نوکمپرومائز کی لکیر


کھل ایسی باتیں ہیں جو انسان کھل کر نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہمارا معاشرہ عدمِ برداشت کیا شکار ہے اور عدمِ برداشت اگر مذہبی طبقے میں 70 % ہے تو لبرل طبقہ 80 % عدمِ برداشت کا شکار ہے ذاتی تجربات کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ لبرل طبقہ مذہبی طبقہ سے زیادہ عدمِ برداشت کا شکار ہے۔

مذہبی لوگوں نے کم از کم اپنی عدمِ برداشت کے لئے ایک لکیر کھینچ رکھی ہے اس لکیر سے جو بھی پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے تو مذہبی پسند لوگ برداشت نہیں کرسکتے ان کے نزدیک وہ لکیر ہر شئے سے بڑھ کر ہے جسے ”نوکمپرومائز“ کی لکیر کہا جاتا ہے اس کے علاوہ جتنے نظریاتی اختلافات مذہبی طبقہ میں پائے جاتے ہیں شاید کسی اور نظریات میں ہوں وہ اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں سوائے چند مفاد پرست لوگ جو مذہب کو سمجھ نہیں پائے یا پھر مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔

جہاں تک بات ہے لبرل طبقہ کی تو لبرل طبقہ سے جڑے لوگ خود کو آزاد خیال کہلوانے کے باوجود ہر چیز کو شدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ وہ خود کو نظریات سے آزاد کہلواتے ہیں۔ یہ غلط ہے کہ لبرل طبقہ نظریاتی نہیں جتنے نظریاتی اور اپنے نظریات میں سخت گیر یہ لبرل طبقہ والے ہیں شاید کوئی اور ہو۔ مذہبی طبقے کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ اکثر اپنے نظریات میں غفلت کا شکار ہوتے ہیں جب مشکل وقت آتا ہے تو یک دم نکل پڑتے ہیں اور بہت سی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں اور اسی کمزوری کو پیش کرکے انہیں بدنام کیا جاتا ہے۔

جبکہ لبرل طبقہ دن رات کے چوبیس گھنٹے، ماہ کی تیس دن، سال کے بارہ ماہ اپنے نظریات کی ترویج اور تبلیغ میں لگتے رہتے ہیں انہیں جو بھی سادہ انسان مل جائے وہ پکڑ کر ساتھ بٹھا لیتے ہیں جب تک اس کی سادگی میں شکوک و شبہات پیدا کرکے اسے قائل نہ کرلیں آرام سے نہیں بیٹھتے۔ کئی سادہ لوگ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے اور اپنا بہت کچھ کھو بیٹھے اب وہ واپس پلٹنا بھی چاہیں تو نہیں پلٹ سکتے۔

یہ معاشرہ جب تک عدمِ برداشت کا شکار ہے تب تک بہتری ناگزیر ہے ہر انسان کو اپنے دائرے میں رہنا ہوگا اپنا اور اپنے نظریات کا احترام کروانے کے لئے ضروری ہے کہ نوکمپرومائز کی لکیر سے نہ پھلانگا جائے۔ آزاد خیالی کا مطلب ہی یہی ہے کہ تمہیں کسی سے بھی اس کے نظریات کی بنا پر نفرت نہیں ہونی چاہیے اگر آپ کسی سے اس کے نظریات کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں تو آپ خود کو آزاد خیال نہیں کہلوا سکتے۔ کسی کی نوکمپرومائز والی لکیر سے پھلانگنے کے بعد اسے اختلاف رائے کا نام دینا معاشرے کو عدمِ برداشت کی طرف دھکیلنا ہے معاشرہ میں عدمِ برداشت کا سیلاب جس تیزی سے رواں ہے سب کو بہا لے جائے گا۔

آئیے معاشرے کی تعمیر برداشت سیکھنے اور سکھانے سے شروع کریں۔ آپ بھی اس کاوش کا حصہ بننے اور آج سے ہی معاشرے میں موجود عدمِ برداشت کے پیغام پر کام کریں کسی کی نوکمپرومائز والی لکیر سے پھلانگنے کی غلطی نہ کریں معاشرے میں خود ہی برداشت کا لیول بڑھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).