علی شمس القمر، تو بھی گیا گزر


کرنل ہو کے تو وہ باوقار شخصیت بن گیا تھا مگر جب متعارف ہوا تو دبال پتلا، قدرے سیاہ، انتہائی سنجیدہ رو جیسے مسلسل ناراض ہو، کپڑے ہمیشہ نک سک درست، سیاہ چشمے اور موٹے شیشوں والی عینک مگر نام علی شمس القمر۔ دکھنے میں نہ شمس تھا نہ ہی قمر مگر جب بات کرنے پر آتا تو کبھی شمس کی مانند تابدار ہو جاتا تو کبھی قمر کی مانند راحت بخش۔

ہم دونوں میں دوستی نشتر میڈیکل کالج کے سال اول کے نصف سے ہی ہو گئی تھی اگرچہ ہم مختلف ہوسٹلوں میں مقیم تھے مگر روز نہیں تو ہفتے میں دو تین بار ضرور مل لیتے۔ جب وہ کہتا کہ ابے چھوڑ میں نے تو نویں جماعت میں ہی کمیونسٹ پارٹی بنا لی تھی، تو میں ہنسے بنا نہ رہ پاتا۔ وہ اردو کی ایک غیر پارلیمانی گالی جڑ دیتا اور بتائے چلا جاتا کہ اس پارٹی میں شامل ہونے کا پیمانہ تیزی سے آتے ہوئے ٹرک کے سامنے سے سڑک پار کرنا ہوا کرتا تھا۔ قمر بھائی کو ٹوکنے کا یارا تو کسی میں نہیں تھا کیونکہ قمر بھائی کو جھلاتے بھی دیر نہیں لگتی تھی۔

اس بیچاری فقیرنی کو قمر کی گفتگو کے اصول کہاں معلوم تھے جو تب جب میں، قمر اور غالباً شمعون بھی، روڈ سائیڈ ریستوران کی کرسیوں پر بیٹھے مصنوعی سنجیدگی سے قمر بھائی کے اقوال پر توجہ دیے ہوئے تھے، بار بار ”اللہ دے ناں تے کجھ ڈے“ کہہ رہی تھی۔ قمر بھائی نے ایک دو بار کہا بھی ”مائی معاف کر“ مگر اپنی گفتگو کی تان نہ ٹوٹنے دی۔ فقیرنیاں کوئی مانگنے سے باز آیا کرتی ہیں، اس نے مانگنا جاری رکھا تو قمر جھلا گیا، اور فقیرنی کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر درس دیا، ”اری مائی مانگنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں“۔ اس پر ہم کھلکھلا کر ہنسے بغیر نہ رہ پائے تو قمر بھی جھینپ کر اپنی ہی کہی بات پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا۔ فقیرنی ہمارے قہقہے سے پریشان ہو کر بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی تھی۔

پھر 1971 میں بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بچ رہے پاکستان میں شدید سیلاب آ گیا۔ امدادی کام کرنے والے کم پڑ گئے تو ہم دوسرے سال کے طالبعلموں کو لوگوں کو ابتدائی طبی امداد دینے اور حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے مامور کیا گیا۔ سڑکیں سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ چکی تھیں۔ نشتر کالج کے طلباء کو لے کر بس پتہ نہیں کون کون سے راستوں سے پہلے سرگودھا، پھر فیصل آباد اور بالآخر چنیوٹ پہنچی۔ چنیوٹ کے ہسپتال کے ایم ایس یا سی ایم او جو بھی تب تھے، نے ہمیں مختلف مقامات پر ڈیپیوٹ کرنا تھا۔

دو دو لڑکوں کے گروپ بنائے گئے تھے۔ قمر اور میری جوڑی بنی تھی۔ ہمیں جھنگ کے کسی دور افتادہ دیہات میں ایک زمیندار کے ڈیرے پر پہنچایا گیا، جہاں سے ہم روزانہ معاون طبی عملے کے ساتھ امدادی کام پر نکلتے تھے۔ ایک روز شام کو جب ہم چارپائیوں پر دراز تھے تو میزبان زمیندار بھی آ گیا جو بڑی بڑی مونچھوں اور پٹوں والا لمبا چوڑا شخص تھا۔ قمر بھائی اپنے انداز میں گفتگو کر رہے تھے کہ زمیندار پتہ نہیں کس بات پر کہہ بیٹھا، ”باتیں تو ایسے کر رہے ہو جیسے نواب امیر محمد خان کے بیٹے ہو“ بس پھر کیا تھا، قمر پر جھلاہٹ طاری ہو گئی اور چارپائی پر سیدھا بیٹھ کے بولا، ”ہم کوئی نواب امیر محمد خان کے بیٹے سے کم ہیں کیا؟ اپنے بیٹے کو دیکھ جو الف کو ڈنڈا سمجھتا ہے“۔ میں نے چپکے سے کہا کہ قمر یار چپ کر جا، یہ ہمیں مار کے یہاں گاڑ بھی دیں تو کسی کو معلوم نہیں ہوگا مگر قمر کہاں چپ ہونے والا تھا، ”مار دیں یار، مگر اس نے ایسا کہا کیوں“ بیچارے زمیندار کو ”اوہ بھرا معاف کر غلطی ہو گئی اے“ کہہ کر جان چھڑانی پڑی تھی۔

قمر اپنی والدہ سے منسوب کرکے ایسی ایسی مدبرانہ باتیں سناتا کہ مجھے لگتا خالہ کسی یونانی فیلسوف سے کم نہیں ہوں گی۔ پھر مجھے ایک بار ملتان کے نواح میں قمر کے ساتھ اس کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو خالہ بیچاری چولہے میں سر دیے پھونکیں مارتی ویسی ہی عام عورت تھی جیسی ہماری مائیں ہوتی ہیں یعنی قمر کو بات بنانے اور بنا کر سنانے کا بھی ڈھنگ آتا تھا۔

ایسے ہی ایک بار نشتر میں مشاعرہ ہوا۔ مجھ سمیت بہت سے طالبعلموں نے جن کی طبع موزوں تھیں اپنی اپنی غزلیں سنائیں مگر قمر نے گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر، دھیرج سے اپنی سگریٹ سلگا کر، اپنی اوزان سے خاصی عاری غزل جون ایلیا کی طرح اس بھرپور انداز میں سنائی کہ پہلا انعام لے اڑے۔

ہماری تعلیم کے دوران نشتر ہسپتال میں ذہنی امراض کا شعبہ نہیں تھا اس لیے نشتر میڈیکل کالج کے فائنل کے طلباء گروپوں کی صورت میں لاہور مینٹل ہاسپٹل میں تین ہفتے پڑھنے بھیجے جاتے تھے۔ جن دنوں ہمارا گروپ گیا ہوا تھا تب فورتھ ایر کا نتیجہ نکلا تھا۔ میں اور قمر انارکلی میں گھوم رہے تھے کہ ہمیں اپنی ہم جماعت دو تین لڑکیاں مل گئیں۔ گزٹ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ پاس ہونے پر خوش تھیں۔ ہمارے رول نمبر پوچھ کر ہم دونوں کو بھی انہوں نے پاس ہونے کی نوید دی۔

ہم خوش ہو کر انہیں بانو بازار کی چاٹ کھلانے لے گئے۔ خوشی میں لڑکیاں تھوڑی سی فرینک ہو گئی تھیں۔ ان میں سے ایک بولی ہم نے کلاس فیلو لڑکوں کے نام رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ میرا کیا نام رکھا ہے تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا تو نہیں البتہ قمر بھائی کا رکھا ہوا ہے۔ قمر نے بے اعتنائی سے کہا بتا دو، بتا دو۔ لڑکی بولی میں مجاہد کے کان میں بتاؤں گی۔ قمر نے کہا چلو اس کے کان میں بتا دو۔ لڑکی نے مجھے کان میں بتایا تو قمر نے سن لیا، بولا ”ہاں نا وہ تیز سا، طرار سا، کاٹ لینے والا چھوٹا سا مچھر“ لڑکی شرمسار ہو گئی مگر قمر مسکرا رہا تھا۔

پھر ہم ڈاکٹر بن گئے۔ میں پہلے فوج میں چلا گیا مگر قمر ہاؤس جاب کرتا رہا۔ میں فوج میں تھا کہ میری نسبت طے ہو گئی۔ میرا کسی کام کے سلسلے میں یا ویسے ہی لاہور جانا ہوا تو سوچا کہ قمر سرگنگا رام میں جونیر رجسٹرار ہے، اس سے ملتا جاؤں۔ ڈاکٹروں کی رہائش کے چار کمرے گیٹ سے داخل ہو کے آخر میں ایک جالی لگے برآمدے کے پیچھے تھے جن میں سے ایک میں قمر مقیم تھا۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ قمر نے کہا، ”ابے سنا ہے تیری شادی ہو رہی ہے، لڑکی کوئی ڈاکٹر بن رہی ہے“ میں نے کہا ہاں ایسے ہی ہے تو قمر اٹھا، الماری کھولی، ہینگر پہ لٹکا لفافہ چڑھا ایک نیا کوٹ نکالا، اس پر چڑھا لفافہ اتارا، انگوٹھے سے درمیانی انگلی کو آزاد کرتے دو ایک جگہ سے کوٹ کو جھاڑا اور بولا، ”ابے تو جل، سڑ، مر دیکھ یہ کوٹ دیکھ، میری بھی شادی ہو رہی ہے اور تیری ہونے والی بھابی ماہر نفسیات ہے“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ”ہاں قمر تجھے تو ایسی ماہر کی بہت ضرورت ہے“ وہ قہقہہ مار کے ہنسا اور مجھے پیار میں بے نقط سنائیں۔

پھر قمر سے ایک عرصہ ملاقات نہ ہوئی۔ وہ فوج میں چلا گیا۔ فوج کی ہی ڈیپوٹیشن پر سعودی عرب چلا گیا۔ ایک بار چھوٹے بھائی نے جو کراچی میں کسٹم لائر ہے بتایا کہ قمر اور قاضی اقبال سعودی عرب سے کاریں لائے تھے یوں ان سے کسٹم ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھی۔ پھر میں روس چلا گیا۔ پہلے معلوم ہوا کہ قمر کا بائی پاس ہوا ہے۔ پھر پتہ چلا کہ اسے ہیپاٹائٹس سی ہو گیا ہے۔ ایک بار پاکستان گیا تو معلوم ہوا کہ قمر لاہور سی ایم ایچ میں سیکنڈ ان کمانڈ ہے۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اسے ملا۔ اس نے کوک پیش کی تو میں نے گلاس پکڑ کر مذاق میں کہا یار دیکھنا مجھے ہھی ہیپاٹائٹس نہ ہو جائے۔ جھلا گیا، بولا، ”ابے جاہل ڈاکٹری بھول گیا کیا؟ ہیپاٹائٹس سی واٹر بورن نہیں ہوتی“ میں اسے جھلایا ہوا ہی تو دیکھنا چاہتا تھا ویسے تو معلوم تھا۔

پھر بہت عرصے بعد جب وہ ریٹائر ہو گیا تھا۔ عسکری تھری میں گھر لے لیا تھا میں اس کے گھر چند روز کے لیے مہمان ہوا۔ جاتے ہوئے جب شکریہ کہا تو بولا، ”ارے مرزا، تیرا اپنا گھر ہے، جب چاہے آ۔ ایک ماہ رہ دو ماہ رہ“۔ میں نے پھر کچوکا لگانے کو کہا ”بس دو ماہ“ تو پھر پیار بھری جھلاہٹ سے کہا، ”ابے۔ کیا ساری عمر کے لیے رہنے آئے گا؟ “

پچھلی بار جب پاکستان گیا تو میں مریدکے سے لاہور جاتا۔ بیٹا اپنے جم سے کوئی رات گئے فارغ ہوتا، یہ وقت میں قمر کے پاس کاٹتا۔ اسے ایک دو ماہ قیام کی پیشکش والی بات یاد دلائی تو کہنے لگا یار اب نہیں کہہ سکتا کیونکہ اب سنی کی شادی ہو گئی ہے اور وہ اپنی فیمیلی کے ساتھ اوپر والی منزل میں جہاں تمہیں ٹھہراتا تھا مقیم ہے۔ میں نے سنی کو دعا دی۔

ایک بار جب اس نے اپنی جائیداد کی خرید اور فروخت سے حاصل ہوئی دولت کی کہانی سنائی تو میں نے کہا کہ قمر یار اگر تیرے جیسے غیر فوجی فوجی کو فوج نے اتنی جائیداد دے دی ہے تو ہم بیچارے عام شہریوں کے لیے خاک بچا ہوگا تو ہنس کے بولا، ”جلتا ہے نہ بے تو“۔ اسی طرح اس نے اپنا تمغہ ستارہ خدمت دکھایا تو میں نے کہا کہ پرویز مشرف جیسے آمر سے تمغہ لے کر فخر کر رہے ہو تو اس نے پھر کہا، ”تو جلتا رہ“

سات آٹھ ماہ پہلے اس نے فون پر بتایا کہ اسے جگر کا سرطان ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد بتایا کہ ہیپاٹائٹس سی پھر سے ٹرگر ہو گئی ہے۔ شروع میں علاج کرواتے ہوئے پر امید تھا۔ مگر ڈیڑھ ماہ پہلے لگتا تھا کہ امید ہار رہا ہے۔ میں نے اسے کہا تم بہادر اور جرات مند ہے، انشا اللہ اللہ رحم کرے گا۔ اس پر اس نے کہا تھا کہ کیا خاک بہادر، ارے یار جب جان پر بنی ہو تو بہادری دکھائے بنا چارہ ہی کیا ہے؟

ہمارا نشتر کے ہم جماعت افراد کا ایک وٹس ایپ گروپ ہے۔ مجھے ٹکنالوجی بارے زیادہ علم نہیں۔ اس پر یکم اگست کو لکھا دیکھا کہ علی شمس لیفٹ تو میں نے فیس بک پر اس کی رحلت کی خبر جڑ دی۔ کچھ دیر بعد حقیقت کھلی تو میں نے پوسٹ ڈیلیٹ کرکے قمر کو لکھا، ”گروپ پہ لکھا آیا Ali shams left میں نے دکھی ہو کر بری خبر لگا دی۔ اب لمبی عمر پاوگے“۔ ساتھ ہی گروپ بھی چھوڑ دیا۔ 27 اگست کو میسنجر پر پوچھا ”قمر کیسے ہو؟ “ دو ستمبر کو پھر پوچھا، مگر اس نے خلاف معمول کوئی جواب نہ دیا۔ ڈاکٹر ہوتے ہوئے اس کی مرض کے انجام سے آگاہ ہونے کے سبب متفکر تھا۔

25 ستمبر کو ہمارا ایک اور ہم جماعت ڈاکٹر مولوی اسمٰعیل دنیا چھوڑ گیا تھا۔ میں چونکہ گروپ چھوڑ چکا تھا تو بروقت اطلاع نہ مل سکی تھی۔ ڈاکٹر ملا احسان نے پرسوں ہی پھر مجھے گروپ میں شامل کیا تھا۔ آج 3 نومبر 2018 صبح سات بجے آنکھ کھل گئی۔ فون کھولتے ہی ڈاکٹر سید فواد علی کا ایس ایم ایس تھا جس نے بتایا کہ قمر فوت ہو گیا ہے۔ وٹس ایپ گروپ میں بھی اطلاع تھی۔ سینہ بھر آیا، ساتھ ہی یاد آیا کہ کیسے ایک بار جب میں ہوسٹل کے کمرے میں میڈیکل کی کتاب کھولے بیٹھا پڑھ رہا تھا تو قمر اور فواد مجھے زبردستی اٹھا کر کھاد فیکٹری کے مزدوروں کے احتجاجی جلوس میں لے گئے تھے۔

لاٹھی چارج کے بعد ہم تینوں بھاگ کر النگ ( فصیل ) پر پہنچ کر چل رہے تھے کہ خفیہ والے نے میرے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔ قمر اور فواد بھاگنے کو ہوئے کہ فواد نے جاتے جاتے خفیہ پولیس والے کے چہرے پر اپنا فولادی مکہ جڑ دیا تھا۔ مجھے مار تو پڑنی ہی تھی مگر اس مکے کی وجہ سے تگنی پڑی تھی۔ کیا وقت تھے وہ بھی اور کیا دوست تھا قمر بھی۔ اب لاہور میں کس سے ایسے ملنے جاؤں گا جس سے ہر نوع کی فرینک نیس ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).