مولانا سمیع الحق بھٹو کی طرح مردم ناشناس نکلے


مولانا سمیع الحق نے ملک کی دینی و مذہبی سیاست میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا، وہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔  وہ 1985 ء سے 1991 ء اور 1991 ء سے 1997 ء تک سینیٹر رہے جبکہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا، تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔  وہ متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے، جو پاکستان کے چھوٹی مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے بھی وہ سربراہ تھے، جس میں جماعت الدعوۃ، کالعدم سپاہ صحابہ، عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر بھی شامل تھیں، اس اتحاد میں شامل کئی جماعتیں دہشتگردی کے الزامات کے باعث کالعدم قرار دی گئی ہیں۔  مولانا سمیع الحق نے کابل کے طالبان کے زیر نگین آنے سے پہلے 1995 ء میں قندھار اور ہرات کا دورہ کیا تھا، یہ صوبے اس وقت طالبان کے زیر کنٹرول تھے۔  مولانا سمیع الحق نے اپنی جماعت کے رہنماؤں اور پاکستانی صحافیوں کے وفد کے ہمراہ قندھار میں ملا عمر سے بھی ملاقات کی تھی، جس کے بعد انہیں C 130 کے ذریعے ہرات کا دورہ بھی کرایا گیا تھا۔ طالبان قیادت ان کا اتنا احترام کرتی تھی کہ طالبان سے رابطہ، مذاکرات کے لئے افغان حکومت ہمیشہ مولانا سمیع الحق سے رابطہ میں رہی۔

بابائے طالبان ہونے کے باوجود مولانا سمیع الحق نے ایک ایسے وقت میں پولیو سے بچاؤ کی سرکاری مہم کی حمایت کی تھی، جب طالبان اس کی شدید مخالفت کر رہے تھے اور پولیو ٹیموں کو نشانہ بنا رہے تھے۔  اس کے علاوہ یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ مولانا سمیع الحق تمام تکفیری گروہوں کے پیشوا مانے اور سمجھے جانے کے باوجود انہوں نے خود اپنی قلم یا زبان سے کبھی بھی مکتب اہلبیت علیہم السلام کی توہین یا تکفیر نہیں کی۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے متعدد دورےکیے  اور وہاں اسلامی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای سے کئی ملاقاتیں کیں۔  ان کی تصاویر منظر عام پہ آنے کے بعد انہیں اپنے مسلک کے علماء اور لوگوں نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم اس بارے میں وہ اپنے موقف پہ قائم رہے۔  اسی طرح ایران سے شیعہ آیت اللہ جنتی جب پاکستان کے دورے پہ آئے تو انہوں نے اپنے وفد کے ہمراہ جامعہ حقانیہ کا دورہ کیا۔ ان روابط کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا سمیع الحق یا ان کے مدرسے کی جانب سے دہشتگرد گروہوں کی دہشتگردانہ کارروائیوں یا سرگرمیوں کی علانیہ مذمت کبھی بھی نہیں کی گئی، کہ جو مسلک کی بنیاد پہ اہل تشیع کو نشانہ بناتے ہیں۔

مولانا کا یہ طرز عمل ان کے حامیوں اور مخالفین میں ہمیشہ زیر بحث رہا۔ یہ مولانا سمیع الحق کی پراسرار اور گہری شخصیت کا ہی خاصہ ہے کہ بابائے طالبان اور خطے کے تقریباً تمام جہادی گروہوں کے پیشوا سمجھے جانے کے باوجود وہ پی ٹی آئی جیسی آزاد خیال سیاسی جماعت کے نہ صرف حلیف رہے بلکہ سینیٹ میں امیدوار بھی رہے، خود سید علی خامنہ ای سے لے کر مقامی شیعہ قیادت سے روابط اور ملاقاتیں رکھنے کے باوجود اپنے زیر اثر گروہوں کو اہل تشیع کی تکفیر و توہین سے باز نہیں رکھ پائے اور نہ ہی انہیں باز رکھنے کی کوئی کوشش کی۔ عالم اسلام کا درد دل رکھنے کی دعویداری کے باوجود بے گناہ معصوم مسلمانوں کے قاتل گروہوں سے اپنی زندگی میں کبھی اعلان برائت نہیں کر پائے۔  مولانا سمیع الحق پاکستان سمیت افغانستان اور دیگر ممالک میں اتنا اثرونفوذ رکھتے تھے کہ خطے میں پائیدار امن کے لئے ان کی رضامندی لازم سمجھی جاتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ سنکیانگ کے مسئلہ پہ چین کی بھی شدید خواہش تھی کہ مولانا وہاں سرگرم جہادیوں پرسکون رہنے کی تلقین فرمائیں۔

یہ امر باعث حیرت نہیں بلکہ مقام عبرت ہے کہ اتنی قوت و اثرورسوخ، تعلقات اور زیر اثر مسلح افرادی قوت ہونے کے باوجود مولانا کو انتہائی بیدردی کے ساتھ، تنہائی میں، کمال اطمینان سے قتل کیا گیا۔ مولانا سمیع الحق کے جسم کے مختلف حصوں میں خنجر یا چھرے کے ساتھ بارہ وار پتہ دیتے ہیں کہ قاتل ان سے شدید نفرت کرتے تھے، جبھی تو کبھی کندھے میں، کبھی سینے میں اور کبھی سر میں یکے بعد دیگر خنجر گھونپتے رہے، ورنہ 83 سالہ بزرگ جو کہ عارضہ قلب سمیت دیگر تکالیف سے نبرد آزما ہو، اس کے قتل کے لئے اتنی محنت تو غیر ضروری اور اضافی ہی ہوسکتی ہے۔  مولانا کے قاتلوں کو یہ اطمینان تھا کہ مولانا کے محافظوں سمیت کوئی بھی ان کے ہاتھ روکنے کے لئے نہیں آئے گا۔ قاتل مولانا سے نفرت کے باوجود اتنے پیشہ ور تھے کہ آخری لمحوں تک انہوں نے اپنے ارادوں کی بھنک مولانا کو نہیں ہونے دی، ورنہ مولانا سمیع الحق اپنے عملے کو گھر سے باہر بھیجتے ہی کیوں؟

قاتلوں کو مولانا سمیع الحق اور ان کے عملے کا اتنا اعتماد حاصل تھا کہ مولانا سے ملاقات سے قبل نہ ہی قاتلوں کی تلاشی لی گئی اور نہ ہی تنہا مولانا اور پورا گھر ان کے حوالے کرتے ہوئے کوئی تشویش محسوس کی گئی۔ ذاتی عملہ تو حکم کا غلام سہی، جو مولانا کے حکم پہ باہر چلا گیا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ان کی اپنی فیملی کا کوئی ایک بھی فرد بھی اس وقت موجود کیوں نہیں تھا، حالانکہ مولانا علیل بھی تھے اور اس روز باہر تحریک لبیک کے دھرنوں کے باعث راستے اور دفاتر بھی بند تھے۔  معروف حکایت ہے کہ ”اگر تم کسی طرف انگلی اٹھاؤ گے تو اس ایک انگلی کو چھوڑ کر باقی سب کا رخ تمہاری اپنی جانب ہوگا“ مولانا کے بیٹے نے اس قتل میں افغان حکومت کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔  راولپنڈی پولیس کے لئے یہ کیس چیلنج سے کم نہیں، اگر واقعات کی سادگی مدنظر رکھیں تو اے ایس آئی لیول کا اہلکار بھی ہفتے بھر میں قاتلوں کو اقرار جرم کے ساتھ آن حاضر کرے اور شخصیت کی حساسیت کو مدنظر رکھیں تو پاکستان میں ہونے والے دیگر ہائی پروفائل قتل کی طرح یہ قتل بھی ایک سوالیہ نشان بنکر یادداشت میں محفوظ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2