انتہاپسندی ہماری فطرت میں ہے


میدان میں تمام لڑکے جو کہ ایک ہی وردی میں ملبوس تھے، اور کسی بات چیت میں مصروف تھے۔ اور پھر کچھ دیر کے بعد دونوں گروہ آگے بڑھے، ایک نے ”غلام ہیں غلام ہیں“ اور دوسرے نے ”نعرہ حیدری“ جیسے الفاظ سے ایک دوسرے کی طرف پیش قدمی ہوئی اور دونوں گروہ گتھم گتھا ہو گئے۔ گھمسان کا رن پڑا، کرسیوں کے وار ہوئے، سر پھٹے اور یہاں تک کہ پولیس والے آئے، اپنے جاننے والے ”عاشقان“ کو ایک طرف کیا اور دوسروں کو گاڑی میں بٹھایا اور لے گئے۔ اگلے دن بچے کھچے کلاس میں آئے اور وہ لیکچرر صاحبہ جو کہ گورنمٹ کالج آج کامرس کی دو سب سے آزاد خیال شخصیات میں شامل ہوتی تھیں وہ بھی اپنے کالج لیول کے ”عاشقانِ رسول“ کو بڑھاوا دیتی رہیں اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی تاکید کرتی رہیں۔

انتہاء پسندی نئی نہیں ہے۔ اور نہ ہی نئی ہوتی ہے۔ یہ بس سالوں سے ارتقاء پذیر رہتی ہے یہاں تک کہ کبھی مذہبی یا پھر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر تعمیر ہو کر وہی صورت حال اختیار کرتی ہے جو آج کل پورے پاکستان کی ہے۔

سب سے پہلے تو تشدد ہمیشہ سے برصغیر کی ثقافت، روایت اور وراثت رہا ہے اور یا تو براہ راست جینز کے ذریعے ہمارے آباء و اجداد سے ہم میں منتقل ہوئی، دوسرا جب والدین اپنے بچوں کے ساتھ یہ تشدد پسند رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ بچوں پر تشدد ”کر“ نہیں رہے ہوتے بلکہ ان میں منتقل کر رہے ہوتے ہیں جو سلسلہ خلاء میں موجود شے کی طرح چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ اسے روک لیا جائے۔ اسی طرح اگر سکول یہ مدرسہ میں بچے پر کسی بھی قسم کا تشدد کیا جائے تو وہ اس تشدد کو دوسروں پر آزماتا رہے گا اور منتقل کرتا رہے گا۔ حتیٰ کہ وہ کالج پہنچے گا۔ وہاں ”عاشقان“ جو طلباء تنظیموں کے روپ میں گھوم رہے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ شامل ہو کر اپنی انتہاء پسندی میں مزید سنجیدگی لے کر آئے گا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ کالجوں کی انتظامیہ اور اساتذہ بھی ان لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔

یہی لوگ آگے جا کر یا تو مذہبی جماعتوں کا حصہ بنتے ہیں یا سیاسی جماعتوں کا۔ فرق تو خیر، کچھ خاص نہیں، دونوں ہی دین اور مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی پائی گئی ہیں۔ ان لوگوں کو اپنی مارکٹنگ کا ایک بہانہ چاہیے ہوتا ہے اور وہ بہانہ جب دین بنا دیا جائے تو ظاہر ہے طوفان تو اٹھیں گے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام پر طوفان اٹھانے اور اپنے اسلام کے علاوہ ہر ایک کے اسلام کو کافر اور واجب القتل سمجھنے میں ہماری قوم سب سے آگے ہے۔ ہوں بھی کیوں نہ، ہمارے مولوی صاحب نے یا پیر صاحب نے پکی نصیحت کی ہوتی ہے۔ ہاں اگر ہم میں سے کوئی بھی قرآن کی ایک سورت بھی نا یاد رکھ سکے یہ دینِ توحید کا ایک تقاضہ بھی پورا نہ کر سکے تو یہ الگ بات ہے۔

موجودہ دھرنا جات، ہڑتالیں، جھڑپیں اور انتشار دیکھنے میں ہمیں بہت نیا لگ رہا ہے۔ ہم میں سے کچھ تو اپنے ”ایمان“ کی تازگی کے لیے اپنے ہی مذہب کے لوگوں کو جہنم واصل کرنے اور اپنی ہی عورتوں اور بچوں کو باندی بنائے بیٹھے ہیں۔ بات پھر سے وہی برِصغیر کا اسلام، برِصغیر کی وحشت اور دیوانگی میں اسلام کی آمیزش ”خدا برصغیری کو ایمان نہ دے“ اور اقبال کی بات ”وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں“۔ یہ باتیں بڑی پرانی ہیں۔ اتنی پرانی کہ یہ سب لوگ جو آج کی بات کو برا کہہ رہے ہوتے ہیں، کل وہی بات ان کا مشغلہ رہ چکی ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے حرام کہا، نون نے دیا۔ پھر انصاف نے دیا، نون نے حرام کہا، پھر لبیک نے دیا، انصاف نے حرام کہا۔ اور ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی دور میں اس آگ کا پرزور حمایتی رہا ہے۔

یہ داستانیں محبت کی، یہ عشق کی خماریاں
یہ سلسلے بڑے پرانے ہیں، مٹیں اس پر آبادیاں

اور یہ دھرنوں اور ملک بند کرنے کا دیا ایک دور میں جل چکا ہے اور تب سے ہر دور میں دل رہا ہے اور ہر بار یہ مزید اجل کر جلے گا۔ ہمارے لوگ ہی دونوں طرف ہوں گے، ہماری گاڑیاں جلیں گی، ہماری عورتیں یرغمال ہوں گی، ہمارے ہی ٹھیلے لٹیں گے۔ اور ہم میں سے تمام لوگ باری باری اس سب کو حلال اور حرام میں بانٹ کر اپنے حصے کا دیا جلاتے جائیں گے، ماسوائے اس کے کہ ہم اس کو نظر انداز کرکے خود میں برداشت پیدا کر کے انتہاءپسندی کو اپنی موت آپ مرنے پر ہی مجبور کر دیں۔

اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہوں تو نہ گستاخیاں ہوں گی اور نہ ہی بے حرمتیاں۔ اور پھر انتشار طلب اور رسد کی کمی کے باعث خود ہی ختم ہو جائے گا اور شاید جہنم میں جلتی، جہنم سے ڈرتی، جنت کی متلاشی یہ قوم واقعی جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).