دکان رمضان…  طلب، رسد اور دیگر معاشی اشاریے


\"farnood\"اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں نشست ہوئی۔ ذرائع ابلاغ کا کردار زیر بحث تھا۔ مائیک پہ موجود مہمان نے گفتگو ختم کی تو ترنت ایک دل جلے نے سوال کیا

’’محرم کے پورے مہینے میں مجلسیں نوحے مرثیئے ہمیں صبح شام سنائے جاتے ہیں، مگر جب دیگر خلفائے راشدین کے ایام وفات آتے ہیں تو پانچ منٹ کے ایک پیکج پہ ہمیں ٹرخا دیا جاتا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘‘

مہمان نے جوجواب دیا سو دیا، مگر کچھ کہے بغیر ہم بھی نہ رہ سکے۔

عرض کیا کہ۔!

بھئی ہمیں ایک حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ میڈیا مالکان میں شاید ہی کوئی ہو جو اہل بیت کی محبت میں پگھلا جارہا ہو۔ بات فقط اتنی ہے کہ حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ کے فضائل میڈیا ہاؤسز کو بزنس دے رہے ہیں۔ کیا حضرت عمرؓ کے فضائل بزنس دیتے ہیں؟ حضرت ابو بکرؓکی شان بیان کرنے سے روپے دو روپے کا کوئی فائدہ؟ حضرت عثمانؓ کے مناقب سے پیسے دو پیسے کا کوئی منافع؟ نہیں نا۔؟ تو سوداگرانِ ابلاغ ایک خسارے کا سودا کیوں کریں گے؟ فرض کیجیے کہ کل حضرت حسینؓ کے مبارک ذکر نے بزنس دینا چھوڑ دیا، حضرت عمرؓ کے فضائل نے منافع دینا شروع کردیا تو؟ کیا پھر بھی حضرت حسینؓ کیلیے کیمرے کی آنکھ میں اتنا ہی درد ہوگا؟ آپ دیکھیں گے کہ حضرات حسنین کریمین امام باڑوں تک محدود ہوجائیں گے اور حضرت عمرؓ کی شان ٹی وی کے ہر دوسرے پروگرام میں بول رہی ہوگی۔ عقیدت کے نہیں، یہ حقیقت کے معاملات ہیں۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ کاروباری کو کاروبار سے مطلب ہوتا ہے۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو مرے گا۔ یہاں اپنا کام پورا تیل لینے جائے نورا کا چلن عام ہے۔ آپ اس حقیقت کا ادراک کرلیں تو خود آپ سمجھ پائیں گے کہ ہم نے کہاں سے کھڑے ہوکر کہاں کو کھیلنا ہے۔

بات پتہ ہے کیا۔؟

مذہب فروشی سے بڑھ کر کوئی منافع بخش کاروبار کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ سرمایہ کچھ بھی نہیں، منافع سو فیصد۔ ہلدی اور پھٹکری کچھ نہیں لگتا، رنگ چوکھا۔ کچھ عقیدت اور پھر ہماری عقیدت۔؟ اللہ اللہ۔ کسی بھی شعبدے باز کے سامنے سر ہلاتے پھریں گے۔ پیر عدنان شاہ بھی ڈی چوک پہ سیٹی مارے تو راسخین کے قافلے امڈ آئیں گے۔ بشیر اپنے مٹی کے دیئے تک بیچ دے گا مگر پیر کا گھر بجلی کے چراغوں سے روشن رکھے گا۔ ہمارے ہاں مسلکوں کے نمائندہ چہرے کون سے ہیں؟ ایک مکتب فکر کو حلق پھاڑ خطیبوں اور بے روزگار عاملوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایک مکتب فکر بے رنگ ذاکروں اور بے ڈھنگ مرثیہ خوانوں کے شکنجے میں ہے۔ ایک مکتب فکر رنگین و نستعلیق نعت خوانوں اور پان مارکہ قوالوں کے نرغے میں ہے۔ ایک مکتب فکر کو تو خیر سے شاہ کے ان مشک آفرین مصاحبوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے جن کی کل صلاحیت سرزمینِ حجاز سے چندہ اکٹھا کرنا ہے۔ یہ کاروباری طبقہ ہے جن کا کاروبار سال کے بارہ مہینے دم بدم اللہ ھو چل رہا ہوتا ہے۔ مگر محرم ربیع الاول اور رمضان المبارک سیزن کے مہینے ہوتے ہیں۔ اس سیزن میں مذہب کا بیوپار انہی کے سر ہوتا ہے جن کے سر فقط شوخ رنگ دستار لپیٹنے کے کام آتے ہیں۔

خود بتلایئے۔!

جب آیات و احادیث تفسیر و تشریح نوحہ و مرثیہ نعت و قوالی اور اوراد و وظائف کے مینا بازار میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہو تو ٹی وی کا مالک بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز کیوں کرے؟ جس منافع کے لیے اسے اربوں جھونکنے پڑتے ہیں وہی منافع اگر صرف ایک جھپٹے سے مل رہا ہو تو وہ کیوں نہ جھپٹے؟ عقلمندی کا تقاضا ہی تو تھا کہ اس نے مقفی ومسجع ملا کے واسطے رنگا رنگ آستانے اسکرین پہ سجا دیئے۔ انہی آستانوں میں برکت کے واسطے کبھی کچھ مستند علمائے کرام کو بھی بلا لیا جاتا ہے مگر خسارے میں یہی غریب ہوتے ہیں۔ حلق ان کے خشک ہوجاتے ہیں اور مٹھی کلف بردار نیم ملا کی گرم ہو جاتی ہے۔

معاملہ ہے کیا۔؟

معاملہ مقابلے کا ہے۔ مقابلہ پھر کانٹے کا ہے۔ مذہب کے چورن فروشوں کو میڈیا کی زنبیلیں ہلکی کرتے دیکھ کر اداکاروں اور فنکاروں کی رال ٹپکنے لگی۔ وہ لوگ جو صبح شام پندار کے صنم کدے میں بیٹھے مذھب فروشی پہ ٹسوے بہایا کرتے تھے وہ بھی پائنچے چڑھا کے چلے آئے کہ آؤ آؤ کھجوریں بٹ رہی ہیں ہم پیچھے کیوں رہیں۔ جن اداکاروں کو ایک ماہ کی چھٹی ملی وہ زبان پہ تسنیم و کوثر کا ذکر لئے افطار ٹرانسمیشن میں خیرات بانٹنے چلے آئے۔ جن اداکاراؤں کے مارننگ شوز کی بتیاں ایک ماہ کیلیے بجھی انہوں نے بھی کمر کی لچک ایک طرف رکھی، دامن چار انچ بڑھالیا، آستین میں سانپ کے لیے گنجائش نکالی، دوپٹہ چونسٹھ پہ کھینچا اور پارسائی کے سرکس میں چلی آئیں۔ یہاں بیٹھ کے وہ خود رو رہی ہوتی ہیں، ہمیں ہنسا رہی ہوتی ہیں۔ خود پہ رقت اور ہم پہ دقت طاری کررہی ہوتی ہیں۔ مقابلہ تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے بھیا۔ عامر لیاقت حسین اگر کہیں ہول سیل ریٹ پہ صحیفے بیچ رہے ہوں تو ہاتھ پھر جنید جمشید کا بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ طارق روڈ سے ٹھیلا کھسکائیں گے اور ہر دل کو پاکستان کرنے چلے آئیں گے۔ کوئی فتوی بھی روک سکے تو روک کے دکھا دے۔

قصور کس کا۔؟

سب ایک طرف ہوجائیں۔ اس سوال پہ صرف ان اہل علم نے سوچنا ہے جنہوں نے مسندوں کے چار پائے مسخروں کے کندھوں پہ ٹکا رکھے ہیں۔ یہ مسخرے مسند اتنی اونچائی پہ لے جا چکے کہ اہل علم کو چراغ تلے دکھنا بند ہو گیا ہے۔ اس بلندی سے اترنا ذرا مشکل ہو گا۔ شکایت کی جا نہیں، سوچنے کی بات ہے۔ رمضان کی اگر اس طرح اجتماعی تذلیل ہوئی ہے تو اس میں کچھ قصور اپنا بھی تو ہوگا۔ یہ جو ہر شو میں کمپنیوں سے آنے والے کچرا مال کے لیے غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا جارہا ہے، بے کسوں کی تذلیل ہورہی ہے، اس میں کہیں کچھ ہاتھ ہمارا بھی تو ہوگا۔ جن ناداروں کو نامعلوم ہاتھ سے دینے کا حکم تھا اب رمضان میں ان کی عزت نفس کو پورے اطمینان کے ساتھ پامال کیا جائے گا؟ دیکھتی آنکھ نے تو فقط وہ تماشے دیکھ کر چپ سادھی ہے جس میں ایک غریب الدیار خاتون سے ایک موٹر سائیکل کے لیے عمر بھر کی عزت چھینی جا رہی ہے، کیمرے کے پیچھے کا وہ منظر تو آپ نے دیکھا نہیں کہ جس میں راجن پور سے آئی ہوئی مائی ٹکٹ کے حصول کے لیے پندرہ دن ذلیل ہوتی ہے۔ اہل علم نے چہرے اگر متعارف ہی نہیں کروائے تو میڈیا سے شکایت کیسی؟ اورجن بھگوڑوں نے جگاڑ لگا کر اپنے چہرے کیمروں سے متعارف کروا دیے ہیں، ان کا کیا جاتا ہے؟ وہ اپنا منصب پا چکے ہیں۔ ٹکے دو ٹکے کے واسطے پازیبیں بھی توڑنی پڑ جائیں تو توڑ دیں گے۔ نومن تیل نکلتا ہے کہ نہیں نکلتا، ان کا درد سر ہی نہیں۔ آپ مگر خوش گمانی میں تھے اور خوش گمان رہ جائیں گے۔ تقدیس کے پردوں سے ذرا باہر جھانکیے، آنکھ کھولیئے کہ علم رسوا ہوگیا، انسانیت خوار ہوگئی۔ شہر کو سیلاب لے گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments