میں نے آسیہ بی بی کو معاف کیا !


سچ کہوں تو مجھے چار دن پہلے تک یہ بھی یاد نہیں تھا کہ آسیہ نامی کوئی عیسائی خاتون توہینِ رسالت کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔ لہذا میری زندگی نارمل انداز میں گزر رہی تھی۔ میں تو چونکہ مذہبی انتہا پسند نہیں ہوں اس لئے شاید ابھی بہت سے لوگ میری تحریر پڑھ کر مجھ پہ برس پڑیں کہ آپ یہ اعلان کرنے والی کون ہوتی ہیں؟ تو مجھے ایسے انتہائی دیندار لوگوں سے پوچھنا ہے کہ کیا ان کے نوالے حلق میں اٹک رہے تھے کہ جب تک ”ملعونہ“ آسیہ بی بی کو قرار واقعی سزا نہ سنا دی جاتی؟ کیا دین اور نبی پاک ﷺ کی حرمت کے دفاع نے ان کی راتوں کی نیند اڑا رکھی تھی؟ نہیں جناب۔ آپ کو بھی میری طرح یاد نہیں تھا کہ آسیہ بی بی کو انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری ابھی باقی ہے۔ سو زندگی آپ کی بھی بڑے نارمل انداز میں گزر رہی تھی۔

اب جبکہ قانون نے ایک ملزم کو معقول شواہد کی غیر موجودگی کی وجہ سے اور گواہان کے بیانات میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی بخش دی تو ہمارا دین اچانک خطرے میں پڑ گیا۔ اب ہم ناموسِ رسالت ﷺ کی تکلیف میں مرے جا رہے ہیں۔ اب ہماری روٹی ہضم ہونا مشکل ہو گئی ہے۔ اب بے قراری کا یہ عالم ہے کہ جی چاہتا ہے سارے شہر کو آگ لگا دیں۔ جن کو اس بات کی خبر تک نہیں انھیں بھی چیخ چیخ کہ بتائیں کہ ہمارے اس نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی جو ایک زانیہ کے منہ سے بھی اقبالِ گناہ سنتا ہے تو درگزر اور معاف کرنے کی غرض سے منہ پھیر لیتا ہے کہ اس پہ سزا واجب نہ ہو جائے۔

آج ہم اسی پاک ہستی کے لئے ایک انتہائی عام ذہن کی دیہاتی اور علم سے بے بہرہ لڑکی کے کسی جھگڑے میں مبینہ طور پر کہے نازیبا الفاظ کہنے کا قصہ دہرائے جا رہے ہیں۔ دہرائے چلے جا رہے ہیں۔ جسے علم نہیں اسے بھی بتائے جا رہے ہیں۔ یعنی اس درگزر سے قطع نظر جو ہمارے نبی پاک ﷺ کا حسنِ خلق تھا، ہم خود پہ یہ حد لگائے جا رہے ہیں۔ اور اس ظلم اور اس گناہ سے بے خبر بھی ہیں۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ سزا اس کو ملے جس نے اس ظلم کا ارتکاب ایک بار کیا۔ اور ہم جو اس کو دہرا کر ہر  روز ظلم کر رہے ہیں، اس کا حساب کون دے گا؟

کاش کہ ہم اپنے رب سے، اپنے نبی پاک ﷺ سے خطاوئں اور گناہوں کی ”پردہ پوشی“ کرنے ایک وصف ہی سیکھ پاتے۔ کاش!

آج جب میرے ملک کی اعلٰی عدالت نے ٹھوس قانونی بنیادوں پر ایک انسان کو سزائے موت سے بچا کر زندگی عنایت کی تو ہمیں اس کا اطمینان نہیں۔ اور جب ایک نوجوان طالبِ علم پہ، سب عاشقانِ رسولﷺ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے، خونخوار درندوں کی طرح چڑھ دوڑے تھے، تو بڑا انصاف کر دکھایا تھا ہم نے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ سچ پوچھیے تو انسانیت صرف اسی دن نہیں، اس سے پہلے بھی کئی بار مر چکی ان ”نام نہاد“ صاحبان زہد کے ہاتھوں۔ اور ستم یہ کہ اس ظلم کو وابستہ کیا جاتا ہے اس مبارک ہستی کے ساتھ جو رحمۃاللعالمین ﷺ ہیں۔ جن کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ میں نے ابھی ایک ویڈیو میں جن بے راہرو نوجوانوں کو گاڑیوں پہ ڈنڈے برساتے، ٹرک کو آگ لگاتے اور گندی گالیاں دیتے سنا، وہ تو اس واقعے، اس کی سنجیدگی اور سب سے بڑھ کر اپنے نبی ﷺکی تعلیمات سے قطعی طور پہ نا بلد ہیں۔ میرے لئے ان کو ”عاشقانِ رسول ﷺ“ ماننا بھی محال ہے۔ یہ کیسی دین کی خدمت ہے؟ میرے نزدیک ایک مسلمان کی لا علمی اور جہالت کسی بھی غیر مسلم کی جہالت سے زیادہ مہلک ہے۔ لہذا میں نے آسیہ بی بی کو معاف کیا کیونکہ جو اس پہ انگلیاں اٹھا رہے ہیں مجھے ان کے کردار اور اعمال کو دیکھ کر زیادہ شرم اور تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔

میں نے آسیہ بی بی کو معاف کیا کیونکہ میرا دین درگزر اور معاف کر دینے کا دین ہے۔ میں نے آسیہ بی بی کو معاف کیا کیونکہ میں اپنے بچوں کے کان میں یہ بات پڑنے ہی نہیں دینا چاہتی کہ میرے نبی ﷺ کے بارے میں کوئی نازیبا کلمات سوچے یا کہے بھی جا سکتے ہیں۔ میں نے آسیہ بی بی کو اس لئے بھی معاف کیا کیونکہ میں یہ سمجھ سکتی ہوں کہ ہم میں سے کم ہی مسلمان ہیں جو عیسائیوں سے لے کر کچھ کھانا پینا پسند کرتے ہیں۔ اس بات سے اگر کسی عیسائی کی دل آزاری ہوئی تو وہ بالکل حق بجانب ہے۔ میں آسیہ بی بی کو اس لئے بھی معاف کرتی ہوں کہ بے چاری آج سے دس سال پہلے اس سے بھی کم عمر، کم علم اور کم حوصلہ ہو گی۔ اسے دینی برداشت اور رواداری کی کتنی تعلیم ہو گی؟ اس کا اندازہ لگانا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔

مجھے یقین ہے اگر وہ جانتی کہ نب ﷺ کی شان میں گستاخی کی سزا ہمارے قانون نے موت قائم کر رکھی ہے تو وہ ایسی غلطی کبھی نہ کرتی۔ ا س کو یہ بتانا کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا ہمارے معاشرے میں یہ ذمہ داری کوئی نبھا رہا ہے؟ مجھے تو اپنے ارد گرد بہتیرے مسلمان بھی اپنی لاعلمی اور کم علمی کے باعث یہ خطا کرتے نظر آتے ہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ تمام اعلی درجے کے مسلمان جو اپنے چہروں پہ داڑھی سجا کر دین کی معراج کو پہنچنے کے دعویدار ہیں۔ ان کے کردار میں کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر ایک غیر مسلم یہ سیکھے کہ یہ اُس نبی ﷺ کا امتی ہے جس کے لئے کوئی عبث بات سوچی تک نہیں جا سکتی؟

اور میں یہ بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ تمام ”اسلامی سکالرز“ جو پاکستان کی یونیورسٹیوں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں ڈگریال لے کر فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور پھر ان ڈگریوں کو ”جنت کے سرٹیفیکیٹ۔ “ سمجھ کر باقی سب پر ”کافر۔ “ اور ”جہنمی“ ہونے کے ”پرچے“ کاٹتے پھرتے ہیں۔ جو یہ بات بھولے ہوئے ہیں کہ دین میں تکبر کی کوئی گنجایش نہیں۔ دین میں آسانی پیدا کرنے اور لوگوں کو اس طرف مائل کرنے کی ذمہ داری اب ان کے کاندھوں پہ ہے، وہ سب کہاں ہیں؟ وہ ساری کی ساری کھیپ ہر سال کہاں غائب ہو جاتی ہے؟ مجھے تو بچوں کے تعلیمی نصاب سے لے کر اعلیٰ حکومتی انتظام تک کوئی ایک بھی اپنی یہ ذمہ داری نبھاتا نظر نہیں آتا۔ تو پھر جناب لاعلمی میں گستاخیاں تو ہوں گی۔ غیر مسلم سے بھی ہوں گی۔ اور مسلمان سے بھی ہوں گی۔ یہ پورا واقعہ اس بات کی ایک عملی تصویر ہے۔

میں تو اس لئے بھی آسیہ بی بی کو معاف کرتی ہوں کہ اس کو یہ علم نہ دینے کی کجی اور کو تاہی ہماری طرف سے ہوئی۔ قید میں ڈالنے کے بعد بھی کیا کسی نے دینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس کو اس بات کی تعلیم دے کر، معافی اور توبہ کی طرف مائل کیا؟ دس برس میں تو اسے نبی پاک ﷺ کی حسنِ سیرت اور دینِ اسلام کی وہ خوبیاں بتائی جانی چاہیئں تھیں کہ اس کی نگاہ میں ہمارے دین کی قدر و منزلت بڑھ جاتی۔ پر ہم ایسا نہ کر سکے۔ یہ ہماری ناکامی کی داستان ہے۔ میں اس لئے بھی آسیہ بی بی کو معاف کرتی ہوں کہ میں اس نا کامی پر ندامت کا اظہار کرتی ہوں۔

روزِ محشر جو رب نے سوال کیا تو سر جھکا کر، ہاتھ باندھ کر روتے ہوئے کہہ دوں گی ”یا اللہ، خطایئں ہم سے بہت ہوئیں، تو بخشنے والا مہربان ہے۔ مجھے بخش دے۔ اس عورت کی زندگی کے دس برس مجھ سمیت ہر مسلمان پہ قرض تھے جو اس نے اپنی اولاد کے سکھ کے ساتھ گزارنے کی بجائے سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ عدالت سے رہائی کے فیصلے کے بعد بھی اس نے جو دشنام طرازی سہی، میں اس کا بوجھ بھی اٹھا نہ سکتی تھی۔ لہذا میں نے اسے معاف کیا۔ میں نے اپنے نبی پاک ﷺ سے معاف کر دینا ہی سیکھا۔ سو میں نے آسیہ بی بی کو معاف کیا۔ “ اگر یہ میری خطا ہے تو اے ربِ کریم توُ مجھے معاف فرما دے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).