ذیابیطس کے مریضوں کا ایرانی محسن ڈاکٹر سیمیول رہبر


جیسا کہ آپ جانتی/جانتے ہیں، میں ‌ ذیابیطس کے مریض‌ روز دیکھتی ہوں۔ ہمارے آفس میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی چیک کرنے کی ایک مشین ہے جو تین منٹ میں ‌ اے ون سی بتا دیتی ہے۔ جس طرح‌ انگلی کو چبھو کر خون کا قطرہ نکالتے ہیں ‌ اور اس کو گلوکومیٹر کی ٹیسٹ سٹرپ پر لگاتے ہیں، بالکل اسی طرح‌ ہیموگلوبن اے ون سی مشین کی کارٹریج میں ‌ یہ خون کا قطرہ لگا کر اے ون سی کا لیول چیک کیا جاتا ہے۔ اس مشین کی کمپنی نے ہمیں ‌ یہ مشین مفت استعمال کرنے کے لیے دی ہے بشرطیہ کہ ہم ایک مہینے میں ‌ کم از کم 20 کارٹرجز ان سے خریدیں۔ ہیموگلوبن اے ون سی کو چیک کرنا اتنا آسان راتوں ‌ رات نہیں ‌ ہوا۔ اس میں ‌ ان گنت سائنسدانوں ‌ کی انتھک محنت کا ہاتھ ہے۔ ہیموگلوبن اے ون سی دریافت کرنے پر ایرانی ڈاکٹر سیمیول رہبر کو امریکن ذیابیطس اسوسی ایشن نے ایوارڈ سے نوازا۔

کبھی کبھار ایک سائنسی ایجاد خود اپنا انعام ہوتی ہے۔ ڈاکٹر رہبر وہ انسان ہیں ‌ جنہوں ‌ نے ذیابیطس کے مریضوں ‌ میں ‌ 1968 میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی کی موجودگی دریافت کی۔ اس اہم ایجاد کو یک دم پزیرائی نہیں ‌ ملی جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔ لیکن اگلی دو دہائیوں ‌ میں ‌ ڈاکٹرز کو یہ اندازہ ہوا کہ ہیموگلوبن اے سی کو استعمال کرکے وہ اپنے مریضوں ‌ کا بہتر طریقے سے علاج کرسکتے ہیں۔ آج ہم جو کچھ بھی ذیابیطس کے بارے میں ‌ اس پر کی گئی ریسرچ سے جانتے ہیں اس میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی کا بڑا ہاتھ ہے۔ آپ میں ‌ سے جن لوگوں ‌ نے یوکے پی ڈی ایس کے ریسرچ پیپرز پڑھے ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہیموگلوبن اے ون سی سے ملنے والی انفارمیشن کو استعمال کرکے یہ معلوم کیا گیا کہ ذیابیطس کا کنٹرول بہتر کرنے سے اس کی پیچیدگیوں ‌ میں ‌ کمی واقع ہوتی ہے۔

ڈاکٹر رہبر 1929 میں ‌ تہران میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ماں ایک فرانسسی اسکول میں ‌ ٹیچر تھیں اور ان کے والد کی کپڑے بیچنے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کے سات بچوں ‌ میں ‌ سب سے چھوٹے تھے۔ کہتے ہیں ‌ کہ ہماری ماں ہمارے گھر کا ستون تھیں۔ ڈاکٹر رہبر اور ان کے بہن بھائیوں ‌ نے اپنی ماں ‌ کی حوصلہ افزائی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ماں کا تعلیم یافتہ ہونا اور اپنے پیروں ‌ پر کھڑا ہونا نہایت اہم ہے۔

اس لیے یہ مضمون پڑھنے والے افراد چاہے کچھ بھی کرتے ہوں، آپ لوگوں ‌ کو اپنی بیویوں ‌ کی تعلیم کو سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ اس سے آنے والا کل بہتر ہوسکے۔ کوئی بھی کام برا یا چھوٹا نہیں ہوتا، صرف جرم کرکے پیسے کمانا برا ہوتا ہے۔ میں ‌ اپنے خاندان کی تاریخ‌ سے یہ بتا سکتی ہوں ‌ کہ اگر میری نانی تعلیم یافتہ نہ ہوتیں ‌ تو آج ہمارا حال کچھ مختلف ہوتا۔ دیکھیے کیسے ایک چھوٹے سے نیم کی چاڑی سکھر کے گھر سے نکل کر حبیب ماموں پاکستان کے پہلے انگلش کے پی ایچ ڈی بن گئے۔

ڈاکٹر رہبر نے میڈیکل کی ڈگری تہران یونیورسٹی سے حاصل کی جہاں ‌ وہ مزید تعلیم حاصل کرتے رہے۔ یہ 1960 کی دہائی تھی اور مالیکیولر بایولوجی کے میدان میں ‌ ہیموگلوبن پر بہت ریسرچ ہورہی تھی۔ ڈاکٹر رہبر نے 1962 میں ‌ اپنی فیلوشپ شروع کی اور ان کا امیونوگلابیولنز پر تحقیق کا ارادہ تھا لیکن اپنی فیلوشپ شروع کرنے کے بعد وہ پروٹین کی ساخت کے بارے میں ‌ پرتجسس ہوگئے۔ انہوں ‌ نے ہیموگوبن کے مالیکیول پر تحقیق شروع کی جو کہ ایسا مالیکیول ہے جو باآسانی دستیاب ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں خون کے سرخ جسیموں ‌ کا 97 % حصہ ہیموگلوبن پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیموگلوبن ان پروٹین مالیکیولز میں ‌ شامل ہے جن کی ساخت اس فیلڈ میں ‌ تحقیق سے شروع میں ‌ معلوم کرلی گئی جس کی وجہ سے اس کا کام سمجھنے میں ‌ مدد ملی۔ لینس پالنگ اس پر ایک اور زاویے سے کام کررہے تھے اور انہوں ‌ نے دریافت کیا کہ سکل سیل انیمیا کے مریضوں ‌ میں ‌ موجود ہیموگلوبن کی ساخت صحت مند افراد میں ‌ پائے جانے والی ہیموگلوبن سے مختلف ہوتی ہے۔ سکل سیل انیمیا ان جینیاتی بیماریوں ‌ میں ‌ سے ایک ہے جن کو اس دائرے میں ‌ ریسرچ سے شروع میں ‌ سمجھا گیا۔ سکل سیل انیمیا میں ‌ پائی جانے والی ہیموگلوبن کی دریافت کے بعد ہیموگلوبن کی مختلف اقسام کو دریافت کرنے اور ان کو سمجھنے کی کاوشوں ‌ میں ‌ اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر رہبر کے بھائی کو خون کا کینسر ہوگیا تھا جن کا اسرائیلی ہسپتال میں ‌ علاج ہورہا تھا۔ اتفاق سے کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہرمن لیھمن جن کو ڈاکٹر رہبر بہت پسند کرتے تھے، اسرائیل میں لیکچر دینے آئے۔ ڈاکٹر رہبر نے یہ لیکچر سنا اور اس کے بعد ڈاکٹر لیھمن سے ریسرچ کے میدان میں ‌ اپنی دلچسپی سے متعلق بات چیت کی۔ ڈاکٹر لیھمن نے ڈاکٹر رہبر کو دعوت دی کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں ‌ اس تحقیق کے لیے کچھ گرمیوں ‌ کی چھٹیاں گزاریں۔

ڈاکٹر رہبر نے یہ دعوت فوراً قبول کرلی۔ ڈاکٹر لیھمن سمجھتے تھے کہ ایران ہیموگلوبن کی ریسرچ کے لیے ایک بہترین جگہ ہے کیونکہ وہاں ‌ مختلف نسلوں ‌ کے لوگ بستے تھے۔ کچھ قبائل ایسے بھی تھے جو دور دراز علاقوں میں ‌ بستے تھے۔ انہوں ‌ نے ڈاکٹر رہبر کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تہران یونیورسٹی میں ‌ ایک ریسرچ یونٹ قائم کریں۔ وہ واپس آئے اور ایران میں ‌ یہ ریسرچ یونٹ بنایا۔ اس وقت ہیموگلوبن کو ماپنے کے لیے الیکٹروفوریسس کا طریقہ استعمال ہوتا تھا جس سے ہیموگلوبن کی مختلف اقسام کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔

اس میدان میں ‌ ریسرچ جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر رہبر اور ان کی ٹیم دن میں ‌ 300 خون کے نمونے چیک کرتے جہاں ‌ ان کی لیبارٹری ایک فیکٹری کی طرح‌ مصروف تھی اور انہوں ‌ نے کچھ دلچسپ مشاہدات کیے جن میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی ساخت کو سمجھنا شامل تھا۔ کوئی پانچ چھ سال تک کوئی ہیموگلوبن اے ون سی کی اہمیت کو نہیں سمجھا لیکن یہ آگے جاکر بہت اہمیت کی حامل پائی گئی۔ چوہوں ‌ اور انسانوں ‌ میں ‌ کی گئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی کہ ذیابیطس میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی کا لیول بڑھ جاتا ہے۔

1996 میں ‌ ہولمکوسٹ اور شروڈر نے ہیموگلوبن کی پانچ اقسام دریافت کیں جن میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی شامل ہے۔ 1968 میں ‌ ڈاکٹر رہبر نے یہ دریافت کیا کہ ذیابیطس کے مریضوں ‌ میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ 1993 میں ‌ ہیموگلوبن اے ون سی کے لیول کو ذیابیطس کے میدان میں ‌ ریسرچ کے لیے استعمال کیا جانے لگا جس سے ہماری معلومات میں ‌ اضافہ ہوا اور ہمیں ‌ معلوم ہوا کہ ذیابیطس کا کنٹرول بگڑنے سے اس کی پیچیدگیاں ‌ پیدا ہوتی ہیں۔ ہیموگلوبن اے ون کے مالیکیول کے بغیر یہ تحقیق ممکن نہیں ‌ تھی کہ ذیابیطس کے بہتر کنٹرول سے اس کی پیچیدگیوں ‌ سے بچا جاسکتا ہے۔

ایرانی انقلاب میں ‌ ڈاکٹر رہبر پر شاہ کی فیملی سے قریب ہونے کا الزام لگایا گیا اور ان کو تہران یونیورسٹی میں ‌ پروفیسر کی نوکری سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اپنی بیوی اور تین بیٹیوں ‌ کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگئے جہاں ‌ انہوں ‌ نے کیلیفورنیا میں ‌ تیس سال سے زیادہ عرصے تک اپنی تحقیق اور کام کو جاری رکھا۔ وہ صبح‌ سویرے اٹھ جاتے اور اپنی لیبارٹری میں ‌ کام شروع کردیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کام نہیں میرا شوق اور جذبہ ہے۔ آج وہ اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ میں ‌ ایک نمایاں پروفیسر مانے جاتے ہیں۔ چند سال پہلے ان کی وفات ہوئی۔ 2012 میں ‌ امریکن ذیابیطس ایسوسی ایشن کی بہترویں کانفرنس میں ‌ ان کو سیمیول رہبر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حاضرین میں ‌ ان کی بیوی، بیٹیاں، ان کے داماد اور نواسے نواسیاں موجود تھے۔

جو ممالک تعلیم یافتہ شہریوں ‌ کی عزت کرتے ہیں ‌ اور سائنس اور انسانی خدمت کے میدان میں ‌ سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہی آج کی دنیا میں ‌ آگے ہیں۔ ڈاکٹر رہبر کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).