نذیر قیصر اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ۔۔۔


جب پیرس کے ژاں پال سارتر کو 1964 میں ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا کہ ’’ایک ادیب کو اپنے آپ کو ایک ادارہ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اوراپنی کامل آزادی برقرار کھنی چاہیے‘‘۔ میں آج سوچتا ہوں وہ کیسا دور تھا اور وہ کیا کیفیت رہی ہوگی جب ژاں پال سارتر نے دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ لینے سے انکار کیا ہوگا۔ دوسری طرف آج تو بڑے بڑے خدمت گزاروں یعنی فنکاروں اور فنونِ لطیفہ سے متعلق شخصیا ت کو ان کی زندگی میں ہی بھلا دیا جاتا ہے اور ہماری جہالت کا عالم اور بے بسی کی حد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے مرتے ہی ہم قصیدہ پڑھتے تھکتے نہیں اور ان کی زندگی میں ان کو پوچھتے نہیں،

آج میں ایک ایسی ہی ہستی کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جس کے بارے میں گذشتہ دنوں جیو ٹی وی کے ایک پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ میں جناب حسن نثار نے واشگاف الفاظ میں کچھ یوں کہا ’’دیکھو میرے ایک دوست ہیں ’نذیر قیصرـ‘ ان جیسا، ظفر اقبال کو چھوڑ کے، ان جیسا خوبصورت شاعر ہے ہی نہیں کیونکہ وہ ان کی طرح پی آر نہیں کرتا جن کو یہ تمغے حسنِ کارکردگیاں ملتے ہیں۔ اس بندے کو جو لاجواب شاعر ہے سالہا سال سے اس آدمی کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا رکھا ہے نذیرقیصر کو ہر سال اطلاع آتی ہے کہ اس سال ان کو تمغۂ حسنِ کارکردگی ملے گا مگر پھر کوئی سفارشی چمچے کڑچھے آجاتے ہیں، اسے نہ یہ ایوارڈ ملا ہے نہ ملے گا‘‘۔

جن الفاظ سے حسن نثار نے نذیرقیصر کی شاعری کااعتراف کیا ہے اسکے بعد کسی اور تعارف کی گنجائش نہیں رہ جاتی، منیرنیازی نے کہیں کہا تھا ’نذیر قیصر ایک ایسا شاعر ہے جو جس لفظ کو چھوتا ہے زندہ کر دیتا ہے’۔

منیر نیازی جیسا خودپسند شاعر اگر ایسی بات کہتا ہے تو ازحد حیرت ہوتی ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نذیر قیصر کے گھر مہمان تھا تو جدید شاعری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا میں شاعری اس کو مانتا ہوں کہ جب شاعر شعر سنائے تو سننے والوں کے ذہن میں تصویر بنے اور پھر میں نے اسی فلاسفی کو جیتے جاگتے ان کے کلام میں دیکھا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ۔ ۔

 سبز پنکھا ہے گھر میں نیم کا پیڑ

اوریہ پنکھا ہوا سے چلتا ہے

سیر کرتی ہے وہ حویلی میں

چاند بھی کھڑکیاں بدلتا ہے

ان کی تخلیقی عمل کی اس کیفیت کا اندازہ لگائیے۔ ۔ ۔

وہ دھوپ بن کر میرے ساتھ ساتھ چلتی تھی

میں سائے جوڑ کے شامیں بنایا کرتا تھا

عجیب شوق تھے میرے، میں گیلی مٹی سے

بنا بنا کے پرندے اُڑایا کرتا تھا

میری نذیر قیصر صاحب سے کوئی 25 برس سے دوستی ہے اور میں نے ان کے ساتھ کافی وقت گذارا ہے شاید اس سے کچھ زیادہ کیونکہ میں ان کے ہاں کئی کئی روز مہمان رہتا تھا۔ یوں میں نے ان کی قربت میں بہت وقت گزارا ہے اور میری دانست میں وہ ایک مخلص و ہمدرد انسان اور دوست ہیں وہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں ایک بات جو میں نے ان کے ساتھ رہ کر محسوس کی وہ یہ ہے کہ نذیر قیصر اپنی روزمرہ ز ندگی میں یعنی 24 گھنٹے میں بھی شاعر ہی ہے ان کا رہن سہن اور زندگی کے دیگر امور میں بھی وہ ایک شاعر ہی نظر آتاہے

حقیقی معنوں میں نذیر قیصر کو لازوال محبت کا شاعر مانتا ہوں جسے کبھی زوال نہیں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ دنیا میں ہر شے فانی ہے ماسوا محبت یعنی اگر محبت کو زوال نہیں تو محبت بانٹنے والوں کو زوال کیسے ہوسکتا ہے، اور ایک جگہ نذیر قیصر کہتے ہیں کہ’ دکھ یہ نہیں کہ آدمی مر جاتا ہے بلکہ دکھ یہ ہے کہ آدمی محبت کئے بغیر ہی مرجاتا ہے۔

چند ما ہ قبل جب میں پاکستان گیا تو میرے اعزاز میں ایک تقریب لوکل ٹی وی چینل(Isaac TV) پر ہوئی جس میں میرے کچھ اور ادبی دوستوں بھی شرکت کی تو میر ے ایک سنیئر رائٹر دوست خوبصورت افسانہ نگار آصف عمران نے اپنا افسانوی مجموعہ مجھے عنایت کیا تو ساتھ ایک اور کتابچہ بھی عنایت کیا جس کا نام ’خاموش ادب کا مقدمہ‘ پڑھ کر میں چونک گیا۔ دراصل یہ کتاب ایک تحریک کو جنم دیتی ہے۔ اس کتاب میں 46 نامور شخصیات نے نذیر قیصر کے وجود کو ایک برگد سے تشبیہ دی ہے ان ناموں میں فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، ظفر اقبال، امرتا پریتم، احمدندیم قاسمی اور پروین شاکر اور کئی دیگر نام شامل ہیں جن ذکر وقت اور طوالت کے باعث نہیں کر سکتا انہوں نے ہمارے عہد کے سب سے خوبصورت اور لاجواب شاعر نذیر قیصر کے ساتھ ہونے والی ادبی ناہمواریوں کا مقدمہ اردو ادب کے سنجیدہ قاری اور شعرو ادب و ثقافت اور خاص طور پر زبان سے پیار کرنے والوں کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ کیا خبر نئی حکومت کوئی نیا کارنامہ کردے کیونکہ اب تو سب نیا ہے نیا پا کستان، نیا وزیرِاعظم اس لئے تبدیلی تو آنی چاہیئے۔

خدا ہونے نہ ہونے میں کہیں ہے

کہ جیسے خواب سونے میں کہیں ہے

نظر پڑ جائے گی اک دن کسی کی

ہمارا نام کونے میں کہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).