معروف داستان گو دانش حسین سے خصوصی مکالمہ


س۔ خیر یہ تو ہم لوگوں پر چھوڑتے ہیں۔ آپ نے ابھی فرمایا کہ آپ ہندوستان کے علاوہ بہت سے ممالک میں پرفارم کر چکے ہیں ظاہر ہے مختلف ممالک میں شائقین کا مزاج بھی مختلف ہوتا ہے تو کیا ہر ملک کے لئے مختلف داستانوں کا انتخاب کرتے ہیں؟

ج۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے جو چیز ہم ہندوستان میں کرتے رہے پاکستان میں ہی نہیں باقی ملکوں میں بھی وہی کرتے ہیں۔ چکر یہ ہے کہ یہ جو روایت داستان گوئی کی ہے یہ اس طرح سے صاف ہوئی کہ نہ صرف لوگ اس کے بارے میں بھول گئے کسی کو اس کے بارے میں علم ہی نہیں۔ اب آپ عام لوگوں کو تو چھوڑئیے محمود اور میں ہم دونوں خود ایک بہت لٹریری فیملی کے ساتھ تعلق ہیں ہمارے گھر میں لوگ اردو کے، فارسی کے پروفیسرز ہیں، رائٹرز ہیں، سکالرز ہیں، بہت مشہور مشہور لوگ ہیں۔

لیکن ہم جب بچپن میں بڑے ہو رہے تھے تو ہم نے کبھی داستان گوئی یا طلسم ہوش ربا یا اس قسم کی کوئی چیز نہیں سنی۔ وہ الگ بات ہے کہ جب ہم نے یہ کرنا شروع کیا ہم نے گھر میں جا کر پوچھنا شروع کیا کہ ارے بھئی یہ آپ لوگ نہیں جانتے تھے تو ہر آدمی یہ کہتا تھا کہ ہاں تو ہم جانتے ہیں اس میں کون سی بڑی بات ہے فلانے چچا نے تمہاری کتاب لکھی ہوئی ہے اس کے اوپر۔ فلانے دادا نے تمھارے یہ کیا ہوا ہے اس کے اوپر۔ تو وہ چیز تو ادب کا حصہ ہے بلکہ یہ دستور ہے ہمارے علاقے کا کہ کوئی آدمی بھی نیا کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پانچ آدمی کہتے ہیں کہ تم کوئی نیا کام نہیں کر رہے ہو ہم یہ سب کر چکے ہیں۔

میں غازی پور سے ہوں ایسٹرن یو پی سے ہوں گورکھ پور، غازی گڑھ، جون پور، اعظم گڑھ، خاص کر اُس خطے کی عادت ہے کہ کوئی آدمی جب نئی مہم شروع کرتا ہے تو دو تین آدمی بتاتے ہیں یہ ہمارے خاندان میں میں پہلے ہی ہو چکا ہے۔ تو تب ہمیں پتہ لگا کہ بھئی کوئی ایسی چیز بھی ہوتی ہے تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے اب تو خیر ماشاءاللٰہ ایسی نوعیت نہیں ہے ہم اتنی اردو داستان گوئی کر چکے ہیں کہ زیا دہ تر لوگوں کو معلوم ہے کہ داستان گوئی کیا ہے؟ پر شروع کے چار پانچ چھے سال ہم کو گروپ میں پندرہ بیس باربتانا پڑتا تھا تمہید دینا پڑتی تھی کہ بھئی ہم کون لوگ ہیں؟ داستان امیر حمزہ کیا چیز ہے؟ طلسم ہوش ربا کیا چیز ہے؟ افراسیاب کیا ہے؟ سحری کیا ہے؟ عیاری کیا ہے؟ صاحب کرانی کیا ہے؟ یہ سب ہمیں سمجھانا پڑتا تھا بیس منٹ میں تو اس کے بعد جب ایک میدان سیٹ اپ ہو جاتا تھا تب ہم اُترتے تھے کہانی سنانے کے لئے۔

اب یہ ہو گیا کہ اتنی داستان کر لی کہ بہت سے شائقین بار بار دیکھنے آتے ہیں۔ بہت سے لوگ دیکھ چکے ہیں اس کے علاوہ داستان گوئی کے، داستان امیر حمزہ کے، طلسم ہوش ربا کے کچھ ترجمے ہو چکے ہیں انگریزی میں بھی آ چکے ہیں اردو میں بھی دوبارہ ایڈٹ ہو کے آ چکی ہیں چیزیں۔ لوگ واقف ہو چکے ہیں لٹریچر فیسٹیول میں اس پر گفتگو ہو چکی ہے پرفارمنسز ہو چکی ہیں تو لوگ تھوڑا واقف ہیں تو اب ذرا اتنا سمجھانا نہیں پڑتا سیدھی اب ہم پرفارمنس کرنے اتر جاتے ہیں۔

لیکن ایک ہی مضمون اداکاری کے لحاظ سے بدل جائے یا شائقین کے لحاظ سے بدل جائے ایسی کچھ ضرورت نہیں پڑی ابھی۔ اب ہو سکتا ہے کہ آج سے پانچ سال بعد دس سال بعد اگر ہم اس معیار پر اس مقام پر پہنچ جائیں اس طرح کا عبور ہمیں زبان پر اور مواد پر اور سیاق و سباق پرآ جائے کہ ہم یہاں پہنچیں جو موجودہ حالات ہیں یہاں کے اُسی وقت فی البدیہہ کوئی داستان اس پر کہہ دیں یا کوئی جملہ اس پر جوڑ دیں یا کوئی شاعری اس کے اندر لے آئیں تو دیکھیے یہ تو اب ہمارے اوپر ہے کہ ہم کتنے صحیح نکلتے ہیں اور ہم کتنی محنت کرتے ہیں کہ ہم وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

س۔ دانش آپ ایک اور صاحب کے ساتھ مل کر داستان گوئی کرتے ہیں اس کے لئے اپنے ساتھی کے ساتھ ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے اس کے علاوہ داستان گو کا حافظہ بھی قابلِ رشک ہونا چاہیے تو یہ فرمائیے کہ کیا قدیم داستان گوئی بھی اسی طرح ہوتی تھی؟ اور کیا مستقبل میں تین داستان گو کی اکٹھی پرفارمنس کی گنجائش بھی بن سکے گی؟ یا داستان گوئی صرف ایک یا دو افراد کی پرفارمنس تک محدود رہے گی؟

ج۔ دیکھئے جو روایتی داستان گوئی ہوا کرتی تھی مسئلہ یہ ہے کہ داستانیں تو منشی نول کشور صاحب کی وجہ سے بچ گئیں کیونکہ انہوں نے 46 جلدیں داستان امیر حمزہ تو چھپوا دیں تو یہاں جو کہانیوں کا جو ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے وہ بچ کر ہم تک پہنچ گیا لیکن داستانیں ہوتی کیسے تھیں؟ اس کی تیاری کس طرح سے کی جاتی تھی؟ استاد اور شاگرد ان کے اندر کیا سلسلہ ہوتا تھا؟ اس کے اوپر کوئی خاص ہمیں لٹریچر نہیں ملتا اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک بڑا مغربی طرز کا ہے کہ جہاں آپ یا تو اس میدان میں گہری تحقیق کریں مغرب میں لکھے گئے تحقیقی مقالے پڑھیں یا آپ کسی مغربی داستان گو سے مدد لیں۔

 ۔ ہمارے ہاں یہ دستور نہیں ہے ہمارے ہاں تو ہوتا تھا کہ آپ اگر کسی فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کسی کے شاگرد ہو جائیں اور اس کے اندر آپ رم جائیں اور رم کے بعد پھر آپ ٰInsider ہو کر ہی باہر آئیں گے تو پھرجب آپ Insider ہو جائیں گے تو آپ اپنے راز کھولیں گے ہی نہیں آپ استاد ہیں اب اگر کوئی اور آپ سے راز لینا چاہتا ہے تو اس کو بھی Insider بننا پڑے گا تو یہ چیز بڑی مغربی انداز کی بات ہے۔ کیونکہ مشرق میں یہ بہت کم ہوتا ہے کہ آپ بغیر اُستاد صرف اپنی محنت، لگن اور جہدِ مسلسل کے ذریعے فنونِ لطیفہ کے کسی میدان میں کامیابی حاصل کر لیں۔

 تو کیونکہ یہ ہمارے ہاں دستور نہیں تھا ہمارے ہاں تو بہت کم لٹریچر ملے گا جہاں پر آدمی بات کر رہا ہے کہ کوئی چیز ہوتی کیسے تھی۔ ہے نا؟ نظمیں لکھی جا رہی ہیں استاد کے بعد شاگرد لکھ رہا ہے۔ وہ چل رہا ہے موسیقی کے میدان میں ایک کے بعد دوسرا گوّیا آ رہا ہے اور وہ سلسلہ چل رہا ہے لیکن اُس کی تربیت کیسے ہو گی اس پر کوئی نہیں آپ کو پتہ لگے گا بہت تھوڑی کتابیں آپ کو مل جائیں گی کہ صاحب آلاتِ موسیقی کتنی طرح کے تھے۔ یا کتنی طرح کی مدرائیں تھیں۔

وہ دو چار لوگوں نے کچھ لکھ دیا تو لکھ دیا لیکن ایسی آ پکو کوئی تفصیلاً محققانہ مواد آپ کو نہیں ملے گا تو اس کی وجہ سے کیا ہوا کہ ہم ایک ایسے مقام پر آ گئے جہان اس فن سے متعلق کچھ تحقیقی مواد آپ کو نہیں ملتا۔ جس کے بل بوتے پر ہم کہہ سکیں کہ ہاں بھائی پرانے زمانے میں داستان گوئی یوں تیار کرتے تھے، ایسے بولتے تھے یہ ہمیں نہیں ملتا لیکن جتنا بھی ہم کو لٹریچر ملتا ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک داستان گو اکیلے سنایا کرتا تھا ابھی کیا ہے کہ یہ محمود کی اختراع ہے کہ محمود نے ایک کی بجائے دو داستان گو کر دیے تاکہ اسٹیج پر یکسانیت کے خاتمے کے لئے دو افراد ہوں جو اپنے اپنے داستان گوئی کے منفرد انداز سے شائقین کو محظوظ کر سکیں اور اس میں شائقین کے لئے بھی ریلیف ہے کہ بھئی ایک آدمی سنا رہا ہے اب ہر آدمی کی آواز جو ہے نا وہ سریلی نہیں ہوتی نا کچھ مجھ جیسے کرخت آواز والے بھی ہوتے ہیں تو کتنی دیر تک میری آواز کی مار کھائیں گے تو وہ ان کو اچانک دارین یا  محمود نے اُن کو اپنی میٹھی آواز میں کچھ سنانا شروع کیا تو میں نے کہا کہ چلو بھئی اب دس منٹ تک ان کی آواز سنئیے گا اب دس منٹ کے بعد واپس میری کرخت آواز سنئیے گا تو یہ تھوڑا تنوع مل جاتا ہے آرام مل جاتا ہے ہم کو بھی بطور فنکارملتا ہے کہ ہم کو معلوم ہے کہ بھئی اب یہ پانچ منٹ یہ سنبھال رہے ہیں۔

 اب یہ سانس وانس لے لو پیر ویر سیدھا کر لو پانچ منٹ کے بعد پھر جنگ میں اترنا ہے یہ تھوڑا ایک اختراع ہے۔ جہاں تک بات آپ کی ہے کہ بھئی تین ہو سکتے ہیں چار ہو سکتے ہیں یہ میں نہیں جانتا کیونکہ ابھی جس طرح سے فارمیٹ ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت مکمل فارمیٹ ہے دو آدمی سنا رہے ہیں مجھے بہت مکمل لگتا ہے مجھے لگتا ہے کہ ایک طرح سے مکمل ڈھانچہ ہے، اس میں کچھ اضافہ کرنا ہے پھر وہ تھیٹر ہو جائے گا اگر تین آدمی آ گئے اسٹیج پر چار آدمی آ گئے پھر وہ Proscenium ہو رہا ہے وہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ داستان گوئی رہ جائے گی ایک طرح سے تھیٹریائی پیشکش ہو جائے گی اور ابھی نقل و حمل کے حوالے سے بھی یہ ہمیں بہت سوٹ کرتا ہے کیونکہ ابھی تو ہم صرف دو افراد داستان گوئی کے لئے دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جاتے ہیں تو منتظمین کے لئے بھی ہمیں دعوت دینا بہت آسان ہے۔

 اب میں تو کہوں گا کہ بھئی پانچ آدمیوں کا طائفہ ہے تو ان کا خرچہ بھی بڑھ جائے گا تو وہ ویسے ہی بدک جائیں گے کہیں گے چھوڑیں یار آپ کو کیا بلانا ایک تو ان کا بڑا خرچہ ہو گا پانچ آدمیوں کو بلانے کے لئے۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ دو آدمی آئیں گے تو ان کو لگتا ہے کہ ہاں چلو ممکن ہے تو مجھے یہ نہیں لگتا کہ یہ Form جو ہے وہ کچھ خاص ابھی فی الحال بدلنے والا ہے ہاں تجربات ہو سکتے ہیں۔ چاہے وہ میں خود ہوں چاہے محمود ہوں یا کوئی اور تھیٹر ڈائریکٹر ہو ہندوستان میں وہ یہ کرے کہ وہ داستان گوئی کو وسیع پیمانے پر ایک تھیٹریکل پیشکش میں بدل دیں۔ تو کیا بھئی دو داستان گو آئیں بیچ میں اور انہوں نے کچھ سنایا اوراچانک کچھ باجا بجایا کچھ بگل بجایا اور لائٹ آئی اور ادھر سے ایک ڈانسر شروع ہو گیا اور دو چار آدمیوں نے آکر کچھ ادھر سے ایک اور اپنا مکالمہ شروع کر دیا تو یہ تجربہ کیا جا سکتا ہے دیکھئے کہاں جاتی ہے بات۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz