لاہور کھو رہا ہے

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


ہفتے بھر سے زیادہ ہو گیا، لاہور ایک بار پھر زہریلی سموگ کے غلاف میں چھپا ہوا ہے۔ دن نکلتا ہے مگر ہوا میں زہر سا پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سانس کے ساتھ جیسے کانچ کی نادیدہ کرچیاں سی گلے کو کاٹتی پھیپھڑوں تک چلی جاتی ہیں۔ آنکھوں میں جلن اور گلے میں خراش سے ہر شخص پریشان ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کا یہ شاخسانہ ہم گزشتہ کئی برس سے بھگت رہے ہیں لیکن اب بھی ہمیں اس کی کچھ خاص پروا نہیں۔

بات نکلتی ہے تو، بارش کی دعا پر آٹکتی ہے، لطیفے شروع ہو جاتے ہیں، تصوف کی دنیا کے واقعات نکل آتے ہیں، مغرب کی اندھی تقلید پر بات ہوتی ہے، معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کا ذکر ہوتا ہے اور تان ٹی وی ڈراموں میں دکھائی جانے والی بے شرمیوں پر ٹوٹتی ہے۔

اصل بات یعنی ماحولیاتی آلودگی کا ذکر سب ہی گول کر جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج فضائی طور پر دنیا بھر کے سب سے آلودہ شہر میں رہنے کے باوجود ہمیں آلودگی کے بارے میں کچھ خاص فکر نہیں۔

وجوہات بے شمار ہیں، ایک بڑی وجہ تو یہ کہ ہم نے اپنی نسلوں کو تعلیم دیتے ہوئے یہ قسم کھائی تھی کہ ہر وہ بات جن سے عملی زندگی میں ان کا سابقہ پڑنا ہے، کسی بھی صورت ان کے کان سے نہ گزرے۔

زمانے بھر کی ردی صرف اس خیال میں ذہنوں میں ٹھونس دی جاتی ہے کہ سلیبس میں یہ ہی ہونا چاہیے۔ ماحول کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں۔

لاہور آلودگی

آج اس زہریلے لاہور ہی میں سموگ سے سیاہ پڑتی ایک شام میں ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔

سب ہی نزلے زکام اور کھانسی سے جھوجھ رہے تھے۔ ڈینگی سے ڈرے ہوئے تھے اور کورونا کے بڑھتے کیسز سے خائف تھے۔

گفتگو میں سارا زور اس بات پر تھا کہ حکومت کا مشہور زمانہ ’ایک پیج‘ سلامت ہے کہ نہیں۔

سموگ کا زہر پھیپھڑوں میں جم رہا تھا اور اپنے اپنے لیڈر کی نجی، رومانوی اور شادی شدہ زندگی کو بچا کر دوسرے کے لیڈر کی نجی زندگی پر کیچڑ اچھالنے پر زور تھا۔

درختوں کے پتوں پر گرد تھی اور باربی کیو کا دھواں مزید دم گھونٹ رہا تھا۔ کسی کو دانشور بننے کی سوجھی تو اس نے چلانا شروع کر دیا کہ ہمیں اسلامی تاریخ بھی غلط پڑھائی گئی اور لیڈی ماونٹ بیٹن ایک ایجنٹ تھیں۔

سموگ کے گاڑھے گاڑھے بادل گہرے سے گہرے ہوتے جا رہے تھے میں نے ایک صاحب سے جو ذرا معقول معلوم ہو رہے تھے پوچھا کہ سموگ کی کیا وجہ ہے؟

ذرا دیر تو اپنے مشروب کو گھورتے رہے پھر گہرا سانس بھر کے بولے’بی بی ! یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔‘

سموگ مزید گہری ہو رہی ہے اور نجانے کتنے روز تک ہم پر مسلط رہے گی۔ لاہور کا خط افقی جس میں، بادشاہی مسجد کے گنبد، کیتھیڈرل کے نوکدار مینار، اونچے پلازے اور چوبرجی کی برجیاں نظر آتی تھیں، اب آہستہ آہستہ کٹھالی میں پڑے سونے کی طرح اس سموگ میں گھل رہا ہے۔

لگتا ہے لاہور سموگ کے اس سمندر میں ڈوب جائے گا، ہم ڈوبتے ڈوبتے بھی اپنے اپنے لیڈران کرام کو بدنامی کے منجدھار سے نکال کے نیک نامی کے ساحلوں کی طرف اچھالتے رہیں گے۔

وہی لیڈر جنھیں بالکل فکر نہیں کہ لاہور سموگ میں کھو رہا ہے۔ عوام ہوں تو ایسے، لیڈر ہوں تو ایسے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments