بھولے عوام اور شاطر ملا


گزشتہ وقتوں میں ایک مثال ہر زبانِ زدوعام ہو کرتی تھی کہ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان۔ حالیہ آئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک شور سا مچ گیا اور باقی شہروں کا تو پتہ نہیں لیکن کراچی میں ایک ایسی فضا قائم ہو گئی گو کہ کرفیو لگنے والا ہے۔ اگر ہم اس تناظر میں ایک اور قانون کو دیکھ لیں اور پھر اس بات کی طرف آئیں تو شاید زیادہ مناسب ہوگا۔ شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ فتویٰ ظاہر پر دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر دو فریق کوئی ایک مدعیٰ لے کر آئیں تو دونوں کی بات کو سن کر اور ساری ظاہری علامات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ چاہے وہ کسی کے بھی حق میں ہو۔ دوسری جانب شرعی قانون یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے کو کافر کہتا ہے اور اس کا کفر ثابت نہ ہو تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے۔

اب ان دونوں قوانین کی رو سے ہم ایک حدیث کو بھی لے لیتے ہیں کہ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک شخص حضور کی بارگاہ میں آیا اور کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی اہلیہ کو نازیبا حالت میں کسی غیر کے ساتھ دیکھ لے تو کیا کرے۔ ؟ حضور نے فرمایا کہ وہ دو گواہ لے کر آئے۔ عرض کی کہ اس دوران تو وہ شخص بھاگ جائے گا۔ کیا انسان وہیں اسی وقت اس شخص کو اور اپنی بیوی کو مار نہ دے۔ تو حضورﷺ نے فرمایا کہ نہیں اگر چہ اس نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ہے پھر بھی اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ کام کرے۔

ہاں اسے اس قدر حق ہے کہ وہ اسے طلاق دے کر علیحدہ ہو جائے۔ ان سب باتوں سے جو بات سامنے آتی ہے اس میں تو واضح طور پر یہ پیغام ملتا ہے کہ ہر کام میں گواہی بھی ضروری ہے اور ساتھ ہی پر امن ہونا بھی، الزام کی نوعیت کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کی تحقیق کرنا بھی، محضجذبات کے بلبوتے پر فیصلے دینے کا حکم اسلام ہر گز نہیں دیتا۔

اس تناظر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ان تمام چیزوں کو سمجھا جائے تو شاید ہم اس قابل ہو پائیں گے کہ صحیح طور پر اسے سمجھ سکیں گے۔ یہ ہم سب کا ایمان ہے کہ ہم ناموسِ رسالت پر ہونے والے ہر وار کا جان کی پرواہ کیے بغر مقابلہ کریں گے اور اس کے لئے ہر وہ کام کر گزریں گے جو ہم سے بن پایا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ایک اور بات کو نہ بھولیں کہ ہم ایک ایسی آزاد مملکت کے باسی ہیں کہ جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور اسلامی قوانیں کو ہی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

جس کے باعث ہم پر اس کے تمام قوانین کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم بھی اسلام دیتا ہے۔ اب اگر بات کریں اس معاملے کی تو اس کی کئی سمتیں نکلتی ہیں ان میں سے ایک اہم یہ کہ آیا گستاخی ہوئی بھی یا نہیں۔ ؟ اگر ہوئی تو اس کے گواہان کی موجودگی اور ان کا اقرار کرنا اور ساتھ ہی وہ سارا معاملہ من و عن بتانا ضروری ہے تا کہ فیصلہ کی جانب بڑہا جاسکے۔ اس کیس میں اگر گواہان کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بیانات میں تضاد ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آیا کہ گستاخی ہوئی بھی یا ذاتی محض جھگڑے کی بنیاد پر انا کی خاطر الزام داغ دیا گیا۔ اس میں بنیادی گواہ وہ دو خواتیں ہیں کہ جن سے لڑائی ہوئی اور باقی گواہان ان کی بات کو سن کر گوہی دے رہے ہیں۔ ان کے بیانات بھی آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

اس کے ساتھ شریعت کے ہی ایک اور قانون کو پیش نظر کر بات کی جائے تو مزید بات واضح ہوگی اور وہ قانون یہ ہے کہ

ترجمہ: دلیل مدعی پر ہے جبکہ (دلیل نہ ہونے کی صورت میں ) قسم جو انکار کر رہا ہے اس پر ہے۔

جب دلیل نہ ہونے کے برابر ہو گئی تو قانون کی رو سے دوسرا شخص قسم کھائے گا۔ اس کیس میں بھی صورتِ حال اس موڑ پر آنپہنچی ہے کہ انکاری کو قسم دینا ضروری ہے۔ لہذا اگر وہ قسم کھالے تو معاملے کو رب پر چھوڑ دیا جائے وہ اس کا بہتر فیصلہ فرمائے گا۔ ان تمام باتوں کے بعد چند سوالات میرے سامنے آتے ہیں کیا ان تمام باتوں کا ان سو کالڈ ملا لوگوں کو نہیں پتہ۔ ؟ جب معاملہ ظاہری طور پر متقاضی ہے کہ فیصلہ الزام لگانے والے کے خلاف جائے تو عوام میں اشتعال دلانے اور توڑ پھوڑٖ اور غنڈہ گردی کا کیا مطلب ہے۔ اسلام تو ہر صورت امن کا درس دیتا ہے پھر فیصلہ کرنے والوں کے خلاف ان کے خون کو حلال قرار دینا کون سا اسلام ہے۔ ؟ اگر آواز اٹھانی ہے تو اس باطل اور کرپٹ نظام کو بدلنے کی اٹھاؤ، اپنے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر حقیقی طور پر میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).