خوارج اور عقل کے اندھے اور لنگڑے چوکیدار


روشن و رخشاں نیئر و تاباں ، درخشاں دینِ مبینِ اسلام کو کمزور اور رسوا کرنے کی کوششوں کی تاریخ بڑی پرانی ہے ۔ پیغمبر اکرم کی زندگی سے ہی یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اعلانِ نبوت کے پہلے دن ہی سے دشمن ،نادان دوستوں کی مدد اور پر خلوص اور رضاکارانہ خدمات سے آج بھی یہ کام بہترین اور احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے ۔

بد قسمتی سے تاریخ کی کتابوں میں درج اسلامی تاریخ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ ملوکیت کی تاریخ ہے یہ فاسق وفاجر حکمراں اسلام کا نام لے مسلمانوں پر حکومت کرتے رہے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے رہے ہیں ۔

خدا ، قرآان ، شریعت ،ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے ہماری بساط ہی کیا ہے کہ ہم اللّہ کی اور دین کی ہمہ جہت حقیقت کو اپنی ناتواں اور محدود عقل سے سمجھ سکیں ہم تو صرف کوشش کرسکتے ہیں اپنی بہترین کوشش اور بس ۔

ہمارے لیے تو خدا اور دین ، صرف اور صرف پیغمبر اکرم کی بہترین اخلاق سے مرصع زبان کا فرمان ہی سارا کا سارا دین ہے جن کی صداقت اور امانت کی گواہی دشمن کافر اور مشرک بھی دیں جو قرآن کو قرآن کہے اور حدیث کو حدیث کہے اسی ایک زبان سے ۔ اب آپ کو اگر اس زبان پر یقین ہے تو آپ مسلمان ہیں ورنہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔

اسلام تو نام ہی ظلم وجبر اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کا ہے ۔اللّہ کو توحید کے اقرار سے یا انکار سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی وہ تو صرف ظلم و جبر اور ناانصافی پر تڑپ جاتا ہے اسی لیے وہ توحید کے منکروں کے ساتھ بھی صرف عدل اور انصاف کے تقاضے پورا کرنے کی شرط پر ہی گزارہ کر لیتا ہے

اسلامی نظام کے قائم کرنے کوشش ضرور کی جاسکتی ہے لیکن اگر کوئی دوسرا نظام چاہے وہ سیکولر نظام ہو ، جمہوریت ہو یا سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظام ہو انسانوں کو عدل اور انصاف فراہم کررہا ہے اورغالب اکثریت اس سے خوش ہے تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔

قرآن کی واضح اور صاف آیت ہے جس میں مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ جو رسول تمہیں دے دیں وہ لےلو اور جس سے منع کردیں وہ چھوڑ دو اور ساتھ ہی کسی دوسری بہت ہی آسان سی آیت میں مسلمانوں کو سختی سے خبردار بھی کردیا کہ رسول اکرم کی آواز سے اپنی آواز کبھی بھی اونچی نہیں کرنا ورنہ سارے نیک اعمال غارت ہو جائیں گے ۔

اب ذرا سنبھل کے مسلمان اپنی تاریخ کو دیکھیں کہ ہم رسول اللّہ کی زندگی ہی میں کتنے اللّہ اور رسول اللّہ کے اطاعت گزار تھے۔اپنی زندگی میں تو خیر پیغمبر درگزر کرتے رہے مگر تاریخ سب ریکارڈ کرتی رہی ۔ وفاتِ پیغمبر کے فوراً بعد جو کارنامے ہم مسلمانوں نے انجام دئیے ہیں یہ آج کا بدزبان ، بد تمیز ، ٹانگوں کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی معذور بدنامِ زمانہ مولوی جو اپنی زبان اور بیان سے مولوی کم اور کوئی غنڈہ ، بدمعاش یا ٹھگ زیادہ دکھائی دیتا ہے اسی تسلسل کا نام ہے ۔

جو دین رسول اللّہ نے پہنچایا وہ کس نے کتنا سیکھا ،کتنا سمجھا ، وہ سب تو کہیں بہت پیچھے رہ گیا سامنے تو بس خلافت اور جانشینی کے حصول کی شروع ہونے والی بھاگ دوڑ ہی نظر آئی جب کہ ابھی رسول اللّہ کو دفن بھی نہیں کیا گیا تھا ۔ مسلمان آج تک بھی نماز جیسی مشہور عبادت کے لیے یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ پیغمبر اکرم ہاتھ کھول کے نماز پڑھتے تھے یا ہاتھ باندھ کے پڑھتے تھے باقی اتنے بڑے قیامت تک باقی رہنے والے دین کے دوسرے ہزاروں مسائل کا ذکر تو یہاں ممکن نہیں ہے ۔

خیر جو ہوا سو ہوا مسلمانوں نے شروع کے سال مل جل کے دین اور مسلمانوں کے بہترین مفاد کی خاطرمسائل کو حل کر کے گزار لیے مگر تیسر ی خلافت سے معاملات بزرگانِ دین کے ہاتھ سے نکل کے خادم حسین سے ملتے جلتے ٹھیکیداروں اور چوکیداروں کے ہاتھ میں آگئے ۔نتیجہ میں حالات بگڑ گئے اور تیسرے خلیفہ شہید ہوگئے۔ اس شہادت کو بنیاد بنا کر اس کے بعد جو قتل وغارت گری شروع ہوئی تھی وہ مختلف حوالوں سے مسلمانوں میں آج بھی جاری ہے ۔

مسلمان اسلامی تعلیمات اور اسلامی حسنِ عمل اور حسنِ اخلاق کی باتیں تو کرلیتے ہیں مگر ان پر سمجھ کر عمل کرنا شاید ضروری نہیں سمجھتے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول اللّہ کی وفات کے صرف پچاس سال بعد یذید ملعون وارثِ رسول اللّہ بن کر وحی کا انکار کرتا ہے دین کو بنی ہاشم کا رچایا ہوا ڈھونگ قرار دیتا ہے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرتا ہے سارا اسلامی معاشرہ جان کے خوف سے خاموش تماشائی بن جاتا ہے اور پھر اس دین کی سچی تعلیمات کی حفاظت کے لیے نواسۂ رسول کو کربلا میں گھر کا گھر شہادت کے لیے پیش کرنا پڑتا ہے ۔

چوتھی اور آخری خلافتِ راشدہ کے نہایت پُر آشوب حالات کے دوران خوارج کا بھیانک فتنہ جو مسلمانوں کوآپس میں در پیش اختلافات اور مسائل کی وجہ سے پیش آیا تھا ،اسلام کے نام پر وہ شدید بدنما داغ ہے ،جس کے اثرات آج بھی ہمیں مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں صاف نظر آتے ہیں ۔

مستند حوالوں سے یہ ثابت ہے کہ یہ خوارج انتہائی مقدس ، بڑے عبادت گزار ، شبِ زندہ دار ، کثرت سے روزہ رکھنے والے ، ماتھے پہ سجدوں کے نشان رکھنے والے اور بڑی بڑی ڈاڑھیاں رکھنے والے لوگ تھے ۔ اسی تقدس اور زعمِ عبادت میں اس قدر خود سر اور شوریدہ سر ہوئے کہ حق و باطل کی تمیز کی زحمت کرنے کے بجائے خود ہی حق کے علم بردار بن گئے اور اور اس بد ترین جہالت اور گمراہی سے مغلوب ہوکر امیرِ شام معاویہ ابن ِ ابو سفیان کے ساتھ ساتھ چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علی مرتضیٰ کو بھی کافر قرار دے ڈالا ۔

معمولی اور غیر اہم باتوں پر بالکل اسی طرح جیسا آج کل ہمارے وطنِ عزیز پاکستان میں ہو رہا ہے بےگناہ غریب انسانوں کا قتلِ عام شروع کردیا اور آخر میں حضرت علی مرتضیٰ سے جنگ میں بد ترین شکست کے بعد ،اور تمام خوارج کے قتل ہونے کے بعد ،بچ جانے والے آٹھ دس خوارج نے ،سازش کرکے ،حضرت علی مرتضیٰ کو بھی مسجد میں سجدے کی حالت میں شہید کر ڈالا ۔

حضرت علی نےاس سنگین اور اوّلین فتنہ کے متعلق خود فرمایا تھا کہ دین اسلام میں خوارج وہ بدترین فتنہ تھے کہ جس کو میرے علاوہ اسلام کی کوئی دوسری بڑی سے بڑیی شخصیت بھی نہ اس فتنہ کو پہچان سکتی تھی اور نہ ہی اس فتنہ کی آنکھ پھوڑ سکتی تھی جس طرح میں نے اس فتنے کی آنکھ پھوڑی ہے خوارج کا ظاہری تقویٰ اور تقدس مرعوب ہوکر کوئی دوسرا یہ ہمت اور حوصلہ نہیں کرسکتا تھا جو صرف اور صرف میں علی ہی کرسکتا تھا ۔کیونکہ قرآن کے مطابق نفسِ رسول ہونے کی وجہ سے ، وارثِ علمِ رسول ہونے کی حقیقت سے ، رسول اللّہ کے ارشادات کی روشنی میں ، اور اسلام کی خدمات کے حوالے سے ، اسلام اور مسلمانوں میں جو میرا مقام ہے ، وہ ہی اس تقدس میں چھپی ہوئی جہالت اور گمراہی کا پردہ چاک کر سکتا تھا ۔

آج عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر جن مسائل کا ہم مسلمان شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی خوارج کی سوچ ، فکر والا رویہ ہے ۔ کہاں امن ، اور انسانیت کا علمبردار ، جانوروں اور درختوں کی بقاء اور سلامتی کا درس دینے والا اسلام اور کہاں اسلام کے نام پر امریکہ کی روس سے لڑی جانے والی جنگ کا ایندھن بننے والے مسلمان افغان مجاہدین ، اس کے فوراً بعد سی آئی اے کے تربیت یافتہ اسامہ بن لادن ،اورافغان طالبان ، امریکہ اور اسرائیل اور خوارج ہی کے سلسلے کی ایک کڑی آلِ سعود کے نمک خوار داعش کے خونخوار ، جنگلی اور وحشی درندے اور اب یہ عقلی اپاہج خادم اور چوکیدار ۔ مسلمان ذرا سوچیں کہ امریکہ کی مدد سے بھی اسلامی نظام یا انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ؟

یہ اسلام کا اصل اور خوبصورت چہرہ نہیں ہیں ۔ یہ سب ہماری حالیہ تاریخ کا اسلام کے نام پر بد نما سیاہ داغ ہیں یہ سب ایک دھوکہ ہے ایک جال ہے ہمیشہ سے جاری حق وباطل کی جنگ میں دینِ اسلام کو بدنام کرنے کا اور اس میں سب دشمنوں کے ساتھ یہ جاہل اور گمراہ مسلمان بھی اسلام کی اپنی من مانی تعبیر اور تفسیر کرکے ، اپنی نہایت حقیر دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لیے ، ان اسلام کے بد خواہوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔

مگر اب لگتا ہے کہ پاکستان کے کچھ پرانے خیر خواہوں کو ہوش آرہا ہے جب ہی خادم حسین کے دھرنوں کا معاملہ زیادہ آگے نہیں بڑھا (شاید کچھ اپنی ہی حکومت کا خیال بھی مانع رہا ہوگا) بہر حال جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو گیا امید ہی کرسکتے ہیں کہ معاملات کو اور زیادہ بہتر کیاجائے

آجکل کے حالات میں عمران حکومت سے اور ریاستی اداروں سے اپنے تمام تر اختلافات اور تحفظات کے باوجود ہم آئین اور قانون کی بالا دستی اور آسیہ بی بی کو انصاف کی فراہمی پر حکومت اور ریاستی اداروں کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں کیوں کہ بہر حال یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).