی حالت ایسے ہے کہ اقتدار کا سورج تو کب غروب ہوجائے کسی کو خبر نہیں۔ یہاں جس نے بھی تکبر کیا یا زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوا دھڑام سے نیچے آگرا۔ خواہ ٹرک ہو یا لفٹر۔ کرسی ہو یا کنٹینر۔ جو چیز خدا کو ناپسند ہے وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی۔

پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ جمہوریت میں اپوزیشن ہوشمندی تو حکومت جوش سے کام لے رہی ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے آپ جو کرو گے ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ جبکہ وزراء کہتے ہیں اے دھرنے والو۔ آوازنیچی نہ کی تو ہم تم کو بھون ڈالیں گے۔ حالانکہ جب خود اپوزیشن میں تھے تو فرماتے پائے گئے کہ جلا دو۔ گرا دو۔ جو بھی ہمارے کارکنوں کو ہاتھ لگائے گا اس پولیس والے کی چمڑی ادھیڑ دیں گے۔ ہماری نہ مانی گئی تو ملک بند کردیں گے۔

اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ معاشی بحران عروج پر ہے۔ مہنگائی اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ بڑے شہر بند ہوچکے ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی جمہوری حکومت ہے جس نے مخالفین کا موقف دینے پر غیر علانیہ پابندی عائد کررکھی ہے۔ ٹی وی چینلز پر بلیک آؤٹ کی صورتحال ہے تو موبائل فون خاموش ہیں۔ سڑکوں پر سکیورٹی کہیں نظر نہیں آرہی۔ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے بچے۔ دستاروں والے ”فدائی“ نظر آتے ہیں۔ جمعرات کی شب مذہبی جماعت کے مرکزی دھرنے مال روڈ لاہور پر پہنچا تو فدائین اپنے امیر علامہ خادم رضوی کو ویل چیئر پر اٹھائے خیمے میں منتقل کررہے تھے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ہم ہر رکاوٹ سے ٹکرانے کے لئے تیار ہیں۔ اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہاں موجود لڑکوں کی آنکھوں میں غضب تھا۔ آگ تھی۔ سچ تو یہ کہ حکومت معاملات کو سنبھالنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ کسی کو آگے بڑھنے کے لئے دعوت دے رہی ہے۔

جمہوریت کو درپیش خطرہ روکنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے۔ تمام طبقات کو مساوی اہمیت دی جائے۔ کسی کو ”چھوٹا طبقہ“ کہہ کر نظر انداز نہ کیا جائے۔ ایک چنگاری بڑے سے بڑے جنگل کو راکھ بنا سکتی ہے تو ایک ووٹ سے تخت ڈانوا ڈول بھی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ مذہبی ہے جسے ”چھوٹا“ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے ایسا ہونے کی صورت میں پھر یہی چھوٹا طبقہ احساس محرومی کا شکار ہوکر کوئی بھی بڑا کام کرنا کی کوشش کرتا ہے جس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔

ملک میں متناسب جمہوری نظام ہی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس نظام میں جو جماعت جس تناسب سے ووٹ لیتی ہے اسے اسی تناسب سے سیٹیں ملتی ہیں۔ جوسب سے زیادہ ووٹ لیتی ہے وہی حکومت بنانے کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ حالیہ الیکشن میں صورتحال یہ رہی کہ مذہبی جماعتوں نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیا لیکن پارلیمنٹ میں چند ارکان ہی پہنچے۔ ایم ایم اے اور تحریک لبیک کو مجموعی ووٹ ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ایم ایم اے کا کل حاصل کردہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ 50 لاکھ 4 ہزار 259 ہے اور اس کی قومی اسمبلی میں منتخب نشستیں 12 ہیں جبکہ تحریک لبیک پاکستان کا کل ووٹ 46 لاکھ 25 ہزار 347 ہے اور اس کی قومی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ صرف سندھ اسمبلی میں تین نشستیں ہیں۔ یہ وہ نا انصافی ہے جو مذہبی جماعتوں کو اپنے فیصلے سڑکوں پر کرنے کے لئے مجبور کرتی ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے یوم پیدائش سے اپنا قبلہ ہی متعین نہیں کرسکے ہیں۔ اندر سے مذہبی ہیں تو اوپر سے لبرل بننے کے چکر میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ دوسروں کی خوشنودی کے لئے اپنا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ ہمیں اپنے لئے سوچنا ہوگا۔ اپنی راہ خود متعین کرنا ہوگی۔ ویران صحرا میں اسی طرح بھٹکتے رہے تو منزل کھو دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).