بھنگی کو بھی بھوک تو لگتی ہے


سمجھ میں نہیں آ رہا کہ عمران خان کی تقریر کو نئے پاکستان کے مستقبل کی بنیاد سمجھ کر خوش ہوں یا پرانے پاکستان کے مشتعل مولویوں کے لئے آگ پھیلانے کا بنیاد بننے والی تقریر پہ آہ وفغاں کروں۔

آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ درست یا غلط آ نے کے نتائج تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر وقتی طور پہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ آسیہ مسیح نے گستاخی رسول ص نہیں کی تھی اور اگر آسیہ مسیح توہین رسالت کے جرم کا ارتکاب کرتی تو ضرور 295 c کے تحت سزا پاتی۔

کون جانتا تھا کہ سنہ 2009 سے صوبہ پنجاب کے دل لاہور کے نواحی ضلع ننکانہ سے شروع ہونے والا ایک معمولی کیس ملک پاکستان میں کتنی انار کی پھیلانے کا سبب بنے گا۔ اور کتنے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اور ایک اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ مسیح ایک گمنام گاؤں اٹاں والی (ضلع ننکانہ) کی رہائشی ہونے کے باوجود دنیا میں جانی پہچانی جانے لگے گی۔

ان کے لبوں پہ ہمارا نام تو آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے

اور یوں آسیہ مسیح فالسے کے کھیتوں میں کام کرتی پگڈنڈیوں سے گزرتی لاہور کی سڑکوں سے ہوتی ہائیکورٹ کی گیلریوں میں ذلیل ہوتی کوٹ لکھپت جیل کی چکی پیستی ہوئی زندگی کی مشکلیں جھیلتی جان ہتھیلی پہ رکھتی اور لمحہ بہ لمحہ موت کو قریب ہوتے دیکھ کر اسلام آباد کی کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پہ لہو لہان پیروں سے چلتی پاکستان کے سب سے بڑے انصاف کے ادارے سپریم کورٹ کی دہلیز پہ زنجیر ہلاتے پائی گئی۔ اور سپریم کورٹ نے اپنی پوری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی دانست کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آسیہ مسیح کو توہین رسالت کے کیس سے بری الزمہ قرار دیا۔

آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ کچھ روز پہلے ہی ملکی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے محفوظ قرار دیا گیا تھا اور مورخہ 31 اکتوبر 2018 کو اس کیس کا فیصلہ بلا حیل و حجت سنا دیا گیا اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تمام پاکستانیوں کا پاکستان قرار دیا گیا جس میں تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق میسر ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ مسیح کے حق میں آنے کے بعد ہماری قوم میں غم وغصے کا طوفان ابل پڑا اور لوگ احتجاجی مظاہروں کے لئے سڑکوں پہ نکل آئے۔

اقلیتیوں کے ساتھ ہمارے روئیے درست ہیں یا نہیں مگر ان عجیب رویوں کی وجہ سی ہماری جگ ہنسائی خوب ہو جاتی ہے ویسے تو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ان کے اصحاب کرام، تابعین تبع تابعین اور اولیاء کرام کی زندگیوں کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جو ہمیں غیر مسلموں سے محبت کا درس دیتے ہیں مگر حال ہی میں پڑھا ہوا عطا اللہ شاہ بخاری سے منسوب ایک خوبصورت واقعہ قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔

جالندھر کے خیر المدارس میں جلسہ ہوا اور جلسے کے اختتام پر کھانا لگا، دستر خوان پر امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ بھی تھے ان کی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی تو اس کو فرمایا
” بھائی کھانا کھا لو“

عیسائی نے جواب دیا
”جی میں تو بھنگی ہوں“

شاہ جی نے درد بھرے لہجے میں فرمایا
”انسان تو ہو اور بھوک تو لگتی ہے“

یہ کہہ کر اٹھے اور اور اس کے ہاتھ دھلا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ وہ بیچارہ تھر تھر کانپتا تھا اور کہتا جاتا تھا
”جی میں تو بھنگی ہوں“

شاہ صاحب نے خود لقمہ بنا کر اس کے منہ میں ڈالا، اس کا حجاب اور خوف کچھ دور ہوا تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا جب اس نے آدھا آلو کاٹ لیا تو باقی آدھا شاہ صاحب نے خود کھا لیا، اسی طرح اس نے پانی پیا تو اس کا بچایا ہوا پانی بھی شاہ صاحب نے پی لیا۔ وقت گزر گیا اور وہ عیسائی کھانا کھا کر غائب ہو گیا۔ اس پر رقت طاری تھی، وہ خوب رویا اور اس کی کیفیت ہی بدل گئی۔

عصر کے وقت وہ عیسائی اپنی نوجوان بیوی اور بچے کو لے کر آیا اور کہا

” شاہ جی! جو محبت کی آگ لگائی ہے وہ بجھائیں بھی آپ، اللہ کے لئے ہمیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیں“
اورمیاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے۔

وہ ادائے دلبری ہو یا نوائے عاشقانہ!
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
(بخاری کی باتیں، ص 29.30 )

یہ تھے ہمارے اسلاف کے اعمال جو غیر مسلموں کے دلوں کو فتح کر لیتے تھے مگر ہم آج ہماری حرکتوں کی وجہ سے غیر مسلم اسلام کو غلط سمجھ رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی نہ صرف تائید کی بلکہ فیصلے کے خلاف سڑکوں پہ نکلنے والے مظاہرین کو بھی دھمکی دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ روڈ بلاک ہونے سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے (شاید ایک سو چھبیس دن جو عمران خان نے روڈ بلاک کیے وہ لوگوں کے لئے کوئی نعمت تھے جو آ ج تکلیف دہ ہیں ) اور جو کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے گا اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ وزیر اعظم کی اس تقریر نے مظاہرین کے لئے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مظاہرین مزید مشتعل ہو گئے۔ جب کہ دوسرے دن سلطان راہی کی مانند بڑھکیں مارنے والے وزیر مملکت شہریار خان آفریدی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین سے پیار سے پیش آنے کا حکم سنایا۔

عمران خان صاحب شاید بولنے میں جلدی کر جاتے ہیں یا یو ٹرن لینے میں جلدی کر جاتے ہیں اس بات کا جواب خان صاحب ہی دے سکتے ہیں۔

خان صاحب یہ وہی مذہبی کارڈ ہے جو آپ اور آپ کے لواحقین مجاہدان ختم نبوت شیخ رشید احمد اور ”ہمارے اپنے لوگ“ مولانا خادم رضوی صاحب جیسے لوگ مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف سیاسی مفاد کے لئے کھیلتے رہے ہیں۔ اور ماضی میں خود مسلم لیگ ن بھی پی پی پی کے خلاف اس کھیل کا حصہ رہی ہے۔ سب سے پہلے دھرنا سیاست کا آغاز مسلم لیگ ن نے ہی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے پی پی حکومت کے خلاف کیا اور پھر حضرت علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کو ملک میں پھیلایا اور رہی سہی کسر خود عمران خان صاحب نے دھاندلی کے خلاف دھرنا دے کر پوری کر دی۔ حالانکہ سیاسی مبصرین اس بات پہ چیختے رہ گئے کہ دھرنوں کی سیاست ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی اور مستقبل میں ہر تحریک دھرنوں کے زور پہ ریاست سے اپنی بات منواتی رہے گی جو کہ کسی بھی ریاست کے لئے مقام عبرت اور باعث شرم ہی ہو گا کہ تحریکیں، دھرنے اور احتجاج اپنی من مرضی سے ریاست کو چلائیں۔

اگر خان صاحب مذہبی جنون کو کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہی تھے تو ڈاکٹر عاطف والے معاملے میں اتنا اسٹینڈ لیا جا سکتا تھا اور مذہبی پریشر کو برداشت کر کے ریاستی اجارہ داری قائم کی جا سکتی تھی کہ آج آسیہ مسیح والا کیس جو انتہائی حساس نوعیت کا ہے کے بارے میں نہ تو خان صاحب کو دھمکی دینے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی مظاہرین خان صاحب کی باتوں سے اتنے مشتعل ہوتے۔ ویسے خان صاحب کو اتنا اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ پر تشدد ہجوم کو روکنا ریاست کی مجبوری اور ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ شوق ہوتا ہے۔

خان صاحب کبھی فیصلہ کرنے میں جلد باز واقع ہوتے ہیں اور اور کبھی یوٹرن لینے میں لیکن ایک بات کنفرم ہے چاہے خان صاحب فیصلہ جلدی میں کریں یا یو ٹرن جلدی لیں اپنی دانست میں کام وہ پورے خلوص سے کرتے ہیں۔

عدم خلوص کے بندوں میں اک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوا کرتے ہیں

عمران خان صاحب اپنے فیصلے پہ کتنی دیر استقامت دیکھاتے ہیں اس کا پتہ آنے والے دنوں میں ہی لگے گا اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ریاست کو اپنی پالیسیوں کے مطابق مستحکم رہنے کی ہمت و توفیق بخشے۔

(اس فیصلے کے حوالے سے لکھے گئے کالم کو ہرگز ہر گز گستاخ رسول کے حق میں نہ سمجھا جائے ہاں مگر حقائق سے ہٹ کر ہر کسی پہ گستاخی رسول کا فتویٰ لگا کر گستاخ ثابت نہ کیا جائے۔
کسی گستاخ رسول کو سزا دینے سے پہلے اچھی طرح جانچ کر لی جائے کہ واقعی وہ گستاخی رسول کا مرتکب ہوا بھی ہے یا خواہ مخواہ نرغے میں دیا جا رہا ہے۔ گستاخوں کو سزا ضرور اور ضرور ملنی چاہیے ہاں مگر جب کوئی گستاخ ٹھہرے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).