دھرنے اور مفاہمت کے اتفاقات


یہ عجیب اتفاق ہے۔ ستمبر 2014 میں چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے دھرنا دیا ہوا تھا، جس کی وجہ سے چین کے صدر کو اپنا دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا۔ چار سال بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے چین کا دورہ کر رہے ہیں اور ان کے دورے سے قبل ہی پورے ملک میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ جمعہ 2 نومبر 2018 ء کو جب وزیر اعظم عمران خان چین کے صدر شی جن سے تاریخ ساز ملاقات کر رہے تھے، مذہبی جماعتوں کی طرف سے ہڑتال کی کال کی وجہ سے پورے پاکستان میں زندگی مفلوج تھی۔ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملک کے بڑے شہروں میں دھرنے دیے ہوئے تھے۔

جی ہاں! اگر ان واقعات کو اتفاقات سے ہی تعبیر کر لیا جائے تو اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 4 سال پہلے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور چار سال بعد وزیر اعظم پاکستان اس تاثر کے ساتھ چین کے دورے پر روانہ ہوئے کہ ان کے ملک میں داخلی انتشار اور افراتفری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے چین کے دورے سے قبل دھرنا دینے اور احتجاج کرنے والوں کو متنبہ بھی کیا تھا کہ ریاست کو کمزور تصور نہ کیا جائے اور یہ بھی واضح کیا تھا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے باوجود ان کے دورہ چین کے دوران ملک میں حالات سخت کشیدہ رہے اور اتفاق سے پاکستان میں ایسے مواقع پر اس طرح کے اتفاقات کا سلسلہ جاری ہے۔

اس تناظر میں سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کی اس سیاسی پیشکش کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کے لیے کہا ہے اور حکومت کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر بیٹھے تاکہ پاکستان کے لیے آئندہ 20، 25 سال کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ انہوں نے یہ پیشکش قومی اسمبلی کے اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے کی، جس کا پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا۔

تادم تحریر آصف علی زرداری کی اس پیشکش پر تحریک انصاف کے کسی رہنما نے یہ نہیں کہا کہ مقدمات میں ریلیف حاصل کرنے یا این آر او لینے کے لیے آصف زرداری ایسی پیشکش کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو اقتدار میں آنے کے بعد وہ باتیں سمجھ آ رہی ہیں، جو حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے شاید اس کی سمجھ میں نہیں آ سکی تھیں۔ ابھی بہت سی باتوں کا ادراک کرنا باقی ہے۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پاکستان کے بنیادی سیاسی دھارے کی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ اس دھارے میں اب اقتدار میں آنے کے بعد شامل ہو رہی ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست کے تضادات کا اسے حکومت چلاتے ہوئے ادراک ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اسے ان تضادات کا احساس نہیں ہوا۔

آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی پیشکش کی تائید میں کچھ دلائل قومی اسمبلی میں بھی دیے تھے اور کچھ دلائل ان کے انٹرویو اور بیانات سے بھی سامنے آئے۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو دوست ممالک سے چند ارب ڈالرز مل جائیں گے اور اس سے حکومت کی کچھ ضرورتیں پوری بھی ہو جائیں گی لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ مستقل حل کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کو مل کر حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔

عالمی معاشی بحران پاکستان کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کچھ لوگ اپنے وقتی مفادات کے لیے ملک میں 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان دلائل میں بہت وزن ہے۔ اس وقت پاکستان کو اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس لازما جانا ہے اور اسی ہفتے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آ رہا ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت کو روپے کی قدر کم کرنا پڑی۔

گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کی جگہ کسی اور سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی تو وہ بھی تھوڑی بہت مزاحمت کے ساتھ یہ اقدامات کرتی کیونکہ مزاحمت کرنے والی سیاسی حکومتوں کو ماضی میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اب آئی ایم ایف شاید پہلی مرتبہ مذاکرات میں پاکستان پر یہ شرط عائد کرے گا کہ چین سے لیے گئے مہنگے قرضوں کا سلسلہ ختم کیا جائے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے منصوبوں پر نظرثانی کی جائے۔

پہلی مرتبہ امریکی حکومت نے پاکستان کے معاشی بحران کو سی پیک کے منصوبوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ایسا ہے یا نہیں لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ پاکستان کو سی پیک سے نکالنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے دباؤ دلوائے گا۔ اس وقت پاکستان دوراہے پر ہے۔ نئی عالمی اور علاقائی صف بندی میں پاکستان کے لیے فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے۔ پاکستان امریکی کیمپ میں رہے گا یا نہیں۔ یہ فیصلے کا وقت ہے۔

سی پیک منصوبوں کے بعد چین سے پاکستان کے تعلقات کچھ عالمی قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ عالمی قوتوں کے ساتھ پاکستان میں بھی کچھ حلقے سی پیک کے مخالف ہیں اور پاکستان کے داخلی حالات ہمیشہ ایسی عالمی سیاست سے متاثر رہتے ہیں، جنہیں اتفاقات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف کچھ ملکی اور غیر ملکی قوتیں پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی بھی باتیں کر رہی ہیں۔ اس کشمکش کے بھی پاکستان کی داخلی سیاست پر اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

آج پاکستان کی سیاسی قوتوں کو دو بنیادی فیصلے کرنا ہیں۔ پاکستان نئی عالمی اور علاقائی صف بندی میں کہاں کھڑا ہو اور پاکستان میں نظام حکومت کیا ہو۔ اگر پاکستان کی سیاسی قوتیں اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کر سکیں اور ان میں اتفاق رائے نہ ہو سکا تو نہ صرف معاشی بحران ختم نہیں ہو گا بلکہ سیاسی عدم استحکام بھی ایک مستقل عامل بن جائے گا۔

چین کے قرضے اگر مہنگے ہیں یا سی پیک کے کچھ منصوبے غیر ضروری ہیں تو ان پر چین سے بات کی جا سکتی ہے۔ چین کا رویہ بہت لچکدار ہو گا۔ اسی طرح ملک میں احتساب کا شفاف نظام قائم کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات پر سیاسی جماعتیں اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہیں تاکہ مذکورہ بالا دو بنیادی فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔ اس ”کراس روڈ“ پر مل کر چلنے کی بات بہت ہی معقول ہے۔ ورنہ اتفاقات ہمیں کبھی یقینی حالات کی طرف نہیں جانے دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).